مضبوط خاندانی رشتے زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، سلمان خان
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
٭سلمان خان کی پہلی بار ارباز خان اور ملائیکہ اروڑا کی طلاق پر لب کشائی
بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان عرف سلو بھائی نے پہلی بار چھوٹے بھائی، ہدایت کار و پروڈیوسر ارباز خان کی ان کی سابقہ اہلیہ، اداکارہ ملائیکہ اروڑا سے طلاق کے بارے میں بات کی ہے۔
سلمان خان نے حال ہی میں اپنے بھتیجے ارہان خان کی پوڈ کاسٹ ڈمب بریانی میں انٹرویو دیا۔پوڈ کاسٹ کے دوران ناصرف سلمان خان نے دلچسپ موضوعات پر گفتگو کی بلکہ بھتیجے کو والدین میں علیحدگی کے بعد بچوں پر پڑنے والے اثرات، زندگی کے اتاڑ چڑھا اور ان سے نمٹنے سے متعلق مشورے بھی دیے۔
سلمان خان نے ارباز خان اور ملائیکہ اروڑا کی علیحدگی کے حوالے سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ارہان خان ابھی زندگی کے اتار چڑھا سے گزرا ہے، ماں باپ کے تعلقات یعنی علیحدگی کے بعد بچوں کو پریشان کن حالات سے خود ہی نمٹنا ہوتا ہے۔
سلمان خان نے ارہان خان سے کہا کہ ایک دن آپ کا اپنا خاندان اور گھر ہو گا، آپ کو اپنا صحت مند گھرانہ بنانے کے لیے پہلے خود پر توجہ اور خود کو مضبوط بنانا ہو گا۔ سلو بھائی نے ارباز خان اور ملائیکہ اروڑا کی طلاق سے متعلق تفصیل سے بات کرنے کے بجائے بامعنی گفتگو کی۔
انہوں نے ارہان خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ خاندان کے ساتھ دوپہر اور رات کے کھانے کا کلچر ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے اور خاندان کا ایک ہی سربراہ ہونا چاہیے جس کے ساتھ سب کو احترام سے پیش آنا چاہیے۔سلمان خان نے ارہان خان کو سمجھانے کے انداز میں کہا کہ زندگی میں کچھ معاملات انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود اپنی زندگی کا مثبت رخ تلاش کرنا ضروری ہے، مضبوط خاندانی رشتے زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ ارباز اور ملائیکہ نے 1998 میں شادی کی تھی اور تقریبا 20 سال کی شادی کے بعد 2017 میں اس جوڑی کے درمیان علیحدگی ہو گئی تھی۔علیحدگی کے بعد سے اس جوڑے نے توازن برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا ہے اور اپنے بیٹے ارہان خان کے لیے بطور والدین بھی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اور ملائیکہ علیحدگی کے ارہان خان کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
آپ جو سوچ سکتے ہیں وہ کر بھی سکتے ہیں
یہ ممکن ہے کہ چیزیں عین اسی طرح واقع ہوں جیسے آپ چاہتے ہیں۔ چیزوں کی وقوع پذیری اگرچہ انسانی ارادے کی مکمل طور پر محتاج نہیں ہے۔ لیکن ایک تو انسان احسن تقویم ہے اور دوسرا وہ کائنات کی تمام چیزوں کو اپنے مصرف میں لانے پر قادر ہے۔ لہٰذا وہ چیزوں کو جیسے چاہے ایک خاص حد تک بتدریج وقوع پذیر کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی زبان میں انسان نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بات نہیں بھولنی چایئے کہ بطور ’’بنی نوع انسان‘‘ اور ’’ابن آدم‘‘ ہمارے دماغ میں صرف وہی کچھ آتا ہے جس کے واقع ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں کیونکہ بطور خلیفتہ الارض ہمارے دماغ اور تخیل کی ساخت اور ماہیت کی تخلیق ہی کچھ ایسی کی گئی ہے کہ ہمارے دماغ میں چیزیں وقوع پذیر ہونے ہی کے لئے آتی ہیں۔
