کشمیری مہاجرین کے مسائل پر طاہر کھوکھر کی بیوروکریسی پر سخت تنقید
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
سابق وزیر کا کہنا ہے کہ جو کشمیری سینکڑوں کنال اراضی کے مالک تھے اور سب کچھ چھوڑ کر آئے، انہیں محض 5 مرلہ زمین کے لیے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر سیاحت و ٹرانسپورٹ محمد طاہر کھوکھر نے کشمیری مہاجرین کے مسائل پر بیوروکریسی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کشمیری مہاجرین کی آبادکاری میں کسی قسم کی مشکلات پیدا نہ کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری مہاجرین شہداء کے وارث ہیں، جنہوں نے تکمیل پاکستان اور کشمیر کی آزادی کے لیے نہ صرف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا بلکہ اپنے گھر، جائیدادیں اور زمینیں تک قربان کیں۔ اگر وہ ہجرت پر مجبور ہوئے تو یہ بھی پاکستان کی تکمیل اور کشمیر کی آزادی کے لیے ہی تھا، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بیوروکریسی اور متعلقہ ادارے انہیں مسائل کا شکار کر رہے ہیں۔ طاہر کھوکھر نے کہا کہ کشمیری مہاجرین نے جو قربانیاں تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے دی ہیں، کیا بیوروکریسی اس کی مثال پیش کر سکتی ہے بیوروکریسی اپنی جائیدادیں، اپنے عزیز و اقارب اور اپنا سب کچھ وطن کے لیے قربان کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو کشمیری سینکڑوں کنال اراضی کے مالک تھے اور سب کچھ چھوڑ کر آئے، انہیں محض 5 مرلہ زمین کے لیے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
طاہر کھوکھر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیری مہاجرین کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ بند کیا جائے اور انہیں فوری طور پر مناسب اراضی فراہم کی جائے تاکہ وہ زراعت سے منسلک ہو سکیں اور خودکفیل بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر کشمیری مہاجر کو کم از کم 50 سے 100 کنال اراضی فراہم کی جائے تو وہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے بلکہ آزاد کشمیر کی زرعی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور وہ زراعت سے منسلک ہو کر کاروبار کریں۔ حکومت واقعی کشمیریوں کی آزادی کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے مہاجرین کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دینی ہو گی۔ ہم ہر قدم پر مہاجرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے حقوق کے لیے ہر ممکن آواز بلند کرتے رہیں گے۔کشمیری مہاجرین کے قربانیوں کو ہم بھلا نہیں سکتے وہ ہم سب کے محسن ہیں جنہوں نے اپنا وطن، اپنا گھر جائیداد اور اپنے عزیز و اقارب کو کشمیر کی ٓزادی کے لیے قربان کیا کشمیری عوام تنہا نہیں ہیں ان کے ساتھ زیادیتوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کشمیری مہاجرین کے کہ کشمیری مہاجرین طاہر کھوکھر زادی کے لیے نے کہا کہ کشمیر کی
پڑھیں:
پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) حالیہ چند روز میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے، جس سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے نہ صرف معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی کا عملحکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔
(جاری ہے)
روزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز پنجاب کے 10 اضلاع سے 1437 افراد کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد افغانستان روانہ کیا گیا۔پشاور میں مقیم افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے ڈیڈلائن سے قبل ہی پاکستان چھوڑ دیا تھا، لیکن بہت سے تاجروں کو یقین تھا کہ حالیہ ڈیڈلائن میں توسیع کی جائے گی۔ تاہم اب کاروباری طبقہ بھی واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟افغان مہاجرین کی واپسی سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیے، جائیدادیں خریدیں، لیکن اچانک انہیں جانے کا کہنا دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے زیادہ تر کاروبار افغان تاجروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کے اچانک انخلا سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کی گولڈ مارکیٹ میں 80 فیصد کاروبار افغان تاجروں کے پاس ہے، جبکہ کرنسی ایکسچینج، کارپیٹ، جیولری، قیمتی پتھروں، ہوٹلوں، الیکٹرانکس اور کپڑوں کے کاروبار میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔
پاک-افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے، '' افغان تاجروں نے کراچی اور لاہور میں بڑے صنعتی یونٹس قائم کیے، جن سے سینکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ہے۔ ان کے جانے سے نہ صرف سرمایہ کاری ختم ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے۔‘‘ حکومتی پالیسی پر تنقیدتاجر برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جیسے سرحد چیمبر، پاک-افغان جائنٹ چیمبر اور افغان تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔
عبدالجلیل جان کے مطابق، ''حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک جامع پالیسی بنائی جاتی تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ ضیاالحق سرحدی نے تجویز دی کہ سرمایہ کاری کرنے والے افغان تاجروں کو ریلیف دیا جائے، جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا کاروبار افغانستان منتقل کر سکیں۔ سیاسی و معاشرتی خدشاتماہرین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے بدامنی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال، جہاں انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان تاجروں کو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھنے کا خطرہ ہے۔مزید برآں افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے۔
پشاور میں افغان تاجر اتحاد کے صدر حاجی نصیب شاہ کا کہنا تھا، ''ہمارا 40 سالہ کاروبار ایک ماہ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہمارے بچوں کی تعلیم یہاں جاری ہے، جبکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘‘ ثقافتی و سماجی نقصانخیبر پختونخوا میں افغان کمیونٹی کئی دہائیوں سے معاشی اور سماجی طور پر فعال ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی شادیاں کیں اور ان کی تیسری نسل پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی جبری واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