تہران میں عظیم الشان ریلی، اسرائیل کا تابوت اور ٹرمپ کے لئے عوامی مکے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔ اسلام ٹائمز۔ یوم اللہ کے عنوان سے امام حسین اسکوائر تہران سےریلی کا آغاز ہوا اور لاکھوں شرکا آزادی اسکوائر تک مارچ میں شریک ہوئے۔ ایرانی سال کے بہمن ماہ کی 22 تاریخ (11 فروری) کو انقلاب اسلامی کیا کامیابی کی سالگرہ پر جشن کے حوالے سے یوم اللہ کے عنوان سے تہران میں منعقد ہونیوالے مارچ کا آغاز صبح 10 بجے آزادی اسکوائر میں تلاوت قرآن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ترانے کیساتھ ہوا۔ تقریب میں فوجی اور سول حکام کے علاوہ غیر ملکی مہمان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر برج آزادی سے غبارے چھوڑے گئے، مسلح افواج کے چھاتہ بردار دستوں، آرمی بینڈز اور طلبہ کی طرف سے قومی نغمے بھی خصوصی پروگراموں میں شامل تھے۔ ملک بھر میں 7200 سے زیادہ رپورٹرز اور فوٹوگرافرز نے تقریب کی کوریج کی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جیسے المیادین، الجزیرہ، اور رشیا ٹوڈے نے بھی تقاریب کو رپورٹ کیا۔ شدید ردی کے باوجود صبح سویرے سے ہی لوگوں کا بڑا ہجوم آزادی اسکوائر کی طرف مارچ میں شریک ہوا، مارچ کے راستے میں ثقافتی پروگراموں کے لیے اسٹال لگائے گئے تھے۔ مارچ کے شرکا نے ایرانی پرچم اور مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، اور لاوڈ اسپیکروں پر مرگ بر امریکہ، مردہ باد اسرائیل اور ہم شہیدوں کی قوم ہیں، جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ریلی کے شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔
ایران طاقتور ہے اور دھمکیوں کی پروا نہیں کرتے، سردار حاجی زادہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے آج صبح 22 بہمن مارچ میں شرکت کی۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ میں اتنی ہمت نہیں ہے، ایران طاقتور ہے دھمکی آمیز الفاظ کا اثر نہیں لیتے۔ ٹرمپ کی تقریر 22 بہمن کے مارچ میں لوگوں کی زیادہ شرکت میں اضافہ کا باعث بنی، میجر جنرل موسوی
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے 22 بہمن مارچ کے موقع پر کہا کہ ٹرمپ کے دعووں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جشنِ انقلاب میں شرکت کرنے میں مدد دی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ 22 بہمن کے مارچ میں زیادہ سنجیدگی سے شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام لوگ مارچ میں ٹرمپ کے منہ پر مکے مارنے کے لیے اپنی بند مٹھیوں کے ساتھ شریک ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی ریلی موجودگی:
تقریب شروع ہونے کے چند منٹ بعد صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر مارچ میں شرکت کی۔ وزیر دفاع کی عوام میں موجودگی
امیر ناصر زادہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کی عسکری لیڈرشپ نے انقلاب اسلامی کے جشن کے موقع پر ہونیوالے مارچ میں شرکت کی۔
محسن رضائی کی مارچ میں شرکت
محسن رضائی، قومی اقتصادی رابطہ کاری کی سپریم کونسل کے سیکرٹری نے 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی۔ سابق صدر حسن روحانی کی ریلی میں شرکت
11ویں اور 12ویں حکومتوں کے صدر حسن روحانی نے بھی آج کے مارچ میں شرکت کی۔ عدلیہ کے سربراہ کی عوام میں موجودگی
عدلیہ کے سربراہ محسنی ایجی نے بھی 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی اور لوگوں کیساتھ گفتگو کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف، وزیر داخلہ اتابک، وزیر خزانہ ہمتی، جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ اسلامی، اسٹریٹجک امور کے لئے نائب صدر ظریف، ماحولیاتی تنظیم کے سربراہ انصاری، سردار رادان، رہبر انقلاب اسلامی کے معاون اور مشیر شمخانی، کونسل برائے اقوام و ادیان کے سربراہ علوی،حکومت کی انفارمیشن کونسل کے سربراہ حضرتی سمیت متعدد سرکاری اور قومی شخصیات نے ریلی میں شرکت کی۔
دفاعی صنعت کی کامیابیوں کی نمائش:
وزارت دفاع اور مسلح افواج نے 22 بہمن کی پریڈ میں وزارت کی دفاعی کامیابیوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ بکتر بند گاڑی طوفان -4، 8 میٹر گشتی کشتی (گالف)، 11 میٹر گشتی کشتی (رِب)؛ خرمشہر-4 میزائل، صفیر امید سیٹلائٹ کیریئر، حج قاسم میزائل، اور سکس بیرل لانچر فتح 360 میزائل لانچر ایرو اسپیس انڈسٹری کے شعبے کی کامیابیوں میں شامل ہیں جن کی نمائش کی گئی ہے۔
تہران کی سڑکوں پر اسرائیلی تابوت:
تہران کے عوام نے تابوت اٹھا رکھے تھے جن پر یروشلم پر قابض حکومت کا جعلی پرچم اور صیہونی رہنماؤں کے نشانات لگے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مارچ میں شرکت کی انقلاب اسلامی کے مارچ میں مسلح افواج کے سربراہ میں شریک ریلی میں
پڑھیں:
انقلابِ اسلامی ایران کی 46 ویں سالگرہ
ایران بھر میں دھہ فجر کی تقریبات عروج پر ہیں، یہ عشرہ ایران کی تاریخ کے اہم ترین ادوار میں سے ایک ہے، جو یکم فروری 1979 ء کو امام خمینی کی شاندار واپسی سے 11 فروری کو اسلامی انقلاب کے اعلان پر ختم ہوتا ہے۔ ہم پوری ایرانی قوم اور قیادت کو عظیم انقلاب اسلامی ایران کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جمہوریہ اسلامی ایران کے انقلابی عوام نے بانی انقلابِ اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی دانشمندانہ قیادت میں رضا شاہ پہلوی کی سیکولر اور امریکی حمایت یافتہ رِجیم کے خلاف آواز اٹھائی۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے ایرانی معاشرے میں بہت سے مصائب، معاشی خلاء اور عدم مساوات کو جنم دیا تھا اور اس کی خفیہ پولیس (ساواک) نے ایرانی نوجوانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے نچلے طبقے، علمائ، تاجر برادری اور طلباء میں بڑے پیمانے پر سیکولر حکومت کے خلاف بے اطمینانی پھیل گئی، جس کے نتیجے میں 1978ء میں امام خمینی کی حمایت میں اضافہ ہوا جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
انقلابِ اسلامی ایران کے بانی امام خمینی مرجع تقلید ہونے کے ساتھ اعلیٰ پائے کے سیاستدان بھی تھے۔ امام خمینی نے 14 سال جلاوطنی میں گزارے جس میں سے زیادہ تر عرصہ عراق میں گزارا۔ ان کو شروع میں 1964ء میں ایران سے ترکی جلاوطن کیا گیا جہاں وہ برسا شہر میں تقریبا ایک سال تک مقیم رہے۔ 1965ء میں امام خمینی کو عراق کے مقدس شہر نجف اشرف جانے کی اجازت دی گئی۔ جہاں وہ طویل عرصے تک جلاوطن رہے۔ بعد ازاں عراقی حکومت پر مغربی دباؤ کے باعث اْنہیں وہاں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور انہوں نے فرانس کے دارالحکومت پیرس کے نواحی علاقے نوفل لوشاتو کا رخ کیا۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران انہوں ایرانی عوام کے نام دروس کے ذریعے انقلابِ اسلامی کے حوالے سے شعور اْجاگر کرتے ہوئے اسلامی حکومت کے خدوخال سے متعلق ایرانی عوام کے درمیان آگاہی پیدا کی۔ انہوں نے اپنے دروس کے دوران شاہ ایران کی حکومت پر شدید تنقید کی اور اْنہیں یہودی ایجنٹ اور امریکی پٹھو قرار دیا۔ رضا شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے بڑھنے لگے اور امام خمینی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جلاوطنی کے آخری ایام میں امام خمینی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور اہم شخصیات کے ذریعے اپنے پیغامات ایرانی عوام کے نام برابر پہنچاتے رہے۔ اس دوران مختلف ایرانی رہنماؤں کا امام خمینی کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
1979ء میں جب ایرانی عوام اسلامی انقلابی تحریک کے سلسلے میں جابر شہنشاہ رضا شاہ پہلوی حکومت کے خلاف مختلف شہروں، علاقوں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے تو شدید عوامی دباؤ اور حکومت مخالف مسلسل مظاہروں کے نتیجے میں 16 جنوری1979 ء کو شاہ ایران نے ملک سے فرار کا راستہ اختیار کیا اور فرانس چلے گئے، جس کے دو ہفتے بعد امام خمینی نے ایران واپس آنے کا اعلان کردیا۔ امام خمینی کی واپسی کا اعلان ہوتے ہی اْس وقت کے وزیراعظم شاپور بختیار نے ملک کے ہوائی اڈے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ اس حکم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے جس میں متعدد افراد شہید ہوگئے۔ احتجاج کے نتیجے میں 29 جنوری کو ہوائی اڈے کھولنے کا حکمنامہ جاری ہوا۔ بالآخر یکم فروری 1979ء کو آیت اللہ خمینی اسلامی انقلاب کے بانی کی حیثیت سے 14 سال تک ملک بدری اور عراق و فرانس میں جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے اور ایران کے انقلابی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اپنے عظیم انقلابی قائد کا پرتپاک استقبال کیا۔ امام خمینی کی آمد نے حکومت کے خلاف جاری احتجاج میں شدت پیدا کردی۔ 8 فروری کو فضائیہ کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں نے امام خمینی کے پاس اپنی وفاداری کا اعلان کردیا۔ 11 فروری کو مسلح افواج کے اعلی افسران نے امام خمینی کے گھر پر حاضری دے کر بانی انقلاب اسلامی کے ساتھ یکجہتی اور ان کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے استعفیٰ پیش کئے۔مسلح افواج کے اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد حکومتی ادارے معطل ہوگئے اور 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب کی باضابطہ کامیابی کا اعلان ہوگیا۔ یوں ایران میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ حالات قابو سے باہر ہونے کے بعد شاپور بختیار بھی فرانس فرار ہوگئے اور اس طرح ایران میں ہزاروں سال سے قائم پہلوی شہنشاہی حکومت کا خاتمہ ہوکر اسلامی جمہوری حکومت کا سورج طلوع ہوا۔امام خمینی نے عوام سے پْرامن رہنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کا حکم دیا، حالات معمول پر آتے چلے گئے اور یوں طویل جدوجہد کے بعد عظیم ایرانی عوام کا ملک میں اسلامی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف خطے کی سیاسی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا بلکہ ایک ایسے راستے کا آغاز کر دیا ہے جس کا خاتمہ یقینی طور پر استکباری طاقتوں کی تباہی پر ہوگا۔ آج انقلابِ اسلامی ایران عالمی استکبار کے خلاف مظلوم اور کمزور اقوام کی اْمید بن گئی ہے۔ اس عظیم انقلاب نے دنیائے کفر و استکبار کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں آج غزہ فلسطین کے مجاہدین کی مزاحمت نے امریکہ اور اس کے بغل بچہ اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امریکہ و اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ گزشتہ سال ایران میں ہیلی کاپٹر فضائی حادثہ کے نتیجے میں دیگر اہم رہنماؤں سمیت اْن کی شہادت ہوئی۔ جس کے بعد ایران میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ساتھ ہی دستور کے مطابق دی گئی مدت کے دوران نئے ایرانی صدر کے انتخاب کا اعلان کیا۔ ایرانی عوام نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کے تناظر میں تمام تر مشکلات کے باوجود آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضاء کو قائم رکھا، انتخابات ہوئے اور مسعود پزشکیان نئے ایرانی صدر منتخب کرلیے گئے، جو اِس وقت پوری جرأت اور تندہی کیساتھ اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کی پیٹرولیم برآمدات کو صفر پر لانے کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ اگر امریکی صدر سمجھتے ہیں کہ ہماری معیشت تیل پر انحصار کرتی ہے تو یہ اْن کی غلط فہمی ہے، ہمارے پاس تیل کے علاوہ اور بھی بہت سارے ذرائع آمدن موجود ہیں۔ایرانی صدر نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک طاقتور ملک ہیں اور ہمارے ذخائر اور وسائل دنیا میں غیر معمولی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی اپنے حالیہ بیان میں پڑوسی ممالک کے ساتھ مضبوط اور گہرے دوستانہ تعلقات کو ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیح قرار دیا ہے۔ عراقچی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہیں۔انہوں نے کہا کہ تہران نے سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دور حکومت میں علاقائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کا آغاز کیا، جسے پزشکیان حکومت نے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کی بنیاد پر سعودی عرب کے ساتھ ایران کے سفارتی تعلقات پہلے ہی بحال ہو چکے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے دوستانہ روابط پر مبنی تاریخی تعلقات قائم ہیں۔ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ ایران اور پاکستان کے عوام بھی گہرے ثقافتی، تہذیبی، اسلامی رشتوں کی بدولت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی، ثقافتی، مذہبی وفود کے تبادلوں کا سلسلہ ایک مسلسل عمل ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی بین الاقوامی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر گہرے دوستانہ ثقافتی، تہذیبی رشتوں میں منسلک ہیں۔ پاکستانی زائرین کی ایک بڑی تعداد کا ایران کے راستے عراق کربلا و نجف میں مقاماتِ مقدسہ کی زیارات کے سلسلے میں آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ اپریل 2024ء میں شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تاریخ ساز دورہ پاکستان کے موقع پر دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا، جبکہ سکیورٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر اہم شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر مبنی معاہدوں، مفاہمی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ دونوں برادر ملکوں نے خطے کے حالات کے تناظر میں دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے سے بھی اتفاق کیا۔شہید ایرانی صدر اس سے قبل بھی پاک-ایران بارڈر پر تشریف لاکر پاکستانی سائیڈ پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کرچکے تھے۔ شہید ایرانی صدر نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد اور لاہور میں مختلف سرکاری اور عوامی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے لاہور میں شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے مزار پر حاضری دی اور انہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ شہید ایرانی صدر کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے وفد میں اْن کی اہلیہ اور شہید وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہ یان، کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
حال ہی میں پاکستان اور دیگر دوست ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں سعودی-ایران تعلقات معمول پر آگئے ہیں جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات اور خطے میں مستقبل کی صف بندی کے حوالے سے نہایت مفید اور مثبت اثرات کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ دْنیا بھر بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں امریکی-صیہونی اور مغربی گٹھ جوڑ کے خلاف مسلم ممالک سمیت روس، چین پر مبنی بلاک خطے کے مستقبل کے حوالے سے بڑی اور مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گا۔ (انشاء اللہ!)