ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کے منصوبے کا ایک بار پھر اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر اسے اپنی ملکیت میں لینے کے عزم کا ایک بار پھر سے اظہار کیا ہے۔
امریکی صدارتی طیارے ’ایئر فورس ون‘ میں دوران پرواز ڈونلڈ ٹرمپ نے رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ کو خرید کر اسے امریکی ملکیت میں لینے کے منصوبے پر قائم ہیں تاہم وہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو غزہ کے کچھ حصوں کی بحالی کی اجازت دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ کچھ فلسطینیوں کو امریکا میں آبادکاری کی اجازت دے سکتے ہیں تاہم امریکا ایسی درخواستوں کی فرداً فرداً جانچ پڑتال کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی ٹرمپ کی تجویز غیرمنصفانہ ہے، پاکستان
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو حماس نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ خریدوفروخت کی پراپرٹی نہیں ہے بلکہ ہماری مقبوضہ علاقوں کا جز لاینفک ہے۔ فلسطینی جبری بے دخلی کے ایسے کسی منصوبے کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے بیان کو عالمی طور پر شدید مخلافت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ کئی ممالک نے اس منصوبے کو فلسطین میں تنازع کو ہوا دینے کے مترادف قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Donald Trump Gaza Palestine غزہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فلسطین ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
ٹرمپ بھی نکسن کی طرح جان بوجھ کر خود کو غیر معقول ظاہر کر رہے ہیں، تجزیہ کار
پاکستانی تجزیہ کار کے مطابق غزہ کے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی بائیڈن انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد ہی شروع کر دی تھی اور یہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے عین مطابق تھا جو حماس کے حملوں کے فوراً بعد میڈیا پر لیک ہوگیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ معروف تجزیہ کار ضرار کھوڑو نے پاکستانی جریدے میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اتنا ہی خالصتاً امریکی معلوم ہوتا ہے جتنا ایپل پائی سوئٹ ڈش۔ اس منصوبے میں پہلے مقامی آبادی کے بڑے حصے کو قتل کرنا اور پھر اپنے منافع کے لیے ان کی زمین کو ہتھیانا شامل ہے۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی معاونت اور حوصلہ افزائی سے جاری تباہی کا عمل اب ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے، یہ ثابت کرتا ہے (اگر ہمیں مزید ثبوتوں کی ضرورت ہے تو) کہ جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو امریکا کی دو جماعتیں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن، نہ صرف ایک صفحے پر بلکہ وہ گویا ایک پیراگراف، ایک جملے، ایک لفظ حتیٰ کہ ایک فل اسٹاپ پر بھی ساتھ ساتھ ہیں۔
ضرار کھوڑو کہتے ہیں کہ مغربی ممالک اور میڈیا ہاؤسز نے جو چیز بڑی آسانی سے نظرانداز کردی وہ درحقیقت یہ تھی کہ غزہ کے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی بائیڈن انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد ہی شروع کر دی تھی اور یہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے عین مطابق تھا جو حماس کے حملوں کے فوراً بعد میڈیا پر لیک ہوگیا تھا۔ تاہم جو بات پہلے نجی طور پر سفارتی ذرائع سے دبی آوازوں میں پہنچائی جاتی تھی، ٹرمپ نے بس وہی بات بلند و بالا کردی ہے جبکہ ایک پراپرٹی ٹائیکون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس منصوبے میں اعلیٰ معیار کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بھی شامل کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انتہائی منصوبہ کیوں تجویز کیا؟ اس کی ایک وضاحت تو یہ ہے کہ وہ بالکل پاگل ہیں، اور اسے خارج از الامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستانی تجزیہ کار کے مطابق زیادہ امکان ہے کہ ٹرمپ خود چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ وہ جنونی یا پاگل ہیں۔ یہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی صدرات کے دوران سامنے آنے والی میڈ مین تھیوری سے مماثل روش ہے۔ رچرڈ نکسن نے دانستہ طور پر خود کو غیرمعقول اور غیرمتوقع طبعیت کا ظاہر کیا تاکہ کمیونسٹ ممالک کے ساتھ بات چیت میں انہیں فوائد حاصل ہوں۔ وہ کھلے عام دھمکیاں دیتے تھے جبکہ ان کے سفارتکار حریف ممالک کے رہنماؤں کو کہتے تھے کہ صدر نکسن کچھ بھی کرسکتے ہیں، لہٰذا انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ٹرمپ کی فطرت بھی چھوٹے معاملات کے لیے بڑے اقدامات کرنے کی ہے اور یہ میڈیا اور مخالفین کی توجہ بھٹکانے میں بھی مفید ثابت ہوا ہے۔ وہ بہت سے مشتعل بیانات دیتے ہیں جس سے میڈیا اور مخالفین کی توانائی ٹرمپ کے حیرت انگیز بیانات پر مرکوز ہوجاتی ہے جبکہ اس عمل میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حقیقی اقدامات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