امریکہ سعودی تعلقات نیا موڑ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز دی ہے۔ اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب کیساتھ اسرائیل کے تعلقات کیلئے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔؟ اس پر نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کیلئے خطرہ ہے۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بعید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ سعودی عرب کے تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور حکومت کی طرح ہونگے۔ تحریر: امیر علی ابو فتاح
ایسا لگتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات 2016ء سے 2020ء تک کے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے جیسے نہیں ہوں گے اور حال ہی میں ان تعلقات میں کئی چیلنجوں کے آثار نمودار ہوچکے ہیں۔ صدر کے طور پر اپنے پہلے دور میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر خصوصی توجہ دی۔ یہ توجہ سعودی عرب کے بارے میں ٹرمپ کے اقتصادی نقطہ نظر اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے امریکی حکومت کے سیاسی اور سکیورٹی مقاصد کی بدولت تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں ٹرمپ تو سعودی عرب کے بارے میں وہی معاشی نظریہ رکھتا ہے، لیکن امریکی حکومت کے بارے میں محمد بن سلمان کا سیاسی اور سکیورٹی نقطہ نظر تبدیل ہوگیا ہے۔
ٹرمپ نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ میں 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے۔ بن سلمان نے اس مطالبے پر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی طرح اپنی انتظامیہ کو اقتصادی میدان میں امریکہ کے تمام مطالبات ماننے پر تیار نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے امریکی حکومت کے ایک کھرب کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے کچھ اپنے اہم اقتصادی اہداف بھی ہیں، جو ٹرمپ کے مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے سعودی عرب اور اوپیک سے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب ٹرمپ کے اس مطالبے سے اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ ریاض تیل کی آمدنی کی بنیاد پر اپنے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ اگلا مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں سعودی عرب نے امریکہ سے ایران پر قابو پانے اور اسے کمزور کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ایران کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف اور اس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حمایت کی تھی۔ لیکن اب سات سال بعد تہران-ریاض کے تعلقات معمول پر آچکے ہیں۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اب سعودی عرب نے ٹرمپ انتظامیہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے نرم پالیسی کا مطالبہ کیا ہے۔
البتہ سب سے اہم مسئلہ وہ چیلنج ہے، جو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پیدا ہوا ہے اور اس کا اظہار ٹرمپ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کے لوگوں کو مصر اور اردن سمیت دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا نسل پرستانہ منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے مخالفت کی ہے۔ یہ چیلنج اس قدر سنگین ہے کہ سعودی مشاورتی کونسل کے ایک رکن نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ٹرمپ امن کا چیمپئن بننا چاہتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں استحکام اور خوشحالی لانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اسرائیلی دوستوں کو الاسکا یا پھر گرین لینڈ منتقل کرنا چاہیئے۔ سعودی مشاورتی کونسل کے اس رکن نے مزید کہا ہے کہ صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو جان لینا چاہیئے کہ وہ سعودی قیادت اور حکومت کو پروپیگنڈے کی چالوں اور جھوٹے سیاسی دباؤ سے کسی سازش میں نہیں پھنسا سکتے۔
نیتن یاہو کے اس بیان نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز دی ہے۔ اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔؟ اس پر نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بعید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور حکومت کی طرح ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینی ریاست کا قیام کہ فلسطینی ریاست ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کے کے پہلے دور ہے کہ سعودی کے بارے میں مطالبہ کیا کے تعلقات حکومت کے کے ساتھ ٹرمپ کے خطرہ ہے کیا ہے کے لیے تیل کی
پڑھیں:
ٹرمپ کے عالمی فوجداری عدالت کے خلاف ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط‘اسرائیل کا خیرمقدم
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 فروری ۔2025 )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کرنے پر عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے میں آئی سی سی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے کے ناجائز اور بے بنیاد اقدامات میں ملوث ہے صدارتی حکم نامے کے مطابق آئی سی سی نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیردفاع یوو گیلنٹ کے خلاف”بے بنیاد وارنٹ گرفتاری“جاری کر کے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے.(جاری ہے)
ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کے پاس امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار نہیں ہے جب کہ عدالت نے ایسا کر کے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل آئی سی سی کے نہ تو رکن ہیں اور نہ ہی اسے تسلیم کرتے ہیں آئی سی سی نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پر وزیراعظم نیتن یاہو اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع یو گیلنٹ سمیت فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے لیڈر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے. اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر پابندی سے متعلق صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے نیتن یاہو کے دفترسے جاری کیے گئے بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ حکم نامہ اسرائیل کو یہود مخالف بدعنوان عدالت سے بچائے گا نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ عالمی فوجداری عدالت کے پاس ہمارے خلاف فیصلے دینے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے. آئی سی سی کے خلاف جاری امریکی صدارتی حکم نامے کے مطابق امریکہ آئی سی سی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ذمے داروں پر ٹھوس پابندیاں عائد کرے گا ان پابندیوں میں آئی سی سی کے عہدیداروں، ملازمین اور ان کے رشتہ داروں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی سمیت ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کو منجمد کرنا شامل ہو سکتا ہے عالمی فوجداری عدالت نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے.