ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
مکتی باہنی کے سابق کمانڈر نےکہا کہ بھارت میں ایک نیا انقلاب برپا ہو گا،جس کے نتیجے میں نئی ریاستیں بنیں گی۔ہم 98فیصد مسلمان ہیں جوبھارت سے لڑیں گے۔ بھارت تقسیم ہو جائے گا کیونکہ اس کا 48فیصدعلاقہ اس کاحصہ نہیں ہے۔ میزورام اورتریپورہ متحدہ پاکستان کے دور میں بنگلہ دیش کا حصہ تھے۔ جموں وکشمیر اور خالصتان بھارت کا حصہ نہیں ہیں یہ ضرورآزاد ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیاکہ بت پرست ہندوستانیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تمام لوگ ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش پر قبضے کی بھارتی سازش کا ادراک صرف زین العابدین کو ہی پریشان کئے ہوئے نہیں ہے ، بلکہ وہ پوری نسل اپنے کئے پر پشیمان ہے، جو جرات مند ہیں وہ اظہا رکے ساتھ ساتھ ازالے کی بھی سعی کر رہے ہیں ، ان میں ایک نام میجر عبدالجلیل کا بھی ہے ، جسے مکنی باہنی کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا ، لیکن بنگلہ دیش کے بارے میں بھارتی پالیسیوں نے بہت پہلے اس کی سوچ کو بدل ڈالا وہ پاکستان پلٹا اور اپنی زندگی کا آخری عرصہ اس نے اسی پاکستان میں میں پشیمانی، بے بسی اور بیماری میں گزارا جس کی تباہی کے لئے وہ بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ۔عبدالجلیل 1971 میں پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھا۔ اپریل 1971 میں ایسٹ بنگال رجمنٹ کے دیگر بنگالی افسروں کی طرح وہ بھی باغی ہو کر مکتی باہنی سے جا ملااور اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی، باغی سپاہیوں اور مکتی ہاہنی کے دہشت گردوں کو اکٹھا کر کے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا محاذ کھول دیا۔بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز ’بیر اتم‘ سجایا۔ مگر اس کی بھارت نواز پالیسیوں سے نالاں کرنل شریف دالم کی طرح عبدالجلیل نے بھی یہ اعزاز واپس کر دیا۔ پشیمانی اور ازالہ کی سوچ نے صرف انہیں دو افسروں کو متاثر نہیں کیا بلکہ بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرنے والے میجر جنرل ضیالرحمٰن،طالب علم راہنماعبدالرب اور سراج العالم خان سمیت ایک بڑی تعداد تھی ۔ میجر جلیل باہمت تھا ، اس نے 1981 میں صدارتی الیکشن لڑ اتاکہ غلطیوں کا ازالہ کر سکے لیکن ناکام ہوا ، اپنے خواب ٹوٹنے پر اسے پھر اپنا دیس پاکستان ہی یاد آیا ، اسے اس پاک سر زمین نے ہی پناہ دی جسے پامال کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، بالآخر مایوسی اور کسمپرسی کے عالم میں وہ نومبر 1989 میں اسلام آباد میں فوت ہوا ۔میجر جلیل کے ایک راز دان دوست کا دعویٰ ہے کہ ’’ آخری ایام میں اس کے انداز اور اظہار سے عیاں تھا کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضاکار اور پاکستان کے حامی بہاری کمیونٹی کے لوگ شامل تھے، کے خلاف تشدد اور بے رحمی پر دکھ اور کرب میں مبتلا تھا۔
بعض پاکستانی ففتھ کالمسٹ جنہیں بھارتی قیادت نے اپنی کتابوں میں اپنا دوست و آلہ کار لکھا اور حسینہ واجد نے انہیں بنگلہ دیش کی آزادی میں کردار پر ایوارڈ تک دئے ، ان کی مدد سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں قتل و غارت اور آبرو ریزی سمیت دیگر جنگی جرائم کو افواج پاکستان کے ساتھ منسوب کر دیا گیا حالانکہ بعد ازاں خود بھارتی اور بنگلہ دیشی ارباب دانش نے ثابت کیا کہ یہ سب خود مکتی باہنی کے اندر چھپے نام نہاد مسلمانوں اور ہندوئوں نے کیا تھا۔ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی گواہی آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والی بھارتی نژاد مشہور مصنفہ سر میلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ہے ، جس میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ’’ اگر مشرقی پاکستان کے سانحے کا بغیر کسی وابستگی کے تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے حقائق سامنے آئیں گے جن سے مکتی باہنی کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے نمایاں ہو جائے گا۔‘‘ شرمیلا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت اور اس کے طفیلئے 25مارچ 1971کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں مارے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں ، جبکہ یہ تعداد انتہائی کم تھی جسے پروپیگنڈے کے زور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ، جس طرح مارے جانے والے لوگوں کی تعداد کو لاکھوں میں ظاہر کیا جا رہا ہے، حالانکہ اصل تعداد اس کے 5فیصد سے بھی کم ہے ۔ اب یہاں پی ٹی ایم اور مہرنگ وغیرہ اور ان کے ہمنوائوں کی ہفوات،ہزاروں لاپتہ افراد کے پروپیگنڈے اور انتشاریوں کا 26 نومبر کو اسلام آباد میں سینکڑوں افراد کے مارے جانے کے دعووں کو اس سے ملا کر دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ سازش وہی پرانی ہے ، بس کردار بدلے ہیں ۔
پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی اس حقیقت کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر غلط تاثر دیا جاتا ہے اور بہت سے پاکستانی بھی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ شاید پاکستان کی فوج نے بنگالیوں پر ظلم کیااور یہ کہ اگر 1971میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو میں اتفاق ہو جاتا اور یکم مارچ 1971کے روز اسمبلی کا سیشن ہو جاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔تاریخ کے مطالعہ اور مختلف مصنفوں کی تحریروں سے اس بات کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ بھارت تو بہت عرصے سے 1971کی جنگ کی تیاری کر رہا تھا، اس نے سالوں سے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔سوال یہ ہے کہ بھارت نے یہ منصوبہ کب بنایا تھا؟ جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو کس کس نے کیا کردار ادا کیا؟اس کی تمام تفصیل بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک سابق افسر ’’آر کے یادیو ‘‘کی 2014میں لکھی ایک کتاب Mission R&AW میں دستیاب ہے کہ کس طرح سے 1962 میں مجیب نے بھارتی حکومت سے علیحدگی کے لئے رابطہ کیا اورپھر کس طرح سے یہ پوری سازش را نے پروان چڑھائی ،صرف اس ایک پر ہی کیا موقوف، بھارت ، بنگلہ دیش اور مغربی محققین کی دسیوں کتابیں ہیں جو بھارت کے خلاف ثبوتوں سے بھری پڑی ہیں ۔
پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اور پروپیگنڈے کی جنگ پر لکھی کتب کا خلاصہ بھی بیان کیا جائے تو اس کے لئے ایک کالم بہت کم ہے ، پوری کتاب درکار ہے ، چند کتابیں جو اس عنوان پر ریفرنس کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کا مطالعہ یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کے خلاف زبان دراز کرنے والے انتشاریوں کی ڈوریاں کہاں سے ہلتی ہیں ؟ وہ کس کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟ اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ لازم ہے کہ نوجوان نسل کو یہ سب پڑھایا اور سمجھا یا جائے ، خصوصا ً بلوچستان اور فاٹا کے نوجوانوں کو، تاکہ جان سکیں کہ بھیڑ کے روپ میں ان سے ہمدردی جتانے والے بھیڑیئے کس کے وفادار ہیں اوران سے کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں ۔ اس حوالہ سے معتبر اور خود سازش کا حصہ رہنے والے کرداروں کی لکھی کتابوں میں سے جو کتابیں اہم ہیں ، ان میں درج ذیل شامل ہیں ۔ امریکی مصنف جیری باس کی کتاب BLOOD TELEGRAM ، بھارتی مصنف سری ناتھ راگھوان کی کتاب The 1971، شرمیلا بوس نے کتاب Dead Rekoning ، 1962 میں ڈھاکہ میں تعینات ایک بھارتی سفارت کارایس بینر جی کی لندن سےشائع ہونے والی کتاب india , Mujibur Rahman ,Bangladesh Libration and Pakistan ، 1971 میں ڈھاکہ میں رپورٹنگ کرنے والے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائم کے رپورٹرولیم ڈرومونڈ نے کا 2013میں شائع ہونےو الا ایک آرٹیکل بعنوان Missing Millions ، بنگالی سکالر ڈاکٹر عبدالمومن چوہدری کی کتابBehind the myth of three million اور ان سب پر بھاری میجر شریف الدین دالیم کی کتا ب Bangladesh Untoled Facts جس کا اردو ترجمہ’’ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ان کہی داستان ‘‘ کے نام سے بھی دستیاب ہے ۔ انتشاری و فسادی پروپیگنڈے کا شکار نوجوانوں کو اقبال ؒ کا یہ پیغام نہیں بھولنا چاہئے :
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان مکتی باہنی کے پاکستان میں پاکستان کے بنگلہ دیش کہ بھارت کے خلاف کی کتاب کے لئے اور ان
پڑھیں:
کشمیر اور عالمی برادری
وطن عزیز میں یومِ یکجہتی کشمیر ویسے تو ہر سال 5 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کے حق ِ خودارادیت کے لیے حمایت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ درحقیقت اس دن کو قومی سطح پر منانے کے پیچھے بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی طویل جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کا محرک کارفرما ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر کا مسئلہ 1947 میں تقسیم برصغیر کے موقع پر اس وقت پیدا ہوا جب بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف مسلمانوں کی اکثریت کے حامل اس اہم اور تاریخی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر 1947، 1965 اور 1999 میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں مگر آج بھی دونوں ممالک کے درمیان یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ کی 5 جنوری 1949 کی قرارداد میں کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا لیکن بھارت نے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جس کے خلاف کشمیری عوام میں پچھلی سات دہائیوں کے دوران نفرت اور انتقام میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے اور بے گناہ کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جو بیدردی سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔
