Daily Ausaf:
2025-04-16@08:34:29 GMT

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
مکتی باہنی کے سابق کمانڈر نےکہا کہ بھارت میں ایک نیا انقلاب برپا ہو گا،جس کے نتیجے میں نئی ریاستیں بنیں گی۔ہم 98فیصد مسلمان ہیں جوبھارت سے لڑیں گے۔ بھارت تقسیم ہو جائے گا کیونکہ اس کا 48فیصدعلاقہ اس کاحصہ نہیں ہے۔ میزورام اورتریپورہ متحدہ پاکستان کے دور میں بنگلہ دیش کا حصہ تھے۔ جموں وکشمیر اور خالصتان بھارت کا حصہ نہیں ہیں یہ ضرورآزاد ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیاکہ بت پرست ہندوستانیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تمام لوگ ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش پر قبضے کی بھارتی سازش کا ادراک صرف زین العابدین کو ہی پریشان کئے ہوئے نہیں ہے ، بلکہ وہ پوری نسل اپنے کئے پر پشیمان ہے، جو جرات مند ہیں وہ اظہا رکے ساتھ ساتھ ازالے کی بھی سعی کر رہے ہیں ، ان میں ایک نام میجر عبدالجلیل کا بھی ہے ، جسے مکنی باہنی کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا ، لیکن بنگلہ دیش کے بارے میں بھارتی پالیسیوں نے بہت پہلے اس کی سوچ کو بدل ڈالا وہ پاکستان پلٹا اور اپنی زندگی کا آخری عرصہ اس نے اسی پاکستان میں میں پشیمانی، بے بسی اور بیماری میں گزارا جس کی تباہی کے لئے وہ بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ۔‎عبدالجلیل 1971 میں پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھا۔ اپریل 1971 میں ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دیگر بنگالی افسروں کی طرح وہ بھی باغی ہو کر مکتی باہنی سے جا ملااور اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی، باغی سپاہیوں اور مکتی ہاہنی کے دہشت گردوں کو اکٹھا کر کے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا محاذ کھول دیا۔بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز ’بیر اتم‘ سجایا۔ مگر اس کی بھارت نواز پالیسیوں سے نالاں ‎کرنل شریف دالم کی طرح عبدالجلیل نے بھی یہ اعزاز واپس کر دیا۔ پشیمانی اور ازالہ کی سوچ نے صرف انہیں دو افسروں کو متاثر نہیں کیا بلکہ بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرنے والے میجر جنرل ضیالرحمٰن،طالب علم راہنماعبدالرب اور سراج العالم خان سمیت ایک بڑی تعداد تھی ۔ میجر جلیل باہمت تھا ، اس نے 1981 میں صدارتی الیکشن لڑ اتاکہ غلطیوں کا ازالہ کر سکے لیکن ناکام ہوا ، اپنے خواب ٹوٹنے پر اسے پھر اپنا دیس پاکستان ہی یاد آیا ، اسے اس پاک سر زمین نے ہی پناہ دی جسے پامال کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، بالآخر مایوسی اور کسمپرسی کے عالم میں وہ نومبر 1989 میں اسلام آباد میں فوت ہوا ۔میجر جلیل کے ایک راز دان دوست کا دعویٰ ہے کہ ’’ آخری ایام میں اس کے انداز اور اظہار سے عیاں تھا کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضاکار اور پاکستان کے حامی بہاری کمیونٹی کے لوگ شامل تھے، کے خلاف تشدد اور بے رحمی پر دکھ اور کرب میں مبتلا تھا۔
بعض پاکستانی ففتھ کالمسٹ جنہیں بھارتی قیادت نے اپنی کتابوں میں اپنا دوست و آلہ کار لکھا اور حسینہ واجد نے انہیں بنگلہ دیش کی آزادی میں کردار پر ایوارڈ تک دئے ، ان کی مدد سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں قتل و غارت اور آبرو ریزی سمیت دیگر جنگی جرائم کو افواج پاکستان کے ساتھ منسوب کر دیا گیا حالانکہ بعد ازاں خود بھارتی اور بنگلہ دیشی ارباب دانش نے ثابت کیا کہ یہ سب خود مکتی باہنی کے اندر چھپے نام نہاد مسلمانوں اور ہندوئوں نے کیا تھا۔ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی گواہی آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد مشہور مصنفہ سر میلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ہے ، جس میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ’’ اگر مشرقی پاکستان کے سانحے کا بغیر کسی وابستگی کے تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے حقائق سامنے آئیں گے جن سے مکتی باہنی کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے نمایاں ہو جائے گا۔