پاکستان ریلویز مزید 7 ٹرینیں نجی شعبے کو آؤٹ سورس کرے گا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
پاکستان ریلویز نے 7 مزید مسافر ٹرینیں نجی شعبے کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹرینوں کی نیلامی کے لیے بولیاں 25 فروری تک وصول کی جائیں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریلویز نے 7 ٹرینیں نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں ہزارہ ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، فرید ایکسپریس، بہاؤالدین زکریا ایکسپریس، سکھر ایکسپریس، راولپنڈی ایکسپریس اور موہنجو داڑو ایکسپریس شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان ریلویز نے نئی ٹکٹ ریفنڈ پالیسی متعارف کرادی
ریلویز حکام نے وضاحت دی ہے کہ ان ٹرینوں کو نجی ملکیت میں نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا تاکہ مسافروں کے لیے سہولتوں میں بہتری آئے گی اور ریونیو میں اضافہ ہوگا۔
حال ہی میں پاکستان ریلویز نے 5 فیصد کرایوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا، جو 5 فروری سے نافذ ہوا۔ ٹرین کے کرایے میں اضافہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کیا گیا، اور یہ فیصلہ تمام کلاسوں کے ٹرین ٹکٹس پر لاگو ہوگا۔ اضافہ شدہ کرایے سلیون سروسز اور آؤٹ سورس کی جانے والی ٹرینوں پر بھی لاگو ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ریلویز فرید ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس،.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ریلویز فرید ایکسپریس کراچی ایکسپریس ہزارہ ایکسپریس پاکستان ریلویز ریلویز نے
پڑھیں:
سڑکوں اور ٹرینوں کے انفرااسٹرکچر کا فقدان، سامان کی ہینڈلنگ، منتقلی اور رابطہ کاری کے مسائلKPTاور پورٹ قاسم کیلئے بڑے چیلنجز
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) کراچی پورٹ ٹرسٹ کیلئے سڑکوں کے مضبوط جال اور ٹرینوں کے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ایک بڑا چیلنج ہے۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق، کراچی پورٹ میں کارگو ایکسپریس وے کی عدم موجودگی سے مال برداری کا دورانیہ محدود ہو کر صرف 6؍ سے 7؍ گھنٹے رہ جاتا ہے، جبکہ پرانا ریلوے انفراسٹرکچر بھی کارگو ہینڈلنگ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بندرگاہ کے مرکزی چینل کی گہرائی 16؍ میٹر ہے، لیکن اس گہرائی کو برقرار رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے زیادہ مال لانے والے بحری جہاز بھی یہاں لنگر انداز نہیں ہو پاتے۔ پورٹ قاسم (پی کیو اے) پر مرکزی چینل کی گہرائی 15؍ میٹر ہے، کیچڑ (سلٹ) جمع ہونے کی وجہ سے یہ گہرائی کم ہو چکی ہے۔ جبکہ قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل (کیو آئی سی ٹی) پر حد سے زیادہ اضافی چارجز کی وجہ سے درآمد کنندگان مہنگے متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً، کیو آئی سی ٹی پر عام 20؍ فٹ لمبے کنٹینر (8؍ فٹ چوڑا اور ساڑھے 8؍ فٹ اونچا) فی ٹوئنٹی ایکوویلنٹ یونٹ (ٹی ای یو) کے اوسط اخراجات کراچی پورٹ کے پانچ ہزار روپے کے مقابلے میں 14؍ ہزار روپے ہے۔ یہ صورتحال کیو آئی سی ٹی کو کم متبادل بناتی ہے۔ ذرائع کے مطابق، میری ٹائم سیکٹر میں اصلاحات لانے کیلئے قائم ٹاسک فورس نے کراچی پورٹ کی بذریعہ سڑکیں رابطہ کاری بڑھانے کیلئے ایک ایلی ویٹیڈ ایکسپریس وے تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ بڑے بحری جہازوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے مین چینل کی گہرائی میں اضافے کا کام تیزی سے کرنے کی منظوری بھی حاصل کی جائے گی۔ بیکار ریلوے انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور چینل کی گہرائی کو برقرار رکھنے کیلئے باقاعدگی کے ساتھ ڈریجنگ کی تجویز بھی منصوبے میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے درمیان ایک مخصوص راہداری کا قیام بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ذرائع، پاکستان کی ٹرانس شپمنٹ کی صلاحیت کو بھی استعمال میں نہیں لایا گیا۔ دبئی کے جبل علی پورٹ کے 14؍ ملین ٹی ای یو کے مقابلے میں کے پی ٹی صرف 0.017؍ ملین ٹی ای یو ہینڈل کر پاتا ہے۔ اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ اگرچہ انٹرنیشنل بیسٹ پریکٹس (عالمی سطح پر قابل قبول بہترین اقدامات) کے تحت 48؍ سے 72؍ گھنٹوں میں کلیئرنس ہونا چاہئے لیکن پاکستان کی پورٹس کو کلیئرنس میں 14؍ دن لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تاجر حضرات زیادہ موثر طریقوں کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس تاخیر کے نتیجے میں فریٹ چارجز بڑھ جاتے ہیں اور طویل پورٹ کلیئرنس کی وجہ سے یہ 100؍ ڈالر یومیہ وصول کیے جاتے ہیں۔ ہاتھ سے کی جانے والی متروک پراسیسنگ (مینوئل پراسیسنگ)، سست روی کا شکار کلیئرنس طریقہ کار اور بھاری فریٹ چارجز نے پاکستانی پورٹس کو غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ کے پی ٹی اور سائوتھ ایشین پاکستان ٹرمینل معاہدے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ ٹرانس شپمنٹ کے ذریعے 60؍ فیصد ٹرمینل بزنس کا ضامن ہے۔ ٹرانس شپمنٹ کے ذریعے کارگو کو اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ایک بحری جہاز سے دوسرے پر منتقل کیا جاتا ہے۔ آف ڈاک ٹرمینلز (او ڈی ٹی) کو بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ او ڈی ٹیز کنٹینرز کی کلیئرنس اور انسپکشن کیلئے جگہ فراہم کرتے ہیں تاکہ پورٹس پر جگہ کی کمی سے نمٹا جا سکے۔ او ڈی ٹیز کے دیگر چیلنجز میں کمزور ریگولیٹری نظر داری، کنٹینرز کی مناسب انسپکشن نہ ہونا اور عالمی سطح پر لیزڈ پورٹس کا استعمال شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے اسمگلنگ ہوتی ہے، اشیاء کے حوالے سے غلط بیانی (مس ڈکلیریشن) ہوتی ہے اور ساتھ ہی قیمتیں کم ظاہر (انڈر انوائسنگ) کی جاتی ہیں جس سے ملک کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ٹاسک فورس نے تاخیر کو کم کرنے کیلئے کسٹم اور کلیئرنس کے عمل کو ہموار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کنٹینر کی 100؍ فیصد انسپکشن کیلئے اعلیٰ درجے کے اسکینرز اور الیکٹرانک سیلیں لگانے، شفافیت کیلئے پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) کے ساتھ او ڈی ٹیز کا انضمام؛ اور مہنگی بین الاقوامی بندرگاہوں پر انحصار کم کرنے کیلئے مقامی او ڈی ٹیز کو فروغ دینے کی تجویز دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عالمی جہاز رانی کمپنی میرسک پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر میں 2؍ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہے جس میں مربوط لاجسٹکس ہب، گہرے پانی کے کنٹینر ٹرمینلز اور انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے مطابق جہازوں کی ری سائیکلنگ کی سہولیات شامل ہیں۔ مارچ 2025ء میں متوقع پاکستان کسٹمز گیپ اسٹڈی میں امید ہے کہ پراسیسز میں بہتری کیلئے سفارشات پیش کی جائیں گی۔