انسان کی فطرت میں کئی جذبات پوشیدہ ہیں، جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی ہوتے ہیں، انہی میں سے ایک منفی جذبہ حسد ہے جو انسان کے سکون کو تباہ کر نے کے ساتھ معاشرے میں نفرت اور دشمنی کو فروغ دیتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حسد نے نہ صرف خاندانوں کو توڑا بلکہ سلطنتوں کو بھی برباد کیا۔ یہ ایک نفسیاتی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے دل میں جلن اور نفرت پیدا کرتی ہے۔ حسد کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر نا راضی اور دوسروں کی کامیابی پر نا خوش ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں حسد کو سخت نا پسند کیا گیا ہے اور اسے نیکیوں کے زیاں کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’تم حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے‘۔ قرآن کریم میں بھی حسد کے نقصانات کو واضح کرتے ہوئے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ تاریخِ اسلام میں حسد کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حسد اور کینہ نا صرف فرد بلکہ پوری کی پوری قوموں اور معاشروں کے زوال کا سبب بنتا ہے حسد ہی نے عزازیل کو ابلیس بنایا اور پھر اس پر بس نہیں کی، بلکہ آدم ؑ سے حسد کے باعث ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانہِ گندم کھانے پر اکسانے کا عمل بھی اسی حسد کا نتیجہ تھا۔ انسانوں سے اسی حسد کے باعث ابلیس قیامت تک کوشاں رہے گا کہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اس مقام سے گرا دے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘۔ تو گویا حسد ان اولین گناہوں میں سرفہرست تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سلسلہ پھر تھما نہیں، اسی حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ نہیں کیا اور اپنے سگے بھائی کو ہی قتل کر ڈالا۔ اس کے علاوہ برادرانِ یوسف ؑ کا حسد، قریش کا نبی کریم ؐ سے حسد، ابو جہل کا نبی کریم سے حسد، ابو لہب اور امِ جمیل کا حسد، مدینہ کے یہودی علماء کا نبی کریمﷺ سے حسد، خوارج کا حضرت علی ؓ سے حسد، یزید کا حضرت امام حسینؓ سے حسد، فرعون کا موسیٰ ؑ سے حسد۔ حسد اور جادو انسانی معاشرے میں پائی جانے والی دو انتہائی مہلک برائیاں ہیں جو فرد اور سماج دونوں کو ہی تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو انسان کو خوشحال اور ترقی کرتا دیکھ کر بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس بے قراری میں غیر شرعی اور گناہ آلود راستوں کا انتخاب کر لیتے ہیں وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ان سے آگے نکل گیا، کسی کے پاس دولت، عزت اور شہرت کیسے آ گئی۔ یہی جلن انہیں منفی راستوں پر لے جاتی ہے اور پھر وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کالے جادو جیسے شیطانی ہتھیاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ کالا جادو اور حسد انسانی زندگی کے دو ایسے زہر ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے، مگر آہستہ آہستہ زندگی کوتباہ کر دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے۔ حسد نفسیاتی امراض میں سے ایک مرض ہے اور ایسا غالب مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے اور حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے، اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے، دل کا سکون ختم ہو جاتا ہے، بے چینی، ڈپریشن، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر
جس دل میں کینہ ہے، وہی برباد ہوا
نفرتوں میں جل کر کوئی نہ آباد ہوا
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں حسد کرنے والے کا دل جب دنیا کی ظلمت میں گھِر کر خطرات ِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آماجگاہ بن چکا ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہ ِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہو کر حرص و حسد اور کبر سے بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اتنا اندھا کر دیتا ہے کہ پھر وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو آغازِ کائنات سے چلی آ رہی ہے اور ایمان کے ساتھ ساتھ بندے کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہے، لیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کر بیٹھتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’دوسروں کے مال و دولت کی طرف نا دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو، تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کر سکو‘۔ انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے، وہ اپنی نا کامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کی خوشحالی سے نفرت کرنے لگتا ہے اور انتقام کی خاطر ایسے راستوں کا انتخاب کرتا ہے جو اسے مزید گمراہی میں مبتلا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ اگر یہ چیز اس کو حاصل نہیں ہے تو پھر یہ نعمت اس دوسرے انسان سے بھی چھن جائے۔ حسد کی سب سے بڑی جڑ انسان کا اس دنیائے فانی کی محبت میں مبتلا ہونا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو اندیشہ تھا کہ امتِ مسلمہ حسد کی لعنت میں مبتلا ہو جائے گی۔چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی، صحابہؓ نے پوچھا پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، غرور، تکبر، کثرتِ حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہو گی اور پھر قتل بہت زیادہ ہو گا۔ درحقیقت حسد ایک ایسی بے مقصد جنگ ہے جس میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی، مگر نقصان سب کا ہی ہوتا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: میں مبتلا ہو ہے جو انسان اللہ تعالی دیتا ہے جاتا ہے جاتی ہے ہے جو ا ہے اور حسد کی
پڑھیں:
ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو نافذ کئے جانے والے ٹیرفس کو 90 روز کے لئے روک کر ممالک کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا کہا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ نافذ کردہ ٹیرف میں امریکی فائدے کے حامل نتائج حاصل کر کےاس معاملے کو حل کریں گے لیکن اس 90 روزہ مہلت میں چین شامل نہیں ہے۔
بقول امریکی صدر، چین نے امریکہ پر جوابی ٹیرف لگایا ہے اس لئے اس سے بات نہیں ہو سکتی ۔اس خبر کے آتے ہی کئی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹیرف پالیسی کا اصل مقصد شاید چین کو ہی ٹیرف پالیسی میں لانا اور اس پر دباؤ ڈالنا تھا کیوں کہ باقی تمام ممالک سے بات کرنا اور چین سے اعلانیہ ٹیرف جنگ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی برتری کی کوشش کی امریکی پالیسی کا واضح اعلان ہے۔
چین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے دروازے بات چیت کے لئے کھلے ہیں لیکن یہ بات چیت باہمی احترام کے اصول پر ہونی چاہیے بصورت دیگر چین یہ لڑائی آخری دم تک لڑے گا۔
تاریخی طور پر دیکھیں تو چین کا رویہ خود سے منسلک ہر معاملے میں ایسا ہی ہے۔ چین کی بین الاقوامی سیاست کا ایک سب سے اہم پہلو ہی یہ ہے کہ چین کسی بھی معاملے میں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا جائے اور ترقی اور تعاون کے عمل کو جاری رکھا جائے۔
میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ چین کو اس بار امریکی صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سے واقفیت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکی صدر کا رویہ مذاکرات والا نظر نہیں آرہا ،شاید اسی لئے چین کی جانب سے بھی اس بار سخت حکمت عملی اور جواب دیکھنے میں آرہا ہے۔
امریکی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 125 یا 145 فیصد۔ جوابی ٹیرف 34 فیصد ہوں، 84 یا 125 فیصد، نقصان ہر حال میں دنیا کا ہی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی ہر میڈیا ٹاک اور تقریبات میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کے سرکاری خزانے میں روزانہ کی مد میں اربوں ڈالرز جمع ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ یہ اربوں ڈالر انہیں کون جمع کر وارہا ہے؟کیوں کہ ٹیرف میں بہر حال قیمت تو عوام نے ادا کرنی ہے۔
اب ہر فرد کا ایک ہی سوال ہے۔ اس ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟ چین سمیت تمام ممالک اور عالمی تجارتی تنظیموں کا یہ ماننا ہے کہ یکطرفہ پسندی کی یہ سوچ زیادہ عرصہ چل نہیں سکتی اور اس کا اختتام بھی اچھا نہیں ہو گا لہذا جتنا جلد ممکن ہو سکے اس سے جان چھڑانی چاہیئے۔