‘‘ شرمیلا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت اور اس کے طفیلئے 25مارچ 1971کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں مارے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں ، جبکہ یہ تعداد انتہائی کم تھی جسے پروپیگنڈے کے زور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ، جس طرح مارے جانے والے لوگوں کی تعداد کو لاکھوں میں ظاہر کیا جا رہا ہے، حالانکہ اصل تعداد اس کے 5فیصد سے بھی کم ہے ۔ اب یہاں پی ٹی ایم اور مہرنگ وغیرہ اور ان کے ہمنوائوں کی ہفوات،ہزاروں لاپتہ افراد کے پروپیگنڈے اور انتشاریوں کا 26 نومبر کو اسلام آباد میں سینکڑوں افراد کے مارے جانے کے دعووں کو اس سے ملا کر دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ سازش وہی پرانی ہے ، بس کردار بدلے ہیں ۔
پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی اس حقیقت کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر غلط تاثر دیا جاتا ہے اور بہت سے پاکستانی بھی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ شاید پاکستان کی فوج نے بنگالیوں پر ظلم کیااور یہ کہ اگر 1971میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو میں اتفاق ہو جاتا اور یکم مارچ 1971کے روز اسمبلی کا سیشن ہو جاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔تاریخ کے مطالعہ اور مختلف مصنفوں کی تحریروں سے اس بات کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ بھارت تو بہت عرصے سے 1971کی جنگ کی تیاری کر رہا تھا، اس نے سالوں سے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔سوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ منصوبہ کب بنایا تھا؟ جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو کس کس نے کیا کردار ادا کیا؟اس کی تمام تفصیل بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک سابق افسر ’’آر کے یادیو ‘‘کی 2014میں لکھی ایک کتاب Mission R&AW میں دستیاب ہے کہ کس طرح سے 1962 میں مجیب نے بھارتی حکومت سے علیحدگی کے لئے رابطہ کیا اورپھر کس طرح سے یہ پوری سازش را نے پروان چڑھائی ،صرف اس ایک پر ہی کیا موقوف، بھارت ، بنگلہ دیش اور مغربی محققین کی دسیوں کتابیں ہیں جو بھارت کے خلاف ثبوتوں سے بھری پڑی ہیں ۔
پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اور پروپیگنڈے کی جنگ پر لکھی کتب کا خلاصہ بھی بیان کیا جائے تو اس کے لئے ایک کالم بہت کم ہے ، پوری کتاب درکار ہے ، چند کتابیں جو اس عنوان پر ریفرنس کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کا مطالعہ یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کے خلاف زبان دراز کرنے والے انتشاریوں کی ڈوریاں کہاں سے ہلتی ہیں ؟ وہ کس کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ لازم ہے کہ نوجوان نسل کو یہ سب پڑھایا اور سمجھا یا جائے ، خصوصا ً بلوچستان اور فاٹا کے نوجوانوں کو، تاکہ جان سکیں کہ بھیڑ کے روپ میں ان سے ہمدردی جتانے والے بھیڑیئے کس کے وفادار ہیں اوران سے کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں ۔ اس حوالہ سے معتبر اور خود سازش کا حصہ رہنے والے کرداروں کی لکھی کتابوں میں سے جو کتابیں اہم ہیں ، ان میں درج ذیل شامل ہیں ۔ امریکی مصنف جیری باس کی کتاب BLOOD TELEGRAM ، بھارتی مصنف سری ناتھ راگھوان کی کتاب The 1971، شرمیلا بوس نے کتاب Dead Rekoning ، 1962 میں ڈھاکہ میں تعینات ایک بھارتی سفارت کارایس بینر جی کی لندن سےشائع ہونے والی کتاب india , Mujibur Rahman ,Bangladesh Libration and Pakistan ، 1971 میں ڈھاکہ میں رپورٹنگ کرنے والے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائم کے رپورٹرولیم ڈرومونڈ نے کا 2013میں شائع ہونےو الا ایک آرٹیکل بعنوان Missing Millions ، بنگالی سکالر ڈاکٹر عبدالمومن چوہدری کی کتابBehind the myth of three million اور ان سب پر بھاری میجر شریف الدین دالیم کی کتا ب Bangladesh Untoled Facts جس کا اردو ترجمہ’’ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ان کہی داستان ‘‘ کے نام سے بھی دستیاب ہے ۔ انتشاری و فسادی پروپیگنڈے کا شکار نوجوانوں کو اقبال ؒ کا یہ پیغام نہیں بھولنا چاہئے :
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان مکتی باہنی کے پاکستان میں پاکستان کے بنگلہ دیش کہ بھارت کے خلاف کی کتاب کے لئے اور ان

