آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
رواں ماہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد لاہور، بلوچستان، سندھ ہائیکورٹس سے تین ججز جن میں جسٹس محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کر دیا گیا۔ ہائیکورٹ ججز کی دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر پر ہیجانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور اس امر کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے اس اقدام کو غیر قانونی اور آئین سے فراڈ قرار دیا۔ کہیں چند وکلاء اور چند وکلاء تنظیمیں حکومتی اقدام کی مذمت کر رہی ہیں تو کہیں ججز کی عاشق معشوق خط و کتابت میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک جج اور نئے نویلے خط لکھنے والے سپریم کورٹ کے چار ججوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے لیے دوبارہ سے حلف اُٹھانا لازم ہے۔ یاد رہے کہ آئینی عہدیداران و اداروں کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی نوٹیفیکیشن/ حکم نامہ/ہدایت نامہ کے ساتھ آئینی و قانونی شق کا حوالہ دینا لازم قرار پاتا ہے۔ اب ہائیکورٹ ججز تبادلوں کے نوٹیفکیشن کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر درج ہے کہ صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 200 کے تابع ججز کا تبادلہ کیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کیا آئین میں آرٹیکل 200 کا اضافہ یا اس آرٹیکل میں ترامیم 26 ویں آئینی ترمیم کی بدولت ہوئی ہیں۔ یا پھر یہ آرٹیکل 1973 ہی سے آئین کا حصہ ہے؟ اسکا سادہ اور آسان سا جواب یہی ہے کہ آرٹیکل 200 اسی دن سے آئین کا حصہ ہے جس دن سے آئین نافذ العمل ہوا۔ آرٹیکل 200 کیا ہے؟ آرٹیکل 200 کے مطابق: صدر، ہائیکورٹ کے کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکتا ہے، لیکن کسی جج کو اس کی رضامندی کے بغیر اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں، جج سے مراد ہائیکورٹ کا جج جبکہ چیف جسٹس (ہائیکورٹ) نہیں ہے مگر ہائیکورٹ کا ایسا جج جو قائم مقام چیف جسٹس ہائیکورٹ کے طور ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو۔ جہاں کسی جج کو ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے علاوہ کسی اور جگہ پر جج کے علاوہ کسی اور عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ اس مدت کے دوران جس کے لیے وہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر کام کرتا ہے جس میں اس کا تبادلہ ہوا ہے، یا اس طرح کے دوسرے عہدے پر فائز ہے، اس کی تنخواہ کے علاوہ الاؤنسز اور مراعات کا حقدار ہو گا جسکا تعین صدارتی حکم نامے کے ذریعہ کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں ہائی کورٹ سے مراد ہائی کورٹ کا کوئی بھی بینچ ہے۔
محترم قارئین! اُمید ہے آرٹیکل 200 کے مطالعہ سے یہ بات تو طے ہو چکی ہو گی کہ حال ہی میں ہائیکورٹ ججز تبادلوں کا عمل کسی طور پر غیرآئینی و غیر قانونی یا فراڈ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اقدام عین آئین کے مطابق ہے۔ اب یہاں پھر اک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ میں اس سے پہلے بھی کبھی ہائیکورٹ ججز کے تبادلے ہوئے ہیں۔ جی بالکل تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سابق چیف جسٹس صاحبان، جن میں جسٹس سردار محمد اسلم سال 2003 تا فروری 2008 تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض انجام دیتے رہے پھر 9 فروری 2008 اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنا دیئے گئے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان 2006 لاہور ہائیکورٹ میں جج تعینات ہوئے اور جنوری 2011 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ اسی طرح جسٹس بلال خان بھی 2008 تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دیتے رہے اسکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کیے گئے۔
یہاں اک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج تعینات ہونے کے لیے جج کا اسلام آباد کا ڈومیسائل ہونا لازم ہے؟ اسکا جواب اسلام آباد ایکٹ، 2010 کے سیکشن 3 میں موجود ہے: جسکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ایک چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل ہو گی جو آئین کے مطابق پاکستان کے صوبوں اور دیگر علاقوں سے مقرر کیے جائیں گے۔
ججز تبادلوں پر معترض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آئین و قانون میں ٹرانسفر کی اجازت تو ہے مگر چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کو ٹرانسفر کرنے کا اقدام حکومت کی بدنیتی یعنی موجودہ ججز کو کنٹرول کرنا ہے تو اسکا سادہ سا جواب یہی بنتا ہے کہ جب ججز آئین و قانون میں درج اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر سیاست کرنا شروع کریں گے تو پھر سیاستدانوں کے پاس سوائے سیاست کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہو گا کیونکہ سیاست کرنا تو پھر سیاستدانوں کا ہی کام ہے نا کہ معزز جج صاحبان کا۔
بحیثیت قانون و سیاست کے طالب علم، میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی معاملے پر میں نہ مانوں والی سیاست و بیان بازی اور خط و کتابت سے پہلے آئین و قانون میں درج شقوں کا مطالعہ کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور یہ بات کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ معزز جج صاحبان کو خط و کتابت اور بیان بازی کرنے سے پہلے آئین پاکستان کا ازسر نو مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ اسلام ا باد ہائی ہائیکورٹ ججز ہائیکورٹ میں ہائیکورٹ کے ہائی کورٹ ا رٹیکل 200 کے مطابق چیف جسٹس کورٹ کے پیدا ہو
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی کیس: جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی سے متعلق اہم کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو بھی کام سے روکنے کی استدعا قبول نہیں کی۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز کو نوٹسز جاری کر دیے، جبکہ اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس میں ہمارے سامنے سات درخواستیں ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل ادریس اشرف نے عدالت کو بتایا کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور راجہ مقسط کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور ان کی جانب سے بنیادی حقوق کے معاملے پر درخواست دائر کی گئی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ججز کی درخواست سننا بہتر ہوگا، رولز کے مطابق بھی سینئر وکیل کو پہلے سنا جانا چاہیے۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے وکلا منیر اے ملک اور صلاح الدین روسٹرم پر آگئے، اور منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں؛ ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سینیارٹی کیا ہوگی؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سول سروس ملازمین کے سینیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سینیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی یا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سینیارٹی شروع ہوگی؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سینیارٹی میں تبدیلی پر؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج کا تبادلہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوا، وہ پڑھ دیں۔ منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو، اس کی رضامندی ضروری ہے، اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازم ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ جج کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، ہمارا اعتراض یہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا ہوتا، وہاں تو عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر جج کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔
منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ صدر مملکت کے پاس ججز تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں، اور ججز کی تقرری کے آرٹیکل 175 اے کے ساتھ ملا کر اس معاملے کو پڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق تمام ججز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ججز کے تبادلوں میں اضافی مراعات ہوتیں تو اعتراض بنتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر صدر خود سے ججز کے تبادلے کرے تو سوال اٹھے گا، لیکن چیف جسٹس کی سفارش پر تبادلے آئین کے مطابق ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ اسی طرح جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف کو بھی کام سے روکنے کی استدعا مسترد کی گئی۔
عدالت نے متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔
Post Views: 1