اس بات کو سلیس اور سادہ زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کے واقع ہونے کا فطری امکان نہیں ہوتا ہے وہ ہمارے دماغ میں ہی نہیں آتی ہیں۔انسان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ’’افضل المخلوقات‘‘ ہے کہ جس وجہ سے قرآن مقدس نے اسے ’’خلیفتہ الارض‘‘ قرار دیا ہے۔ انسان کی تخلیق کو دو مرحلوں میں اٹھایا گیا ہے کہ اول اس کی روح پیدا کیے جانے کے بعد ’’عالم ارواح‘‘ میں رہی ہے اور کائنات بعد میں بنی ہے جس کو اس نے بنتے اور تخلیق ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ چیزوں کے بننے اور ان کے طبیعاتی (و سائنسی) طریقہ کار کو پہلے سے جانتا ہے اور دوم انسان کے جسم کو روئے زمین کی مٹی سے بنایا گیا ہے جس وجہ سے وہ ’’زمینی حقائق‘‘ اور اپنے گردونواح کے ’’ساختی علوم‘‘ سے پیدائشی طور پر آگاہ ہے اور وہ غوروخوض سے ان پر عبور حاصل کر سکتا ہے کہ دنیا کے ہم سارے انسانوں اور کائنات کا آغاز ایک ہی نکتہ و ابجد سے ہوا ہے۔
اس لحاظ سے کائنات اور عالم موجودات کے تمام تر علوم یعنی چیزوں کی ساخت اور کارکردگی کا سارا احوال ہماری ’’گھٹی‘‘ میں ہے۔ کائنات اور زمین و آسمان کی ہر چیز اور روئے زمین کی زندگی کے تمام حالات و واقعات سے بطور بنی نوع انسان اور ابن آدم ہم پہلے سے ہی گزر چکے ہیں اور ان سے واقف و آشنا ہیں۔ یہاں اس بات پر غور کریں کہ ’’علم کل‘‘ پہلے سے ہی ہمارے ’’تحت الشعور‘‘ میں موجود ہے یعنی اب چیزوں کو اپنے شعور میں لانا، واقع ہونے دینا، کرنا یا انہیں مفید انداز میں اپنے مصرف میں لانا ہماری عقل و شعور، ادراک اور عمل پر منحصر ہے ۔ مایوسی کو اسی لئے اسلام میں گناہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ انسان کو بے عمل بناتی ہے، حقیقی زندگی سے دور لے جاتی ہے اور بعض صورتوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔
علامہ محمد اقبال نے ارشاد فرمایا تھا کہ، ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی، یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔‘‘ زندگی اور کائنات پر غوروفکر کریں آپ پر زندگی کی ہر حقیقت اور کائنات کا ہر راز وا ہو سکتا ہے۔ زندگی کو جنت اور دوزخ بنانا انسان کے اعمال سے منسلک ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں مثبت اور منفی سوچ اور اعمال ہی کا فرق ہے۔ اسی لئے ایک حدیث شریف میں ایک لمحے کی فکر کو دو جہانوں کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ آپ تعمیری طور پر سوچیں گے تو آپ پر بتدریج تمام اسرار و رموز کھلتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ آپ کے دماغ میں جو بھی خیال آئے اسے آپ مجسم کر سکتے یعنی ’’آپ جو سوچ سکتے ہیں وہ کر بھی سکتے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام ترین اسرار و رموز فطری طور پر آپ کے اندر رکھ دیئے گئے ہیں، اب ان کو کھوجنا اور ان کو عمل میں لانا آپ کا کام ہے۔
اس کے باوجود ہم اپنے آپ کے علاوہ غیر مانوس عناصر کی موجودگی کو بھی اپنے آس پاس محسوس کر سکتے ہیں۔اگر زندگی میں آپ کچھ بڑی کامیابیاں سمیٹنا چاہتے ہیں تو سوچنے کا فن سیکھیں۔ دنیا کا کوئی بھی کام اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب پہلے آپ اپنی سوچ اور خیالات سے اس کے ہر پہلو کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ غوروفکر زندگی میں ہر کامیابی کی بنیاد ہے کیونکہ پہلے چیزیں ہمارے دماغ میں واقع ہوتی ہیں، اشکال بتاتی ہیں اور اس کے بعد وہ مادی اور حقیقی دنیا میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