پڑھیں:

وطن کے مرکزی خیال کے ساتھ نئے بنگلہ سال کی تقریبات کا آغاز

جیسے ہی صبح کی پہلی کرنوں نے دارالحکومت ڈھاکہ کے علاقے دھان منڈی میں رابندر سروبر کو روشن کیا، فضا سرود کے نازک نوٹ اور ٹیگور کے مشہور گیت ’آلو امر آلو‘ یعنی ’روشنی! او میری روشنی‘ سے گونج اٹھی۔

یہ نئے بنگلہ سال 1432 کا آغاز تھا جس کا اس مرتبہ مرکزی خیال سودیش یعنی وطن ہے، اس سال کے پاہیلا بیساکھ کی رنگا رنگی نے میرپور، اترا، اور پرانے ڈھاکہ سمیت دارالحکومت بھر سے ہزاروں شہریوں کی توجہ مبذول کی۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی، بنگلہ دیش کے متعدد تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں معطل

تقریبات کا آغاز صبح 6 بجے ہوا، جس میں بنگال پرم پرا سنگیتالی کے آرٹسٹوں کی جانب سے پیش کردہ متعدد پرفارمنس بھی شامل تھیں، ان تقریبات کی خاص بات ‘پنچکبی’ کو خراج تحسین پیش کرنا تھا، جس میں بنگال کے پانچ ممتاز شاعر یعنی رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذر الاسلام، دویجیندر لال رائے، رجنی کانتا سین، اور اتل پرساد سین شامل ہیں۔

 https://Twitter.com/SoheliaL/status/1911676850386133096

جس میں شوریر دھارا کے گلوکاروں کی جانب سے ان کی لازوال کمپوزیشنز کی روح پرور پیشکش کی گئی، خاص طور پر نذرالاسلام کے گیت نے نسیم صبح کو شاعری سے معطر کردیا۔

سال نو کے اس جشن کا ایک اہم پہلو بنگلہ دیش کی متنوع نسلی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مقامی فنکاروں کو شامل کرنا تھا، چٹاگانگ پہاڑی علاقے، میمن سنگھ اور ملک کے شمالی علاقوں کے فنکاروں نے اپنے روایتی لباس میں ملبوس لوک گیت اور رقص پیش کیا۔

اس ثقافتی تبادلے نے قومی یکجہتی کے موضوع کو اجاگر کیا، خاص طور پر ایک متحرک پرفارمنس کے ساتھ جس میں قومی نغمہ شامل تھا، سال نو کے اس تہوار کی تقریب کا مقام میدان دیہی بنگال کے مختلف مظاہر کا حقیقی عکاس بن کر رہ گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کا مستقبل میں روابط بڑھانے اور تعاون جاری رکھنے کا عزم

اسٹالز میں مٹی کی گڑیا، جوٹ کی دستکاریاں، ہاتھ سے بنی اشیا اور مقامی کاٹیج انڈسٹری کی مصنوعات کی نمائش کی گئی، جو مقامی دستکاری کے عظیم فن کو اجاگر کرتی ہیں۔ روایتی دیہی کھیلوں نے تہوار کے جوش و جذبے میں اضافہ کیا۔

ایک آرٹ کیمپ نے تقریب کو مزید تقویت بخشی، جس میں معروف موسیقاروں، رقاصوں، اور مصوروں کو اکٹھا کیا گیا تھا، جنہوں نے نئے سال اور اس کے مرکزی خیال یعنی وطن سے متاثر ہو کر آرٹ ورک تخلیق کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اتل پرساد سین بنگلہ دیش بنگلہ سال پاہیلا بیساکھ دویجیندر لال رائے ڈھاکہ رابندر ناتھ ٹیگور رجنی کانتا سین قاضی نذر الاسلام

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بنگلہ دیش نے ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرلیا
  • بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان 15 سال بعد سفارتی بات چیت کا انعقاد
  • سعودی آئل کمپنی ”آرامکو “ کی بھارت میں مزیددو آئل ریفائنریوں میں سرمایہ کاری کے لیے بات چیت
  • مسلم مخالف وقف بل کے خلاف بھارت بھر میں پرتشدد مظاہرے
  • بھارت کا اسٹار وارز جیسے جدید لیزر ہتھیار کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعوی
  • آئی سی سی چیئرمین شپ کے بعد بھارت کا ایک اور اہم کمیٹی پر قبضہ برقرار
  • بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت: سب سے بڑے بینک فراڈ میں ملوث ملزم بیلجیم میں گرفتار
  • وطن کے مرکزی خیال کے ساتھ نئے بنگلہ سال کی تقریبات کا آغاز
  • بنگلہ دیش: 31 جولائی تحریک کے متاثرین کا پاکستان میں علاج کیا جائے گا