Daily Ausaf:
2025-02-11@00:52:56 GMT

مذاکرات کیوں ضروری ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

تحریک انصاف (اپوزیشن) اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہوتے رک جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی اصل وجوہات تو دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے پاس ہی ہیں لیکن مذاکرات کا نہ ہونا یا رک جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملک میں سیاسی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ بات چیت کے ذریعے عوام کو درپیش مسائل کا حل کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ کیونکہ سیاست کا بنیادی مقصد عوام کے نہ صرف مسائل حل کرنا بلکہ انہیں ضروری سماجی ‘ معاشی سہولتیں بھی بہم پہچاناہوتاہے۔لیکن پاکستان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کشیدگی سے جہاں دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کاموقع ملتا ہے۔ وہیں پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتاہے اور عوام کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں وہ افراد جو سیاسی ‘ سماجی شعور رکھتے ہیں ان کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان بات چیت سے ملک میں سیاسی وسماجی استحکام پیداہوتاہے ‘ جبکہ ملک اقتصادی طور پر ترقی کی جانب گامزن ہونے لگتاہے۔
تاہم یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنے والے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کے لئے زیادہ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا زعم ہوتاہے کہ وہ تن تنہا ہرکام آسانی سے کرلیں گے۔ بعد میں پتہ چلتاہے کہ حزب اختلاف کو شامل کئے بغیر ملک کے سیاسی وسماجی معاملات کو حسن وخوبی حل نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عوام کو درپیش مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ ملک میں استحکام لانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کی روشنی میں بات چیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ بات چیت کے ذریعے مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ مسائل جو عوام کو درپیش ہوتے ہیں ان کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں ابھی جمہوریت اپنی پوری توانائی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی ہے وہاں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر بات چیت کے ذریعے عوام اور ملک کو درپیش مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے۔مذاکرات دراصل سیاست کرنے کا دوسرا چہرہ ہے جس کے ذریعے سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ لے کر انہیں نہ صرف حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ جمہوریت کو بھی تقویت ملتی ہے جو بعد میں ملک میں استحکام کا باعث بنتی ہے اور عوام بھی اس طرز عمل سے خوش ہوتے ہیں۔
گرچہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معروض وجود میں آیاتھا‘ لیکن بعد میں مفاد پرست عناصر نے اس بزور بازو قبضہ کرکے جمہوری راستے سے ہٹاکر شخصی حکومت کو فروغ دیا ۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چلتاآرہاہے‘ آج ہر چند کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت آگئی ہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یعنی ان کو جس طرح حل ہوناچاہیے تھا‘ وہ حل نہیں ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ناراض اور پریشان ہے (معاشی طور پر) شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا باشعور طبقہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان میں گورننس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جمہوری اقدار متاثر ہورہے ہیں‘ وہیں عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں سماج میں معاشی ومعاشرتی بے چینی پائی جاتی ہے۔ہرچند کہ ہرحکومت جو اقتدار میں آتی ہے‘ اس کا دعویٰ ہوتاہے کہ وہ خلوص دل سے عوام کے مسائل حل کررہی ہے اور عوام کے دکھوں کامدوا کرنا بھی اپنا اولین فرض سمجھتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘ عوام کو پاکستان کے جمہوری معاشرے میں وہ سیاسی ومعاشی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیے ۔ صرف ایک چھوٹا سا بااثر طبقہ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہورہاہے‘ دوسری طرف خلق خدا اپنے کارن زندہ رہنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے اور جمہوریت کا بھی!
چنانچہ معاشرتی اور سیاسی مسائل حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف باہم مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکاہے۔ پاکستان کی بہادر فوج اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے حوصلے پست کررہی ہے اور اس کے ساتھ ہی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہے۔
چنانچہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے اور ان کے پاکستان کے خلاف مذموم حرکتوں کاانسداد کرنے کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین بات چیت بہت ضرروی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان اگر موثر مفاہمت ہوجاتی ہے تو اس حکمت عملی کو اختیار کرنے سے جہاں جمہوریت کو نئی توانائی میسر آئے گی وہیں ملک کے سیاسی وسماجی مسائل کے حل میں مددملے گی اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی۔ پاکستان میں اس وقت موثر اقتصادی ترقی نہ ہونے کی صورت میں ملک میں بہت زیادہ مسائل ابھر آئے ہیں۔ جس کو حل کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو بھی شامل کرنا وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ حزب اختلاف کاکام صرف حکومت وقت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ راستہ بھی دکھانا ہوتاہے تاکہ مل جل کر معاشی ومعاشرتی حالات کو عوام دوست بنایا جاسکے۔ ذرا سوچیئے!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکومت اور حزب اختلاف کو درپیش مسائل عوام کو درپیش پاکستان میں کے درمیان کے ذریعے کررہی ہے ملک میں کے ساتھ بات چیت عوام کے ہے اور

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی مذاکرات سے دستبرداری اس کیلیے نقصان دہ، مبصرین

اسلام آباد:

مبصرین نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کی ناکامی نے ایک بار پھر سیاسی فریقین اور طاقتور حلقوں کے مابین گہرے عدم اعتماد کو نمایاں کیا، تاہم پی ٹی آئی کا مذاکرات سے اچانک دستبرار ہونا اس کے اپنے مفادات کیلیے نقصان دہ ہے۔

مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور26 نومبر کے واقعات پر الگ الگ جوڈیشل کمیشنز کی تشکیل اور اپنے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی، سزاؤں کی معطلی اور بریت کیلیے حمایت کے مطالبات کیے ،انھیں جامع مذاکرات کی شرط قرار دیا۔

پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اچانک مذاکرات سے لاتعلقی دانشمندانہ اقدام نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو کچھ وقت یا مذاکرات کے چوتھے دور میں شرکت کرکے حکومت سے پوچھنا چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کیوں پورے نہیں ہو سکتے۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کبھی مذاکرات کرنیوالی جماعت نہیں رہی، شاید سیاسی مذاکرات کیلیے تحمل اور تجربے کا بھی فقدان ہے، مذاکرات کے اچانک ختم ہونے سے سیاسی ڈیڈلاک برقرار اور اس کے نتیجے میں معاشی اور گورننس کے چیلنجز بڑھیں گے۔

نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر ندیم ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت کی غیر سنجیدگی کا احساس ہوگیا تھا کیونکہ اس کے مطالبات پورے کرنا مشکل نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے کلچر کے فقدان بھی پاکستانی سیاست کا بڑا مسئلہ ہے، مذاکرات اور سمجھوتے جمہوریت نظام کو آگے بڑھاتے ہیں،مگر پاکستان سیاسی اور طاقتور حلقے مذاکرات کا ایک لازمی حصہ سمجھنے کے بجائے کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات بھرپور حصہ لے گی، عبدالغفور حیدری 
  • ووٹ ڈال کر بھی کشمیری عوام کف افسوس ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، طارق حمید قرہ
  • ارکان پارلیمان کی تنخواہ میں اضافہ غیر ضروری ہے، بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی کی مذاکرات سے دستبرداری اس کیلیے نقصان دہ، مبصرین
  • کوئی اختلاف نہیں، جو ہو رہا ہے، اُس پر خوش ہوں، مصطفیٰ کمال
  • حکومت عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے، علی خورشیدی
  • سندھ حکومت اور واٹر کارپوریشن کی نااہلی: کراچی میں پینے کے پانی کے مسائل میں اضافہ
  • یو ایس ایڈ کے غیر ملکی پراجیکٹس کیوں بند ہوئے اور ان کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
  • حکومت کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پھر پیشکش