وکلا احتجاج: اسلام آباد کی کون سی شاہراہیں بند ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف اور سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے موقع پر وکلا کے ایک گروپ نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ اس احتجاج کے پیش نظر شاہراہِ دستور کو جانے والے راستوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جس سے شہر بھر میں ٹریفک کا نظام متاثر ہوا ہے اور لوگوں کو دفاتر آنے جانے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون کو جانے والے 5 راستوں سیرینا چوک، نادرا چوک، ایکسپریس چوک، میریٹ چوک، ٹی کراس بری امام والے راستوں کو بند کیا گیا ہے جبکہ ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے صرف مارگلہ روڈ والے راستے کو کھلا رکھا گیا ہے۔ چونکہ پاک سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، اور دیگر بڑے دفاتر اسی ریڈ زون میں واقع ہیں تو زیادہ گاڑیوں کے باعث مارگلہ روڈ پر ٹریفک جام ہو گیا اور لوگوں کے لیے اپنے دفاتر پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔
میٹرو بس سروس کو بھی فیض احمد فیض سٹیشن سے پاک سیکریٹریٹ اسٹیشن تک بند کر دیا گیا ہے، ٹریفک پولیس کے مطابق ریڈ زون کو جانے والے راستوں کو آج صبح 6 بجے سے تاحکم ثانی عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔ ٹریفک پولیس کے شکر پڑیاں والے دفاتر میں بھی تمام سہولیات آج معطل رہیں گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاراچنار کے عوام چھ ماہ سے راستوں کی بندش کے باعث محصور ہیں، ساجد طوری
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وسطی کرم اور لوئر کرم میں فتنہ الخوارج دہشت گردوں کی مسلسل موجودگی نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، ان عناصر کی موجودگی نہ صرف عوام کے جان و مال کے لیے خطرہ ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی داؤ پر لگا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وفاقی وزیر ساجدحسین طوری نے کہا ہے کہ پاراچنار کے عوام چھ ماہ سے راستوں کی بندش کے باعث محصور ہیں اور شدید مشکلات کا شکار ہیں، میڈیا کے ساتھ بات چیت میں پی پی کے صوبائی نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے کہا کہ مین شاہراہ اور افغان سرحد سمیت آمدورفت کے راستے چھ ماہ سے بند ہیں، جس سے اشیائے خوردونوش کی قلت ہے، ساجد طوری نے کہا کہ عید الفطر سے ایک ہفتہ پہلے اشیائے خوردونوش کی کانوائی کے ذریعے سپلائی ہوئی تھی مگر اس کے بعد آج تک کوئی کانوائی نہیں ہوئی، حکومت کے اس غیر سنجیدہ رویئے اور غفلت کے باعث لاکھوں آبادی علاقے میں محصور ہے اور اپنی جانوں کے تحفظ کیلئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل ہونے کے منتظر ہیں۔ زمینی راستے تاحال بند ہیں، جس کی وجہ سے عام عوام، بزرگ، خواتین اور بچے انتہائی کٹھن اور غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی، نقل و حرکت پر پابندی، اور مسلسل خوف و ہراس کا عالم انتہائی قابلِ تشویش ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تشویشناک صورتحال کے باعث ضلع کرم میں تعلیمی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے، پٹرول کی قلت اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، جس سے ہمارے بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ یہ ایک نہایت افسوسناک امر ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وسطی کرم اور لوئر کرم میں فتنہ الخوارج دہشت گردوں کی مسلسل موجودگی نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، ان عناصر کی موجودگی نہ صرف عوام کے جان و مال کے لیے خطرہ ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی داؤ پر لگا رہی ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ علاقے میں خوف پھیلا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ساجد طوری کا کہنا تھا کہ جب تک ان فتنہ الخوارج دہشت گردوں کا مکمل طور پر صفایا نہیں کیا جاتا، اُس وقت تک نہ پائیدار امن ممکن ہے اور نہ ہی عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور اس سلسلے میں عوام کو بھی چاہیے کہ وہ پاک آرمی، مقامی انتظامیہ، اور پولیس کا بھر پور ساتھ دیں تاکہ علاقے میں امن و امان کی فضا جلد از جلد قائم ہو سکے اور خطے کو دوبارہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔
انہوں نے وفاقی حکومت، سکیورٹی اداروں اور متعلقہ حکام سے پر زور مطالبہ کیا کہ مزکورہ بالا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں، دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے، اور متاثرہ عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے۔ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنائے، انہیں بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں، تعلیمی ادارے دوبارہ فعال کئے جائیں اور اس بحران سے ضلع کرم کے عوام کو نکالنے کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات کئے جائیں۔