پاکستانی یوٹیوبرز کی باہمی چپقلش اور بیانات ان دنوں سوشل میڈیا پر خوب چرچے کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ابھی یوٹیوبرز شام ادریس اور ڈکی بھائی کے درمیان جھگڑے کی گرد ہی بیٹھی تھی کہ معاذ صفدر نے رجب بٹ کے بارے میں ایسی بات کہہ دی کہ مداحوں کے ہوش اڑ گئے۔

معاذ صفدر نے حال ہیں اپنے یوٹیوب چینل پر ایک وی لاگ اپ لوڈ کیا، جس میں انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ مداحوں کے سوالات کے جوابات دیے۔

ایک سوال کے دوران جب ان سے رجب بٹ کے بارے میں پوچھا گیا، تو معاذ صفدر نے رجب کی محنت کو سراہتے ہوئے کچھ ایسا کہہ دیا کہ مداحوں کے لیے یہ جواب حیرت انگیز تھا۔

معاذ صفدر نے کہا کہ رجب بٹ بہت محنتی لڑکا ہے۔ جس طرح سے وہ اپنے وی لاگز، چینل اور فیملی کو لے کر چل رہا ہے، یہ بہت مشکل کام ہے۔‘‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ رجب بٹ اپنی کمائی کو سنبھالنے اور اسے بڑھانے کےلیے بہت محنت کر رہے ہیں۔ معاذ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’سمجھ نہیں آتا کہ ایک شخص اتنے کام ایک ساتھ کیسے کر سکتا ہے۔‘‘

لیکن ان باتوں کے فوراً بعد ہی معاذ صفدر نے ایک ایسا بیان دیا جس نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

معاذ صفدر نے فیملی وی لاگز کے حوالے سے اپنا اور رجب بٹ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا، ’’فیملی وی لاگنگ میں میرا اور رجب بٹ کا کوئی موازنہ نہیں بنتا، کیونکہ میرے وی لاگز بہت شریف ہوتے ہیں، جبکہ رجب بٹ کے وی لاگز دوسری قسم کے ہوتے ہیں، جو لڑکوں کےلیے بہتر ہیں۔‘‘

معاذ صفدر نے رجب بٹ کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا، ’’جب بھی وہ کوئی برا کام کرتا ہے، تو میں کہہ دیتا ہوں کہ رجب بٹ کو وقت کے ساتھ عقل آجائے گی۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رجب بٹ کے کہ رجب بٹ

پڑھیں:

