سالہا سال بعد پنجاب حکومت ہارس اینڈ کیٹل شو کے روائتی میلہ کا انعقاد کر رہی ہے ، گزشتہ روز اس کا باقاعدہ افتتاح بھی ہو گیا ،اس کے انعقاد کی ذمہ داری کا بوجھ پہلی بار پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور کے کندھوں پر ہے،میلہ اسپاں و مویشیاں عرصہ دراز سے پنجاب کی روائت چلی آرہی تھی مگر پھر نہ جانے کیوں اس کا انعقاد رک گیا ،ایسے میلے ٹھیلے عام شہریوں کیلئے مسرت وانبساط کا سامان لئے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہیں،دور دراز سے لوگ ان میلوں میں شرکت کیلئے آتے ہیں،میلہ مویشیاں سے ہر کسی کو لائیو سٹاک سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے ،مویشی جہاں پالنے والوں کی دودھ، مکھن، دہی، پنیر،کریم اور ملائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،وہاں ملکی معیشت کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں،دودھ کو رب کریم نے اپنا نور قرار دیا ہے اور یہ نور ان مویشیوں کی بدولت ہمیں نصیب ہوتا ہے،مویشی کے چرم نہ صرف مقامی صنعت میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں بلکہ ان کی بر آمد سے بھاری زر مبادلہ بھی کمایا جاتا ہے،ہڈیاں،آنتیں اور چربی بھی بہت سی صنعتوں کا خام مال ہیں خاص طور پر پولٹری فیڈ کا یہ لازمی جز ہیں،مویشیوں کو رب کریم نے قرآن پاک میں ’’زینت‘‘ قرار دیا ہے،کسان ،کاشتکار اور لائیو سٹاک کا آپس میں اٹوٹ رشتہ ہے،یہی نہیں مگس بانی اور پولٹری بھی کسان کی زینت اور آمدن کا معقول ذریعہ ہیں،مویشی دودھ کیساتھ ہماری گوشت کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں اب تو گوشت کی بر آمد بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے، یوں مویشی صرف زینت ہی نہیں بلکہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ اور بہترین ذریعہ آمدن بھی ہیں۔
ماضی قریب میں عمران خان حکومت نے لائیو سٹاک کی ترقی کیلئے دیہاتیوں کو کٹے اور مرغی پال سکیموں کی طرف راغب کیا جس کا آج تک مذاق اڑایا جاتا ہے مگر گھر کے قریب آسان اور سستے ذریعہ معاش کیلئے یہ بہترین سکیم تھی،وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے برسوں بعد اس شو کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جو ایک خوش آئند بات اور ماضی کی صحت مند روایت کو زندگی دینے کے مترادف ہے،عالمی معیار کے ہارس اینڈ کیٹل شو کا آغاز 9فروری کو ہو چکا ، شو کو’’اتحاد،ترقی اور ثقافت کی بحالی‘‘کا عنوان دیا گیا ہے،،10فروری سے باقاعدہ شروع ہونے والے شو میں 70بین الاقوامی ٹیمیں شرکت کرینگی،شو کے پروگرام شہر کے مختلف مقامات پر ہونگے،جن میں نیزہ بازی،تیر اندازی،بز کشی،پولوکے مقابلے ہونگے،ثقافتی تہوار میں پھولوں کی نمائش،آرائش گل کے مقابلے بھی ہونگے،گھوڑوں،پالتوجانوروں اور مویشیوں کے اس میلے میں پنجاب کی ثقافت اور زراعت دونوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور انہیں فروغ ملے گا،موجودہ تلخ ماحول میں یہ ایک صحت مند تفریح بھی ہو گی اور عالمی سطح پر ملک کا مثبت چہرہ بھی پیش کرنے میں مدد ملے گی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے،یہ شو پنجاب کے مختلف شہروں قصبوں سے آئے لوگوں کو ماضی کی شاندار تفریح سے بھی روشناس کرائے گا اور ایک صحت مند روایت کو بھی نئی زندگی ملے گی۔
اس شو کے ذریعے دیہات میں بسنے والوں کو ڈیری اور پولٹری کیساتھ شہد کی صنعت کو بھی فروغ ملے گا،دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوگا،بہت سی صنعتوں کو خام مال ملے گا اور بہت سی متعلقہ صنعتوں کا کاروبار چمکے گا،ڈیری مصنوعات،گوشت،چرم کی بر آمد سے کثیر زر مبادلہ بھی میسر آئے گا یوں اسے قال تقلید مثال قرار دیا جا سکتا ہے،مقامی سطح پر بیروز گار افراد کو منافع بخش روزگار بھی حاصل ہو گا،نوجوان طبقہ فضولیات سے نکل کر تعمیری کام میں مگن ہو جائیگا تو معاشرہ میں بھی امن اور سکون آئے گا،ماضی میں اس حوالے سے ایسے میلوں میں مویشیوں میں مقابلے بھی ہوتے تھے،زیادہ دودھ دینے والی بھینس گائے،بہت طاقتور بیل،خوبصورت بھیڑ بکریوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا،یہ بھی ایک تعمیری اور مثبت عمل تھا جو بیکار افراد کو زندگی کا مقصد فراہم کرتا اور کچھ کرنے کی لگن دیتا تھا،اگر ہم صرف مویشیوں کی افزائش اور ان کی مصنوعات کی برآمد کو فروغ دیں تو یہ ہماری دم توڑتی معیشت کیلئے آب حیات ثابت ہو سکتا ہے۔
