WE News:
2025-02-11@01:21:58 GMT

فلسطین اور کشمیر: قبضے، جبر اور عالمی سیاست کی مشترکہ کہانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

حالیہ دنوں میں عالمِ عرب میں فلسطین کے معاملے پر ایک نیا تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے حالیہ اعلانات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

ان بیانات میں فلسطینیوں کے لیے ایک متبادل منصوبے کا ذکر کیا گیا، جس کے تحت انہیں ان کے آبائی علاقوں سے بےدخل کر کے مختلف عرب ممالک میں بسایا جائے گا، اس منصوبے کو ایک انسانی حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جہاں فلسطینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا جواز دیا جا رہا ہے۔

تاہم، عرب ممالک اور پاکستان نے نہ صرف اس منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کی ان کے وطن سے بے دخلی ایک ریڈ لائن ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ معاملہ صرف ایک حالیہ سفارتی تنازعہ نہیں، بلکہ فلسطین میں جاری اسرائیلی پالیسیوں کی ایک منظم شکل ہے، جو 75 سالوں سے فلسطینیوں کو بےدخل کرنے، ان کی زمین پر قبضہ جمانے اور آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے ترتیب دی جا رہی ہیں۔ یہی کچھ کشمیر میں بھی ہو رہا ہے، جہاں بھارت انہی پالیسیوں کو ایک نئے انداز میں نافذ کر رہا ہے۔

اسرائیل کی حالیہ پالیسی کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قابض طاقتیں ہمیشہ انسانی پہلو کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، فلسطینیوں کو ہجرت کے آزادانہ انتخاب کا موقع دینے کی بات کی جا رہی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ جب ان پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہو، ان کا محاصرہ کیا جا رہا ہو، بنیادی ضروریات زندگی سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہو، تو یہ انتخاب کس حد تک آزاد رہ جاتا ہے؟ اگر واقعی فلسطینیوں کو نقل مکانی کی آزادی حاصل ہے تو پھر انہیں اپنے وطن میں رہنے کی آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟ اس منطق میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے، جو اسرائیلی پالیسیوں کے دوہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔

اس طرح کی پالیسیوں کا مقصد صرف فلسطینیوں کو بےدخل کرنا نہیں، بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا حل فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے میں نہیں، بلکہ انہیں غیر محسوس طریقے سے ان کے وطن سے بے دخل کر کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے میں ہے۔

اس حکمتِ عملی میں سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس اقدام کو انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جائز قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو تاریخی طور پر استعماری طاقتوں کا ایک پرانا طریقہ کار رہا ہے۔

یہی پالیسی کشمیر میں بھی اپنائی جا رہی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسانے کے لیے دروازے کھول دیے، اس اقدام کے ذریعے بھارت بھی فلسطین کی طرز پر ایک نئی آبادیاتی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں کشمیریوں کی زمینوں پر غیر مقامی ہندوؤں کو آباد کر کے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

 یہ اقدام محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جو کشمیر میں اسرائیل کے فلسطین ماڈل کی عکاسی کرتا ہے، اسرائیل اور بھارت کی پالیسیوں میں ایک حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے۔

اسرائیل فلسطین میں یہودی بستیاں بنا کر فلسطینی آبادی کو محدود کر رہا ہے، جبکہ بھارت کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسا کر مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے کے بعد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں، جبکہ بھارت بھی کشمیریوں پر مسلسل دباؤ ڈال کر انہیں ہجرت پر مجبور کر رہا ہے اور پھر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ ترقی اور خوشحالی کے لیے ہو رہا ہے۔

ان دونوں خطوں میں فوجی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ایک جیسی ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں پر غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو اور محاصرے عائد کیے، وہی کچھ بھارت نے کشمیر میں کیا۔

فلسطین میں اسرائیلی فوج گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور گولیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا رہی ہے، جبکہ بھارت بھی آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے قوانین کے تحت کشمیریوں پر جبر کے وہی حربے آزما رہا ہے۔

اس قانون کے تحت بھارتی فوج کو کشمیریوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے قتل کرنے کا اختیار حاصل ہے، جو فلسطین میں اسرائیلی فوج کے انتظامی حراست کے قانون سے ملتا جلتا ہے۔

فلسطین اور کشمیر دونوں جگہوں پر مزاحمت کو دہشتگردی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ قابض طاقتوں کے مظالم کو دفاع کا نام دیا جاتا ہے، اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو عالمی میڈیا میں شدت پسند تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

عالمی سیاست میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس کے تمام مظالم کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جبکہ بھارت کو ایک بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے کشمیر میں اقدامات کو معمولی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود دونوں خطوں میں عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

مسلم دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین اور کشمیر صرف دو الگ الگ علاقائی تنازعات نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے استعماری منصوبے کا حصہ ہیں، جہاں قابض طاقتیں نہ صرف زمینوں پر قبضہ کر رہی ہیں بلکہ ان کی آبادیاتی ترکیب کو بھی مکمل طور پر بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اگر فلسطین میں اسرائیل کامیاب ہوتا ہے تو کشمیر میں بھارت کے لیے بھی یہی ماڈل کامیاب بنانے میں آسانی ہو جائے گی، یہاں پر پاکستان کی پالیسی قابلِ توجہ ہے، جس نے ہمیشہ فلسطین کی کھل کر حمایت کی ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی ایک واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔

عرب دنیا کو بھی اسی طرح کے ایک اجتماعی اور ٹھوس موقف کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل اور بھارت کے استعماری منصوبوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکے۔

یہ دونوں مسئلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ قبضے اور جبر کو جتنا بھی جائز قرار دینے کی کوشش کی جائے، تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ جبری قبضے ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمت جاری ہے، کشمیر کی جدوجہد بھی ختم ہونے والی نہیں۔

جبری قبضہ کبھی بھی ایک مستقل حقیقت نہیں بن سکتا، اور تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ یہی اصول فلسطین اور کشمیر دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اسرائیل امریکا غزہ فلسطین کشمیر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا فلسطین فلسطین اور کشمیر فلسطینیوں کو میں اسرائیل اسرائیل اور جبکہ بھارت فلسطین میں کی کوشش کر کر رہا ہے کے طور پر کرتا ہے جاتا ہے کو ایک کے لیے کیا جا جا رہا دیا جا کے تحت اور اس جا رہی

پڑھیں:

  اسحاق ڈار کی ایرانی وزیرخارجہ سے گفتگو،  فلسطین کے دو ریاستی حل پر اصرار

سٹی42: پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ سیّد عباس عراقچی کی ہفتے کو ٹیلی فون پر گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، خود مختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت القدس ہو۔

اسرائیل نے اپنی سرحدوں میں سب سے بڑی تبدیلی 1967 میں کی تھی جب کئی عرب ملکوں کے مشترکہ حملہ سے چھڑنے والی  چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی، غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور بیشتر شامی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قبضے نے اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے کے حُجم کو تین گنا بڑھا دیا تھا۔ اسرائیل نے  یروشلم شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تھا اور  گولان کی پہاڑیوں کو بھی ضم کر لیا تھا۔ بعد میں اسرائیل نے مذاکرات کے بعد سینائی کا رقبہ مصر کو واپس کر دیا تھا۔  اس جنگ کے بعد 1973 میں شام سمیت تین ملکوں نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا تو اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ میں شام کے صڈر حافظ الاسد سے تسلیم کروایا کہ گولان کا کچھ علاقہ اسرائیل اور شام کے درمیان بفر زون ہو گا جس میں  اقوام متحدہ کی فورس متعین ہو گی۔  غزہ کا علاقہ بعد میں  دو ریاستی حل پر مشتمل اوسلو معاہدہ کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو دے دیا تھا جس پر  2006 مین حماس مکمل قابض ہو گئی اور اس نے فلسطینی اتھارٹی کو چلانے والی جماعتوں کے ارکان  اور اتھارٹی کے اہلکاروں کو غزہ سے عملاً بے دخل کر دیا۔

راولپنڈی میں آپریشن،غیر قانونی 205 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملہ سے شروع ہونے والی جنگ کے پندرہ ماہ بعد جنگ بندی ہوئی تو غزہ سٹی کا بیشتر رہائشی علاقہ  رہنے کے قابل نہین رہا اور اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ اس علاقہ کی تعمیر نو اور اسے رہنے کے قابل بنانے کے لئے بیس سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں پہلے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے لئے غزہ کی تمام آبادی کو وہاں سے نکال کر دوسرے دو عرب ملکوں مین بھیجنا چاہتے ہیں، اس کے بعد  اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انترویو مین کہہ دیا کہ وہ دو ریاستی حل کو نہین مانتے۔  نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو سعودی عرب مین بسانے کا مشورہ دیا۔
اس تناظر میں وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون کال پر دونوں وزرا نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی مسلسل حالت زار پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیرکھیل فیصل کھوکھر کی ریکارڈمدت میں قذافی سٹیڈیم کی تعمیر پر محسن نقوی کو مبارکباد

غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسے ’انتہائی پریشان کن‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی سرزمین فلسطینی عوام کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل اور منصفانہ آپشن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، خود مختار اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘

اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال 

انہوں نے اس معاملے پر غور و خوض کے لیے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی او آئی سی اجلاس بلانے کے لیے پاکستان کی حمایت سے بھی آگاہ کیا۔

دونوں وزرا نے آنے والے دنوں میں ان پیش رفتوں پر قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • یورپ کا سب سے بڑا یوم یکجہتی کشمیر کا اجتماع پیرس میں ہوا
  • شہید کشمیری مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کیلئے عالمی عدالت جانے کا اعلان
  •   اسحاق ڈار کی ایرانی وزیرخارجہ سے گفتگو،  فلسطین کے دو ریاستی حل پر اصرار
  • کشمیر و فلسطین؛ مزاحمت کا استعارہ
  • غزہ پر قبضے کا موقف: غیر دانشمندانہ اور ناقابلِ عمل سوچ
  • امریکا کو افغانستان اور اسرائیل کو فلسطین میں شکست ہوئی، مولانا فضل الرحمان
  • میرپور ماتھیلو: پولیس اوررینجرزکے مشترکہ آپریشن کے بعد ڈاکوئوں کے قبضے سے برآمد ہونے والا اسلحہ میڈیا کو دکھایاجارہاہے
  • امریکہ فلسطین پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • کشمیر اور عالمی برادری