شہبازشریف صاحب! سینما انڈسٹری پر بھی توجہ دیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
نائن الیون کے واقعات کے بعد پوری دنیا پر اتنے برے اثرات پڑے اور جس قدر پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے کی بین الاقوامی سازش کی گئی، ایک سزاتو یہ کہ ہم واحد اسلامی نیوٹرل پاور ہیں۔ دوسرا ہم پر دہشت گردی کی زبردستی جنگ ٹھونس کر خطے میں ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا کی گئی۔ ہمیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے بارود نے ایک طرف ہماری کھیلوں کے میدان خالی کر دیئے تو دوسری طرف ہمارے تفریحی اداروں کو بہت نقصان پہنچا۔ ہمارا سب سے بڑا نقصان فلم انڈسٹری کی بندش کی صورت میں ہوا۔ یہ عوام کی واحد تفریح تھی کہ لوگ جوق در جوق سینما گھروں میں جاتے تھے۔ وہ کیا ماحول تھا جب ہمارے تمام سٹوڈیوز میں دن رات فلمیں بنتی تھیں۔ وہ ہمارے ملک کا بہترین گلیمر دور تھا۔ میرے نزدیک پوری دنیا میں آج بھی سینما انڈسٹری بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ آج بھی وہاں فلموں کے اوپر فلمیں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے فلم انڈسٹری کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے 1947ء سے لے کر 2000ء تک ہر حکومت نے لاروں لپوں میں رکھتے ہوئے فلم انڈسٹری کی بندش میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر گزشتہ ایک عشرے کی بات کروں تو دکھ کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آج کے دور کے سوشل میڈیا نے جہاں نسلوں کو تباہ کیا وہاں حکومت نے سینما جیسی تفریح سے بھی قوم کو محروم کر رکھا ہے۔ آج ہمارے سینما گھروں میں یا تو ایک دو تھیٹر بن گئے، باقی گاڑیوں کے شو رومز یا پلازے بنا دیئے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس ملک میں فلمیں بننا بند ہو جائیں وہاں سینما نے تو بند ہونا ہی ہے یہ وہی سینما گھرتھے جہاں لائن درلائن میں لوگ بلیک میں ٹکٹیں خریدا کرتے۔
جب سے میاں شہبازشریف کی حکومت آئی ہے اس نے ملک کے تباہ شدہ معاشی سسٹم میں جان ڈال دی ہے اور ملک ایک بڑے بحران سے نکل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کھیلوں کے میدان بھی آباد ہو گئے۔ خاص کر لاہور، کراچی میں تین ملکی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کھیلا جا رہا ہے۔ 19فروری 2025ء سے ہمارے ہی میدانوں میں اس کے بعد پاکستان سپر لیگ کے دسویں ایڈیشن کا انعقاد ہونا ہے۔ آج اس ملک کے عوام کو اگر شدت کے ساتھ ضرورت ہے تو وہ فلم اور سینما انڈسٹری کی بحالی ہے۔ ایک غریب آدمی کے پاس ہے کیا۔ وہ بہت سی تباہیوں کے ساتھ اس بڑی تفریح سے بہت دور جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ کسی زمانے میں واحد تفریح فلم کی صورت میں وہ انجوائے کر لیتا تھا۔جو اس سے چھین لی گئی۔ گو جدید دور میں انٹرنیٹ اور دوسرے خرافات نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ بڑے ٹی وی چینلز نے اپنی پروڈکشنز کے تحت فلمیں بنائیں مگر وہ فلمیں سینما گھروں اور غریب آدمی کی جیب سے کوسوں دور ہیں کہ اس غریب نے جہاں فلم دیکھنے جانا ہے وہ سینما گھر ہی اب نہیں رہے۔ اگر سینما گھروں کی بات کروں تو وہ زمانہ یاد کریں جب لاہور، کراچی میں بڑے نامور سینما گھر ہوا کرتے تھے۔جہاں بڑی فلمیں سلورجوبلی، گولڈن جوبلی اور پلاٹینم جوبلی تک پہنچ جاتی تھیں۔
یہ فلم انڈسٹری، جو پاکستان میں متحرک ثقافت وتہذیب پر مشتمل تھی، آزادی کے بعد سے پاکستانی معاشرے اور ثقافت پریہی فلم گہرا اثر ڈالتی رہی ہے۔ پاکستانی سنیما مختلف ذیلی صنعتوں پر مشتمل ہے، جن میں سب سے نمایاں ’’لالی وڈ‘‘تھا جہاں اردو اور پنجابی زبان میں فلمیں بنتی تھیں۔ لالی وڈ پاکستان کی سب سے بڑی فلمی صنعتوں میں شمار کی گئی۔پاکستانی سنیما میں مختلف زبانوں میں بنی ہوئی فلمیں لگتی تھیں۔ پاکستانی سنیما ملکی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔اگر میں تھوڑاحساب کتاب کو دیکھوں تو پاکستان میں 1948ء سے اب تک 14ہزار سے زائد اردو، 10ہزار سے زائد پنجابی، 8ہزار سے زائد پشتو، 4ہزار سے زائد سندھی اور ایک ہزار سے زائد بلوچی فیچر فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ جو ملک کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور ’’لالی وڈ‘‘ کہلاتا تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ فیچر فلمیں بنانے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر تھا۔ تاہم، 1977ء سے 2007ء کے دوران، مارشل لائ، سنسر قوانین کی سختی اور معیار کی کمی کی وجہ سے فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو گئی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں فلم انڈسٹری کو کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستانی فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی۔ فلم پروڈیوسرز کے لئے ڈگری ہولڈر ہونا لازمی قرار دیا گیا، جس سے کئی فلمساز متاثر ہوئے۔ حکومت نے لاہور کے بیشتر سینما ہال بند کر دیئے۔ نئے ٹیکسز لگنے سے فلم بینی کم ہوگئی اور سینما انڈسٹری شدید مالی بحران کا شکار ہوئی۔ وی سی آر اور فلموں کی غیر قانونی کاپیوں (Piracy) نے بھی صنعت کو نقصان پہنچایا۔ اسی دوران پنجابی 1979ء میں ’’مولا جٹ‘‘ جیسی پنجابی فلموں نے ’’گنڈاسہ کلچر‘‘ کو جنم دیا، جس میں تشدد اور انتقام کے موضوعات حاوی رہے۔ اردو فلمیں زوال پذیر ہوئیں جبکہ پنجابی اور پشتو فلموں میں عریانی اور تشدد بڑھ گیا، جسے سنسر قوانین بھی روک نہ سکے۔
جنرل ضیاء الحق ہی کے دور میں ملک میں اسلامائزیشن کا عمل شروع ہوا تو اس کے باعث فلم انڈسٹری پر سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ لاہور میں بڑے سینما بند کر دیئے گئے جس سے انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا۔ ٹیکس کی شرح میں اضافے سے سینما گھروں میں حاضری کم ہوگئی اور لوگ متبادل تفریحی ذرائع کی طرف راغب ہونے لگے۔ VCRاور فلموں کی غیرقانونی کاپیوں (Piracy) نے بھی سنیما انڈسٹری کی آمدنی کو نقصان پہنچایا۔ ان عوامل کی وجہ سے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری تقریباً تباہ ہو گئی اور فلم بینوں کا رجحان بھارتی فلموں، ڈراموں اور بین الاقوامی تفریحی مواد کی طرف بڑھنے لگا۔
اور آخری بات…
شہباز حکومت سے گزارش ہے کہ جہاں وہ دن رات ملک کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں ایک نظر غریب کی تفریح پر بھی ڈال دیں سینما انڈسٹری اور فلم نگری کو پھر سے آباد کردیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سینما گھروں فلم انڈسٹری انڈسٹری کی کے ساتھ اور فلم کے بعد
پڑھیں:
وزیراعظم شہبازشریف کل دو روزہ سرکاری دورے پر متحدہ عرب امارات روانہ ہوں گے
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کل سے 11 فروری تک متحدہ عرب امارات کا 2 روزہ سرکاری دورہ کریں گے۔
وزیر اعظم یہ دورہ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی دعوت پر کر رہے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کے مطابق دورے کے دوران وزیراعظم ورلڈ گورنمنٹس سمٹ میں شرکت کریں گے۔ یہ سربراہی اجلاس گورننس، اختراعات اور بین الاقوامی تعاون کے مستقبل پر تبادلہ خیال کے لیے منعقد ہو رہا ہے۔
سربراہ اجلاس میں ریاستوں/حکومتوں کے سربراہان، عالمی پالیسی ساز اور نجی شعبے کی سرکردہ شخصیات کی ایک بڑی تعداد شرکت کرے گی، یہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا مارچ 2024 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد متحدہ عرب امارات کا دوسرا دورہ ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ہمراہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور کابینہ کے دیگر اہم ارکان سمیت ایک اعلیٰ سطح وفد بھی ہوگا۔ وفد متحدہ عرب امارات و دیگر عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کے استحکام کے پاکستان کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
دورے کے دوران، وزیراعظم ورلڈ گورنمنٹس سمٹ میں کلیدی خطاب کریں گے۔ وزیراعظم کے خطاب میں جامع اقتصادی ترقی، ڈیجیٹل تبدیلی اور گورننس اصلاحات کے لیے پاکستان کے وژن کو اجاگر کیا جائے گا۔
وزیر اعظم متحدہ عرب امارات کی قیادت کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے جبکہ دیگر ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت اور بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرکردہ سربراہان سے بھی ملاقات کریں گے۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات باہمی اعتماد، افہام و تفہیم اور دیرینہ باہمی مفید تعاون پر قائم ہیں۔ متحدہ عرب امارات پاکستان کے اہم اقتصادی اور تزویراتی شراکت داروں میں سے ایک ہے، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا متعدد شعبوں میں مضبوط تعاون ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تارکین وطن کی دنیا بھر میں پاکستانی تارکین وطن کی دوسری بڑی کمیونٹی ہے جو دونوں ممالک کی ترقی اور کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے، پاکستانی تارکین وطن کی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کام کر رہی ہے۔
وزیراعظم کا دورہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، وسیع تر اقتصادی تعاون کے فروغ کا اہم قدم پر دورہ باہمی خوشحالی کے لیے شراکت داری کی نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