ماہرین معاشیات بھی اس بات پر حیران ہیں کہ خود سابق امریکی صدور کا قائم کیا ہوا ادارہ اور نظام جسے دنیا ڈبلیو ٹی او کے نام سے جانتی ہے اور ان سابق صدور کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہی تھا ،آج کیسے امریکہ مخالف ہو سکتا ہے؟۔ یا تو کھل کر اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ہم نے جو نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی وہ بہتر نہیں تھا یا پھر یہ کہ جتنا فائدہ ہم نے اس کا حاصل کرنا تھا وہ کر چکے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں۔
تاہم ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آ رہا اور شائد آئے گا بھی نہیں کیوں کہ امریکہ کے حصے کے اس طرح کے کئی اعترافات ابھی تک باقی ہیں جو اس نے کرنے ہیں لیکن آج تک دنیا انہیں نہیں سن سکی، جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور ہم نے حملہ کرتے ہوئے جو کہا وہ یا تو جھوٹ تھا یا پھر غلد معلومات۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے تو وہ جھوٹ ہی کیا جس کا اعتراف کر لیا جائے۔
اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں کچھ اداروں نے یہ نشاندہی کی ہے کہ 2 اپریل کو امریکی صدر نے ٹیرف کی جو فہرست دنیا کے سامنے اٹھا رکھی تھی اس کی تیکنیکی تحقیق میں کئی فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات پر بھی انتظامیہ کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
اسی طرح ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارے اور نقصان کا دعوی غلط ہے۔اپنے مضمون "امریکہ تجارت کا سب سے بڑا فاتح ہے " میں اینگو جیا اوکونجو ویلا نے تفصیلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ نہ صرف عالمی تجارتی نظام کا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے ، بلکہ خدمات کے شعبے میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر جنرل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں امریکہ کی خدمات کی برآمدات نے ایک ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا، جو عالمی خدمات کی تجارت کا 13 فیصد ہیں۔ بڑی معیشتوں کے ساتھ خدمات کے شعبے میں امریکہ کا تجارتی سر پلس زیادہ ہے اور 2024 میں اس کا کل سرپلس تقریباً 300 ارب امریکی ڈالر تھا۔
اس سے بھی زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اعلیٰ اضافی قیمت والی خدمات کے شعبے میں اور بھی زیادہ برتری حاصل ہے۔دانشورانہ املاک کے استعمال اور لائسنس کی فیسوں سے امریکہ کی سالانہ آمدنی 144 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بنتی ہے جو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ سو تجارتی خسارہ کیسے اور کہاں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر ایک معروف ماہر معاشیات ہیں جو کئی عالمی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحفظ پسندی کی جس راہ پر چلنے کا آغاز امریکہ نے کیا ہے اس کا مستقبل کسی صورت تابناک نظر نہیں آتا کیوں کہ ایسی کوئی مثال دنیا کی حالیہ تارٰیخ میں ملتی ہی نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ڈبلیو ٹی او کے قوانین میں یہ شق موجود ہے کہ اگر کوئی ملک یہ دعوی کرتا ہے کہ اسے تحفظ پسندی کی ضرورت ہے تو ڈبلیو ٹی او اپنے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے کچھ وقت کی اجازت دے سکتا ہے تا وقت کہ اس ملک کی معیشت خطرات سے باہر آجائے۔
ویسے میرا ماننا ہے کہ ٹیرف کے اس معاملے میں اصولوں اور ضابطوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں تو ان کا ذکر کیا کرنا۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال ہے اور طاقت کے اس کھیل میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ امریکہ کی پہل کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔
یہ تقسیم مفادات کی بھی ہو سکتی ہے اور اصولوں کی بنیاد پر بھی۔وقت بتائے گا کہ دنیا اس صورتحا ل کا مقابلہ کیسے کرتی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس سارے معاملے میں اصل کھیل وقت کا ہی ہے۔امریکی ٹیرف سے متاثرہ ممالک نے اگر مشکل وقت ثابت قدمی اور نئے مواقع پیدا کرنے میں گزار ا تو کوئی شک نہیں کہ امریکا میں پیدا ہونے والا اندرونی دباؤ ہی امریکی انتظامیہ کو ان کی غلطی کا احساس دلا ئے گا کیوں کہ بیرونی دنیا ،اصول اور اخلاقی دباؤ طاقت کے نشہ کو زائل نہیں کر پایا ہے۔
از ۔۔ اعتصام الحق ثاقب