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا

انتشاری ٹولہ اور بعض صحافتی گدھ جس طرح سےشیخ مجیب کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں ،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے توبڑی غلط فہمی میں ہے یا سٹریٹجک تبدیلیوں سے لاعلم، بلکہ جہالت کا شکار ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجیب کی محبت کا قلونج ہو یا حمود الرحمٰن کمیشن کی درد شقیقہ دونوں کا سبب ایک ہے، ڈھاکہ میں بھارتی مفادات کی چتا سے اٹھتا دھواں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی اڑتی ہوئی دھول ، جس نے دہلی کے سائوتھ بلاک میں بیٹھے مکار بڈھو ں کے حواس مختل کر رکھے ہیں، وہ اپنی پون صدی کی سرمایہ کاری کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ۔ ایک جانب ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں تو دوسری جانب پروپیگنڈے کے محاذ پر ’’1971‘‘ کے آزمودہ بلکہ ایوارڈ یافتہ ’’فارن فرینڈز‘‘ کے وارثوں کو ایک بارپھر راتب ڈال رہے ہیں ، جو اپنی آباء کی رسم غداری اور دشمن سے یاری کی سرشت کے تحت یہ کبھی مہرنگ جیسی کٹھ پتلیوں کے سنگ دہشت گردوں کے ہمنوا ہوتے ہیںتو کبھی مجیب کی مدح خوانی کرکے پرکھوں کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔وقت کے قاضی نے پاکستان اور دو قومی نظریہ کے حق میں جو فیصلہ صادر کیا ہے ،وہ اس تمام پروپیگنڈے کی موت ہے بشرطیکہ ہم بنگلہ دیش کی بیداری اور بھارت مخالف بیانیے کو پاکستان میں درست طریقے سے پیش کر سکیں۔ اب تک ریاست اس میں ناکام دکھائی دیتی ہے ، مگر شائد ۔۔۔ ۔ ؟
حقیقت یہ ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کو نصف صدی سے زیادہ کا و قت بیت چکا، اس دوران دنیابھر میں اس سانحہ پر بے پناہ کام ہوا، بھارتی، بنگلہ دیشی اور مغربی ارباب دانش نے سچ کی کھوج لگانے کی پوری کوشش کی،جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ، اسی سچ نے بنگلہ دیشیوں کی سوچ کو بدلا اوروہا ں بھارت ہی نہیں اس سے منسلک ہر چیز قابل نفرت قرار پاگئی ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اس پر اس طرح سے کام نہیں کیا ، جس طرح کرنا چاہئے تھا بلکہ اغیار کا ڈھونڈا ہواسچ بھی اپنی نسل نو کے سامنے رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جس کی بہت سے ’’معلوم وجوہات‘‘ ہیں ، جن پر بحث کا یہ موقع نہیں ،لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے سامنے شاید آج بھی وہ حقائق پوری طرح نہیں لائے جا سکے جن کی بدولت سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اس سارے خونی کھیل کے پیچھے بھارت کی مکروہ چالیں اور عزائم تھے جنہیں شاید ہماری سیاسی قیادت اس وقت صحیح طریقے سے سمجھ نہ سکی یا بعض خود اس کھیل کا حصہ تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ مکتی باہنی کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک تھا جس کا پردہ اب مکمل طور پر چاک ہو چکا ہے اور بات ریسرچ پیپر ز سے آگے نکل کر ان کرداروں کے زبانی حقائق کے اظہار تک آگئی ہے جو کسی غلط فہمی یا ورغلانے پر اس وقت قاتلوں اور دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہوئےاور اب سچ سامنے آنے پر اپنی آنے والی نسلوں کو دشمن کے جال سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ان میں ایک نام زین العابدین کا بھی ہے، جو 971 میں مکتی باہنی کا کمانڈر اور پاکستان کے خلاف سازش کا کردار رہا۔ زین العابدین نے سچ بول کر اپنے ماضی کی غلطیوں کا زالہ کرنے کی کوشش کی ہے ، لازم ہے کہ اس سچ کو پاکستانی نوجوانوں میں پھیلایا جائے ، تاکہ میر جعفر و میر صادق کے وارث اور ان کے ممدوح بلوچستان سے فاٹا تک بھارتی ایجنٹ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کے متاثرین کے ساتھ ساتھ ، انتشاری ایجنڈے کے شیطانی سحر کا شکار بے سمت نوجوان جان سکیں کہ انہیں کس آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مکتی باہنی کے 74سالہ سابق کمانڈر زین العابدین نے جو اب پنسلونیا امریکہ میں مقیم ہیں یوٹیوب چینل وائٹ نیوز بنگلہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔زین العابدین نے کہا کہ’’ ہمیں اپنے ہی ملک اور اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم کبھی نہیں سوچاتھا کہ ہمارے آبائو اجداد کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہدکے بعد حاصل ہونیوالاملک ایک دن ہمیں آپس میں لڑتے ہوئے دیکھے گا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مکتی باہنی کے ارکان کو بھارت میں مسلح ٹریننگ دی گئی، ’’دہرادون‘‘ اور ’’ہافلانگ‘‘ میں دہشت گردی کے تربیتی مراکز قائم کئے گئے تھے ۔بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد فرار ہوکر بھارت میں قیام کے بارے میں بھی اہم انکشافات کئے اور بتایا کہ حسینہ بھارت میں آزاد نہیں ہےبلکہ گھر میں نظر بند اور مودی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بھارت اسے کبھی رہا نہیں کرے گا۔ اگر اسے رہا کر دیا جاتا ہے تو وہ سب کچھ ظاہر کر دے گی کہ کس طرح بھارت نے اسے بنگلہ دیش پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور کس طرح بھارت معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث تھا۔ زین العابدین کا عزم ہے کہ وہ اپنی تحریریوں کے ذریعے دنیا کے سامنے “بھارت کا بدصورت چہرہ ‘‘بے نقاب کررہا ہے، اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو گا۔عالمی طاقتیں بھارت کو بنگلہ دیش پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گی، نہ پاکستان، چین یا روس اسے برداشت کریں گے ۔ بھارت کے عوام جانتے ہیں کہ مودی کا ہندوستان پاکستان یا بنگلہ دیش کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جوہری معاہدے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری معاہدے ہوں گے ۔ پاکستان 1971 میں ملک کو دوٹکرے کرنے کا جواب دے گا ، اگر آج پاکستان متحد ہوتا تو بھارت پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اگر بھارت بنگلہ دیش کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا تو اسے تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان دشمنی کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہ’’ہم مشترکہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندے ہوئے ہیں ۔ بنگالی پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات نہیں رکھتے ۔ ہم ایک قوم ہیں،ہمارا مذہب بھی ایک ہے، پاکستانی ہم بنگلہ دیشیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے جو ملک بنایا تھا وہ متحد نہیں رہ سکا۔ اگر 1971 کا المناک واقعہ رونما نہ ہوتا تو ہم ایک مضبوط اور بہتر قوم بن سکتے تھے۔بھارت میں تربیت کے دوران اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے،زین العابدین نےانکشاف کیا،”ہمارے ٹرینر آسام اور اترپردیش سے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے نام ظاہر نہیں کیے، لیکن ہم انہیں ابتدائی ناموں سے جانتے تھے جیسے ایس کے ، سی پی اور بی ایم ۔ ان میں ایک بمل مکھرجی تھا جس کا نام مجھے بنگلہ دیش بننے کے بعد معلوم ہوا۔انہوں نے بتایاکہ انہیں چھوٹے دستی بم بنانے، بم نصب کرنے اور پلوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ایل ایم جی چلانے اور فوجی حکمت عملیوں سے متعلق تربیت دی گئی ۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • ترک صدر کی غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی کے بیان پر ٹرمپ پر کڑی تنقید
  • کسی میں جرات نہیں ہے کہ وہ اہل غزہ کو ان کی آبائی وطن سے نکالے. طیب اردوان
  • ’دنیا میں کسی وزیراعظم کو اس طرح کے اشتہار بناتے ہوئے دیکھا‘؟ شہباز شریف تنقید کی زد میں
  • ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا
  • کچھ کچھ سحر کے رنگ پْر افشاں ہوئے تو ہیں
  • یو ایس ایڈ کے غیر ملکی پراجیکٹس کیوں بند ہوئے اور ان کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
  • میرا بس چلے تو فوری طور پر 15 فیصد ٹیکس کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان: الیکشن کے ایک سال بعد شہباز شریف کی حکومت کہاں کھڑی ہے؟