بھارت کی طرف سے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، خواتین کی بے حرمتی، نوجوانوں کو قید و بند میں رکھنا، اظہارِ رائے پر پابندی، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی بندش نیز کشمیری مسلمانوں کو جمعتہ المبارک اور عیدین حتیٰ کہ نماز جنازہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جس سے کشمیری عوم میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص بھارت کے خلاف نفرت اور اشتعال میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ظالمانہ رٹ کا اندازہ اس کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے سے لگایا جاسکتا ہے جس کے بعد وہاں مزید جبر اور درندگی کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بات قابل قدر ہے کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہر فورم پر ان کی حمایت جاری رکھی ہے اسی طرح پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر قومی جوش وجذبے سے منایا جاتا ہے جب کہ اس دن ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی دنیا کے کونے کونے میںکشمیری بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مختلف شہروں میں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ان سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دن ملک بھر میں عوامی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن میں کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں، پریس کلبوں اور مختلف تنظیموں کی جانب سے کشمیر کی تاریخ، ثقافت اور جدوجہد پر مبنی سیمینار اور تقریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس روز مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر خصوصی پروگرام اور دستاویزی فلمیں نشر کی جاتی ہیں۔ کشمیر اسی طرح کا ایک انسانی المیہ ہے جس کا سامنا اہل فلسطین اور غزہ کے مسلمان کررہے ہیں جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے۔ یورپی یونین، امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف عملی اقدامات کریں اور بھارت کو ظلم و جبر سے باز رکھنے میں اپنا عالمی کردار ادا کریں۔
اس ضمن میں امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس سے اپنے خطاب میں یہ کہنا کہ محض سیاسی و اخلاقی حمایت کی یقین دہانیوں کرا کے کشمیریوں سے جان نہ چھڑائی جائے، کشمیر تحریک پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، اسے ہر صورت تکمیل تک پہنچانا ہوگا، بھارت سے آلو، پیاز، ٹماٹر کی تجارت سے کشمیر آزاد ہوگا اور نہ ہی صرف کشمیر کمیٹی سے مسئلہ حل ہونے والا ہے، کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے، فلسطین کی مثال سے ثابت ہوچکا ہے کہ طاقت کے بغیر مذاکرات نہیں ہوتے، مقبوضہ کشمیر بھی بزور شمشیر ہی آزاد ہوگا۔ حافظ صاحب کے اس واضح موقف کو اگر غزہ میں حماس کی تحریک مزاحمت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی بات میں کافی وزن نظر آتا ہے کہ اگر ہمارے حکمران اور مقتدر قوتیں کشمیر کی آزادی میں واقعئی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو انہیں پھر بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کی بھیک مانگنے کے بجائے دوٹوک انداز میں نہ صرف قوم کو تحریک آزادی کشمیر کی پشت پر کھڑا کرنا ہوگا بلکہ اس سلسلے میں جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تئیں بھی مظلوم ومقہور کشمیری عوام کا دست وبازو بننا ہوگا ورنہ قوم یہی سمجھے گی کہ ہمارے حکمران محض اپنی سیاست کی دکان چمکانے اور پاکستانی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کشمیر کارڈ استعمال کرتے ہیں۔
دراصل یومِ یکجہتی کشمیر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری امت ِ مسلمہ اور عالمی برادری کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ دن صرف تقریروں اور نعروں کا نہیں، بلکہ عملی طور پر کشمیریوں کی ہر ممکن حمایت کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سفارتی، اخلاقی، اور سیاسی سطح پر کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا اور ان کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا خواب اور ایمان ہے، جو ایک دن ان شاء اللہ ضرور حقیقت بنے گا۔