سپر بول میں فلاڈیلفیا کی کنساس کے خلاف فتح؛ ٹرمپ بھی اسٹیڈیم میں تماشائیوں میں موجود
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک — امریکی فٹ بال کے فائنل ‘سپر بول’ میں فلاڈیلفیا ایگلز نے کنساس سٹی چیفس کو 22 کے مقابلے میں 40 پوائنٹس سے شکست دی ہے اور ایک بار پھر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔
فائنل میچ دیکھنے کے لیے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تماشائیوں میں موجود تھے۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اسٹیڈیم میں بیٹھ کر سپر بول دیکھا ہے۔
کھیل کے آغاز سے قبل کنساس سٹی چیفس کی ٹیم کے حوالے سے کسی حد تک کامیاب ہونے کی رائے موجود تھی اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ امیریکن فٹ بال لیگ کا ٹائٹل مسلسل تیسرے سال بھی اپنے نام کر سکتی ہے۔ تاہم فلاڈیلفیا نے اس کی امیدوں پر پانی پھر دیا ہے اور کامیابی سمیٹی۔
ریاست لوئزیانا کے شہر نیو اورلینز کے’سیزر سپر ڈوم’ کے تماشائیوں سے بھرے اسٹیڈیم میں فلاڈیفیا ایگلز نے کھیل کے تیسرے کوارٹر تک کنساس سٹی چیفس کو گول کرنے سے روکے رکھا جب کہ اس وقت تک فلاڈیلفیا ایگلز 34 پوائنٹس اپنے نام کر چکی تھی۔
فلاڈیفیا ایگلز کے کوارٹر بیک پر کھیلنے والے کھلاڑی جیلن ہرٹس کو سپربول کا ’موسٹ ویلیو ایبل پلیئر‘ (ایم وی پی) یا سب سے اہم پلیئر قرار دیا گیا۔
امیریکن فٹ بال عالمی سطح پر کھیلے جانے والی فٹ بال سے مختلف ہے۔ اس میں ٹانگوں کے ساتھ ہاتھوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل عام طور پر امریکہ اور کینیڈا میں کھیلا جاتا ہے۔
اس میں گیارہ گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ایک میدان میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوتی ہیں جس کے آخر میں گول کے کھمبے نصب ہوتے ہے۔
اس کھیل میں بیضوی یعنی انڈے کی شکل کی گیند استعمال ہوتی ہے جسے ہاتھ سے پکڑ کر مخالف ٹیم کے گول میں پہنچانا ہوتا ہے۔
No media source now available
امریکہ میں ‘سپر بول’ محض ایک ایونٹ نہیں بلکہ یہ یہاں ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ فٹ بال کا کھیل پورے ملک میں بڑے جوش و خروش سے دیکھا جاتا ہے اور ٹیم کی فتح شہر کے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھی جاتی ہے۔ اس میچ کے فائنل کو سپر بول کہا جاتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے اکثر مقامات پر بڑی اسکرینیں بھی نصب کی جاتی ہیں۔
اتوار کو کھیلے جانے والے فائنل میں روایات کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود شرکت کی۔
انہوں نے سپربول میں شرکت سے قبل جاری بیان میں کہا کہ فٹ بال امریکہ کا سب سے مشہور کھیل ہے اور یہ اچھی وجہ سے شہرت رکھتا ہےْ۔
بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ قومی اتحاد کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے اہلِ خانہ، دوست اور مداح متحد ہوتے ہیں۔
ان کے بقول اس سے برادریاں مضبوط ہوتی ہیں۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ یہ سالانہ روایت ہمارے اختلافات سے بالاتر ہے اور ہماری مشترکہ حب الوطنی کی اقدار، خاندان، عقیدے اور آزادی کی عکاسی کرتا ہے جس کا ہمارے فوجی، قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور دیگر بہادری سے دفاع کرتے ہیں۔
رواں برس اندازے کے مطابق لگ بھگ 12 کروڑ شائقین کے سپربول دیکھنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
No media source now available
واضح ہے کہ اس میں امریکہ بھر کی اس قدر شدید دلچسپی کے سبب اشتہارات کی قیمتیں بھی انتہائی بلندی پر چلی جاتی ہیں۔ اس میں 30 سیکنڈزکے ایک اشتہار کی لاگت لگ بھگ 80 لاکھ ڈالر رہی ہے۔
سپربول میچ کے آغاز سے قبل افتتاحی تقریب نئے سال کے آغاز پر نیو اورلینز میں ٹرک شہریوں پر چڑھانے کے دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد اور فوری طور پر کارروائی کرنے والے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل سپر بول جاتا ہے ہے اور فٹ بال
پڑھیں:
ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ
اسلام ٹائمز: اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر رکسانا نیکنامی
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی لبرل اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑانا شروع کر دی ہیں۔ ان کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک اور حتی اپنے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ایسا اقدام ہے جسے عالمی حلقے ایک قسم کی تجارتی جنگ قرار دے رہے ہیں اور اس بارے میں پابندیوں کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ البتہ ہم اس بات کی بھی وضاحت کریں گے کہ ٹرمپ نے پابندیوں کو بھی مدنظر قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اگر ہم گذشتہ مدت صدارت نیز حالیہ مدت صدارت کے دوران سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کا درست تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نیو مرچنٹلزم کی اصطلاح بروئے کار لانی پڑے گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کا بنیادی مقصد ملکی معیشت اور صنعت کی حمایت کرنا ہے۔