اس خوبصورت اور بامقصد شو کے انتظامات پارکس اور ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور کے سپرد کئے گئے ہیں ،پی ایچ اے کی انتظامیہ کیلئے یہ کسی چیلنج سے کم نہیں اور کامیاب انعقاد ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی ،یہ ایک رجحان ساز ایکٹویٹی شمار ہو گی،پی ایچ اے پہلے ہی ا س چیلنج سے نبرد آزما ہے،اسے شہر لاہور کی ماند پڑتی خوبصورتی اور ماضی کی دلکشی لوٹانے کا ہدف دیا گیا ہے اور پی ایچ اے تندہی کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے میں مگن ہے،کہیں مصروف اور معروف شاہراہوں کے اطراف شجر کاری ہو رہی ہے تو کہیں آرائشی پودے لگائے جا رہے ہیں،کہیں موسمی پھولوں کے پودے لگا کر نگاہوں کو خیرہ اور تنفس کو خوشبو کا تحفہ دیا جا رہا ہے،شہر میں بہنے والے گندے نالے جو مچھروں کی نرسری تھے، بدبو تعفن کا گڑھ تھے ان کے کناروں کو سایہ دار اور پھل دار درختوں سے سجایا جا رہا ہے،ہر طرف رنگ برنگے خوشبو لٹاتے پودے لہلہاتے دکھائی دے رہے ہیں تو کہیں سڑکوں کی گرین بیلٹس میں رنگ و خوشبو کا سامان کیا جا رہا ہے،سچ یہ ہے کہ قلیل اور مختصر مدت میں پی ایچ اے نے شہر کا نقشہ بدل ڈالا ہے،جس سڑک سے گزر یں ہر طرف نیلے، پیلے، سبز، گلابی،سر خ پھول اور سبزہ آنکھوں کو راحت بخشتا دکھائی پڑتا ہے۔
پنجا ب حکومت نے ہر ضلع میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹیاں بھی قائم کر دی ہیں ،ایک دور تھا شہر کی سڑکوں پر آم،جامن اور دیگر پھلدار درختوں کی بھرمار ہوتی تھی،بڑے بڑے خوبصورت اور تادیر تازہ رہنے والے پھولوں کے درخت تھے،صنعت میں استعمال ہونے والے منافع بخش اور نقد آور درخت لگائے جاتے تھے،جن سے آمدن بھی ہوتی تھی، مردم شماری کی طرح شجر شماری بھی کی جاتی تھی،مگر آج زیادہ توجہ زیبائشی اور آرائشی پودوں پر ہے،اگر خالی اور بیکار پڑی اراضی پر منصوبہ بندی کے تحت شجر کاری کی جائے تو بے تحاشا منافع کمایا جا سکتا اور مومیاتی تبدیلیوں سے بچا جا سکتا ہے، موسموں کی شدت کی واحد وجہ درختوں کی کمی ہے،زرعی اراضی بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے حکومت اگر پی ایچ اے کی طرز پر ایگریکلچر اتھارٹی بنا دے اور اسے کسانوں کاشتکاروں کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری کیساتھ زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار کا ٹاسک دے تو ملک بھی خوشحال ہو گا اور حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس لئے ہمیں زراعت،شجر کاری،بے آباد اراضی کی آباد کاری،لائیو سٹاک،پولٹری،شہد کی پیداوار پر توجہ دینا ہو گی،پی ایچ اے ہمارے سامنے ہے اس کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ہم آسان اور سستے ذریعہ معاش حاصل کر کے نئی نسل کو بامقصد زندگی دے سکتے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: لائیو سٹاک بھی ہو
پڑھیں:
8 فروری جعلی مینڈیٹ کا دن ہے، ریلیف کا دعوی کرنے والے حکمران عوام کو ابھی تک کوئی سکھ نہیں دے سکے، ڈاکٹر روبینہ اختر
پی ٹی آئی ویمن ونگ کی رہنما کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت قرضوں پہ قرضے لیے جا رہی ہے ان قرضوں کو اتارنے کے لیے عوام کو مہنگائی کی چکی میں ڈالا جائے گا، اگر موجودہ حکومت کو اپنی مقبولیت پر اتنا یقین ہے تو وہ الیکشن کی طرف جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ حلقہ این اے 148کی امیدوار تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر روبینہ اختر نے کہا ہے کہ 8 فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ دن تھا کیونکہ اس دن تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی تھی جالی مینڈیٹ کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے، لیکن ریلیف کا دعوی کرنے والے حکمران عوام کو ابھی تک کوئی سکھ نہیں دے سکے، بلکہ صرف اپنے سکھ اور آرام کو مزید وسعت دے رہے ہیں، جس کی تازہ مثال حکومتی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کی تنخواہوں میں اضافہ ہے، کسانوں پر زرعی ٹیکس لگا کر ان کی کمر توڑی جا رہی ہے، اس سال گندم کی اگر مناسب ریٹ پر خریداری نہ ہوئی تو اگلے سال کون سا کسان گندم اگائے گا تو پھر سوچ لیں کہ ملک کا کیا حال ہوگا، موجودہ حکومت قرضوں پہ قرضے لیے جا رہی ہے، ان قرضوں کو اتارنے کے لیے عوام کو مہنگائی کی چکی میں ڈالا جائے گا، ڈاکٹر روبینہ اختر نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت کو اپنی مقبولیت پر اتنا یقین ہے تو وہ الیکشن کی طرف جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