سندھ کے سینئیر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ عمران خان کے الزامات احتساب سے بچنے اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے کی مہم کا حصہ ہیں۔

بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان  کے آرمی چیف کو کھلے خط  پر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی خود 2018 میں الیکٹورل انجینیرنگ کے الزامات کے درمیان برسر اقتدار آئے۔ عمران خان  کے الزامات  احتساب سے بچنے اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے ان کی جاری مہم کا حصہ ہیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ تمام آئینی ترامیم جمہوری عمل سے گزرتی ہیں۔ منتخب ججوں کے حوالے سے بانی پی  ٹی آئی کے الزامات گمراہ کن ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں ثاقب نثار کو استعمال کیا۔ افسوس کی بات  ہے کہ سابق  چیف جسٹس سابق ثاقب نثار نے بانی پی ٹی آئی کے لئے ایک کارکن کے طور پر کام کیا۔ عوام عمران خان اور ثاقب نثار کے گٹھ جوڑ کو آج تک نہیں بھولے ہیں۔ ثاقب نثار نے  جس طرح پانی پی ٹی آئی کے لئے بطور کارکن کام کیا اس کی مثال پاکستان  کی تاریخ  میں نہیں ملتی۔   

سینئر وزیر سندھ کا مزید کہنا تھا کہ عوامی حمایت کھونے کے بعد عمران خان جمہوری عمل کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں عدلیہ پر بے جا اثر ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کی موجودہ شکایات منافقانہ ہیں۔ ذاتی سیاسی فائدے کے لیے ریاستی اداروں کو بدنام کرنا غیر ذمہ دارانہ اور قومی استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔ بانی پی ٹی آئی جمہوری اداروں کا احترام کریں اور جھوٹے بیانیے کو پھیلانے سے گریز کریں۔ پاکستان کو ذاتی رنجشوں کی وجہ سے تفرقہ انگیز بیان بازی کی نہیں  بلکہ سیاسی پختگی اور استحکام کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی کے الزامات

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی مذاکرات سے دستبرداری اس کیلیے نقصان دہ، مبصرین

اسلام آباد:

مبصرین نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کی ناکامی نے ایک بار پھر سیاسی فریقین اور طاقتور حلقوں کے مابین گہرے عدم اعتماد کو نمایاں کیا، تاہم پی ٹی آئی کا مذاکرات سے اچانک دستبرار ہونا اس کے اپنے مفادات کیلیے نقصان دہ ہے۔

مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور26 نومبر کے واقعات پر الگ الگ جوڈیشل کمیشنز کی تشکیل اور اپنے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی، سزاؤں کی معطلی اور بریت کیلیے حمایت کے مطالبات کیے ،انھیں جامع مذاکرات کی شرط قرار دیا۔

پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اچانک مذاکرات سے لاتعلقی دانشمندانہ اقدام نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو کچھ وقت یا مذاکرات کے چوتھے دور میں شرکت کرکے حکومت سے پوچھنا چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کیوں پورے نہیں ہو سکتے۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کبھی مذاکرات کرنیوالی جماعت نہیں رہی، شاید سیاسی مذاکرات کیلیے تحمل اور تجربے کا بھی فقدان ہے، مذاکرات کے اچانک ختم ہونے سے سیاسی ڈیڈلاک برقرار اور اس کے نتیجے میں معاشی اور گورننس کے چیلنجز بڑھیں گے۔

نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر ندیم ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت کی غیر سنجیدگی کا احساس ہوگیا تھا کیونکہ اس کے مطالبات پورے کرنا مشکل نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے کلچر کے فقدان بھی پاکستانی سیاست کا بڑا مسئلہ ہے، مذاکرات اور سمجھوتے جمہوریت نظام کو آگے بڑھاتے ہیں،مگر پاکستان سیاسی اور طاقتور حلقے مذاکرات کا ایک لازمی حصہ سمجھنے کے بجائے کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کے الزامات احتساب سے بچنے کیلیے ہیں، شرجیل میمن
  • ملک معاشی سیاسی استحکام کی طرف جارہا ہے سیاسی جماعتوں کو محاذ آرائی سے نکلنا چاہئے
  • معاشی استحکام کا سفر جاری، پائیدار ترقی کیلیے ایک ٹیم بننا ہوگا، وزیراعظم
  • عمران خان کے الزامات احتساب سے بچنے، سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے کیلئے ہیں، شرجیل میمن
  • کیا بحریہ ٹاؤن کےلیے زمینوں پر قبضہ میں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن نے ملک ریاض کا ساتھ دیا؟
  • پی ٹی آئی کی مذاکرات سے دستبرداری اس کیلیے نقصان دہ، مبصرین
  • ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام عوامی انتخابی فیصلے کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے، فواد چوہدری
  • ملک میں سیاسی عدم استحکام عوامی انتخابی فیصلے کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے، فواد چوہدری
  • مینڈیٹ چور عوام اور بانی میں محبت ختم نہ کرسکے، بیرسٹر گوہر