کسی بھی حکومت کی جانب سے تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کے اہم ترین ہتھکنڈوں میں سے ایک درآمدات پر ٹیکس عائد کرنا ہے جبکہ دیگر ہتھکنڈے بھی پائے جاتے ہیں۔ درحقیقت مرچنٹلزم کے حامی اور پیروکار تجارت کی بنیاد ایسا کھیل تصور کرتے ہیں جس کا نتیجہ صفر نکلتا ہو۔ اس نقطہ نظر کے حامی افراد بین الاقوامی اقتصادی کیک کو ایک مستقل مقدار سمجھتے ہیں لہذا ان کی نظر میں اقتصاد کے کھیل میں آپ کا حصہ جس قدر زیادہ ہو گا اسی نسبت سے دیگر ممالک کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھاری ٹیکس عائد کرنا ایک ایسے ہتھکنڈے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو مطلوبہ تجارتی سطح اور اقتصادی فائدے کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں گے کہ اس طرز فکر کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے سے دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
البتہ زیادہ گہرائی میں سمجھنے کی خاطر یا دوسرے الفاظ میں بہتر نظریہ پیش کرنے کے لیے ہمیں نیو مرچنٹلزم مکتب فکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا ہو گا کہ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں اسٹریٹجک تجارت کے نظریات کی روشنی میں بھی جانچی جا سکتی ہیں جو مرچنٹلزم کے نظریے سے زیادہ جدید ہیں۔ اس نظریے کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ خاص اہداف مدنظر قرار دے کر تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت کرے اور درآمدات پر ٹیکس عائد کرے یا ملکی صنعت کو سبسیڈ فراہم کرے اور یوں ملکی صنعت کے فائدے میں عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس طرح بین الاقوامی حریفوں کے مقابلے میں ملکی پیداوار کی حفاظت کرے۔ اس قسم کی پالیسیاں عام طور پر ایسی مصنوعات کے بارے میں اپنائی جاتی ہیں جن پر بین الاقوامی کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ بازی زیادہ ہوتی ہے۔
اسی طرح مختلف مصنوعات کا خام مال جیسے فولاد اور ایلومینیم بھی انہی پالیسیوں کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ ایسی مصنوعات ہیں جن میں دوسری مصنوعات کی نسبت غیر یقینی صورتحال زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہذا سیاسی اقتصاد کے شعبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نقطہ نظر نیو مرچنٹلزم اور اسٹریٹجک تجارے کے نظریے کا مرکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران فولاد اور ایلومینیم جیسی اسٹریٹجک مصنوعات جن پر مقابلہ بازی بہت زیادہ ہے، 25 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ لہذا ایسا نہیں تھا کہ ٹرمپ درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے اس بات کو مدنظر قرار دے کہ کون سے ممالک امریکہ یا مغرب کے ہمنوا ہیں اور کون سے ہمنوا نہیں ہیں۔ ٹرمپ نیو مرچنٹلزم اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کو تاجروں کے انداز میں دیکھنے کا عادی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح کم دیکھتا ہے اور اس عدم توازن کا احساس کرتا ہے لہذا حریف ممالک کے مقابلے میں امریکی تجارت کی سطح بڑھانے کے درپے ہے۔ اس کی نظر میں امریکہ کی تجارتی سطح جس قدر اوپر جائے گی اسی قدر زیادہ زرمبادلہ امریکہ میں منتقل ہو گا اور اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ترقی کرے گی اور ملکی صنعت کی حمایت ہو گی اور بے روزگاری کی شرح بھی کم ہوتی جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی کچھ مصنوعات خود کو بین الاقوامی حریفوں کی جانب سے شدید دباو میں محسوس کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملکی صنعت کی رضامندی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی نظر میں درآمدات پر ٹیکس لگانا ایک مذاکراتی ہتھکنڈہ بھی ہے۔ ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ اس اقدام کے ذریعے یورپی حکمرانوں سے مراعات لے سکتا ہے۔
اگرچہ یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک جیسے کینیڈا وغیرہ لبرل حکومتیں جانی جاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتصاد کی حامل ہیں لیکن ان کے تجارتی ڈھانچے قدرے ایکدوسرے سے مختلف ہیں جس کے باعث امریکہ کی جانب سے ان ممالک کی درآمدات پر ٹیکس عائد کیا جانا ممکن ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں کہ امریکہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ اس کے مدنظر مختلف اہداف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پروٹیکشن ازم کا حامی ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ملکی مصنوعات کی حمایت ضروری ہے اور گلوبلائزیشن کے عمل نے امریکہ کے مزدور طبقے اور ملکی مصنوعات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ لبرل ازم کے اصولوں کے تحت فری ٹریڈ کا زیادہ فائدہ چین، جرمنی، کینیڈا اور حتی میکسیکو جیسے ممالک کو ہوا ہے۔ لہذا اب ٹرمپ کا جھکاو لبرل ازم سے ہٹ کر نیو مرچنٹلزم اور پروٹیکشن ازم کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