حیدرآباد ،دریائے سندھ المنظر کے مقام پر پانی نہ ہونے کے باعث دریا کے کنارے ماہی گیروں کی کشتیاں کھڑی ہوئی ہیں.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

چولستان کے لیے نہری منصوبہ مستحسن اقدام

چولستان ملک کا ایک پسماندہ ترین خطہ ہے اس کے پسماندہ ہونے کی وجہ یہاں کا وسیع ریگستان ہے جو دس ہزار اسکوائر کلو میٹر علاقے میں پھیلا ہوا ہے یہاں سوا لاکھ افراد سکونت پذیر ہیں جن کی زندگیوں کا دار و مدار گلہ بانی پر ہے، اگر اس علاقے کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک وقت میں نہایت سرسبز و شاداب علاقہ تھا اور یہاں کے لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے اس وقت اس علاقے کو ہاکڑا نامی ندی سیراب کرتی تھی یہاں ہر قسم کی کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد اس خطے کو کاشت کاری کے قابل بنانے کے لیے کوئی نہر نہیں نکالی جا سکی حالانکہ اس علاقے کے عوام کا یہ حق ہے کہ حکومت ان کی غربت اور مفلسی کو دور کرنے کے لیے یہاں کی زمین کو پانی مہیا کرکے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح انھیں جینے کا حق دے۔ چولستان سے متصل بھارتی صوبہ راجستھان ہے وہ بھی پورا ریگستانی علاقہ ہے مگر اس وقت سرسبز و شاداب بن چکا ہے چونکہ بھارتی حکومت نے اس کے ایک بڑے علاقے کے لیے پانی کا انتظام کر دیا ہے۔ یہاں کے لیے دریائے ستلج سے ایک نہر نکالی گئی ہے۔

اب یہاں مختلف فصلیں پیدا کی جا رہی ہیں، یہاں کے عوام جو صدیوں سے محرومی کا شکار تھے اب خوش حال ہیں۔ جب راجستھان جیسا ریگستان سرسبز و شاداب ہو سکتا ہے تو ہمارے چولستان کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے کو پانی سے سیراب کرنے کے لیے ماضی کی حکومتوں نے یہاں نہری پانی مہیا کرنے کے لیے ضرور سوچا ہوگا، مگر یہاں تک نہر نکالنے کے منصوبے پر عمل نہ کرسکے۔

اب موجودہ حکومت نے اس علاقے کے عوام کی کسمپرسی کا خیال کرتے ہوئے اسے ایک نہر کے ذریعے سیراب کرنے کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے پیش رفت کی ہے۔ یہ ایک مستحسن قدم ہے جس کی ہم سب پاکستانیوں کو دل سے قدر کرنی چاہیے کیونکہ ملک میں بسنے والے تمام لوگ ہمارے بھائی ہیں اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ یہ منصوبہ جو اس وقت تنقید کی زد میں ہے اگر مکمل ہوتا ہے تو یقینا ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا ۔

 افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ اپنے صوبے کے علاوہ کسی دوسرے صوبے کو محبت کی نظر سے دیکھنے کے قائل نہیں ہیں حالانکہ اس منصوبے کو حکومت نے ضرور سوچ سمجھ کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا کہ کسی دوسرے صوبے کی پانی کے سلسلے میں حق تلفی نہ ہو۔ اگر ماضی کو دیکھیں تو جب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ شروع کیا جا رہا تھا تو سندھ کی کچھ سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیوں نے کھل کر مخالفت کی تھی۔

یہ مخالفت اتنی طویل اور سخت تھی کہ دوسرے صوبے کے لوگ بھی سہم کر رہ گئے تھے۔ پھر اس پانی اور بجلی کے اہم منصوبے کی صرف مخالفت ہی نہیں کی گئی تھی بلکہ دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اگر ڈیم کسی طرح تعمیر ہو گیا تو اسے بم مار کر تباہ کر دیا جائے گا۔ اب تو سندھ کے بعض سیاسی رہنما بھی اس منصوبے کو ترک کرنے کو ایک بڑی غلطی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت صرف سیاسی بنیاد پر کی گئی تھی۔ دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں خشکی کا حصہ بڑھ رہا ہے جس سے ناقابل زراعت علاقے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کالا باغ ڈیم منصوبے کی جب پیپلز پارٹی نے بھی مخالفت شروع کی تو پھر پرویز مشرف کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا کیونکہ اس سے اسے اپنی حکومت کے لیے خطرہ نظر آنے لگا تھا۔ اس منصوبے کے لیے تمام ضروری سامان خرید لیا گیا تھا اور وہ اب بھی ڈیم کی جگہ پڑا زنگ کھا رہا ہے۔ سندھ کے چند لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے ہی کالا باغ جیسا اہم پانی اور بجلی بنانے کا منصوبہ ترک کرنا پڑ۔ چولستان کو نہری پانی مہیا کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے چولستان کے لیے نہری پانی مہیا کرنے کے منصوبے پر سندھ کی جانب سے جو اعتراض کیا جا رہا ہے تو ان کا استدلال ہے کہ انھیں پہلے ہی 1991 میں ہوئے پانی کے معاہدے کے تحت پورا پانی نہیں مل رہا ہے اور اب چولستان کے لیے نہریں نکالنے سے ان کے پانی میں مزید کمی آئے گی، تو اس مسئلے پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ پانی کی تقسیم کے سلسلے میں کسی بھی صوبے کو شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔

سب سے خوش کن بات یہ ہے کہ چولستان نہر کے منصوبے پر صدر پاکستان آصف زرداری نے دستخط کرکے ملک کے ایک خطے کو اس کے پانی کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے صدر زرداری کے دستخط کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر سندھ کے بعض قوم پرست رہنما جو پہلے کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لیے بھی پیش پیش تھے اب وہ پھر اس نئے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آصف زرداری سندھ کے سپوت ہیں مگر انھوں نے سندھ کے حقوق کو نظرانداز کر دیا ہے۔

یہ موقف کسی طرح بھی درست نہیں ہے اس لیے کہ صدر زرداری بحیثیت صدر پاکستان ملک کے تمام صوبوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں پھر وہ چولستان کے عوام کی مشکلات سے پہلے پوری طرح واقف ہیں۔ بہرحال سندھ کی شکایت کو دور کرنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس بلا کر اس مسئلے پر ضرور غور و خوض کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ شکایت بھی کی جا رہی ہے کہ سی سی آئی کا اجلاس بلائے بغیر ہی چولستان نہر کے منصوبے کو شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پھر اس مسئلے کا ہی نہیں بلکہ ملک کی پانی کی قلت کے مسئلے کا مستقل حل نکالنے کے لیے سیلابی پانی کو سمندر میں ضایع ہونے کے بجائے اسے ذخیرہ کرکے فائدہ اٹھایا جائے۔

ہمارے ہاں جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں دریاؤں میں خطرناک طغیانی کا منظر ہوتا ہے جس سے بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دو سال قبل دریائے سندھ میں خطرناک طغیانی سے ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے تھے جس سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ وہ بے سر و سامانی کے عالم میں آج بھی مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکومت ان کو پھر سے بسانے کے لیے دوست ممالک سے امداد طلب کر رہی ہے۔ ان کو بسانے کے بعد طغیانی کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں تو اس سے تباہی سے بھی بچا جاسکتا ہے اور پانی کی قلت کے مسئلے کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد ،دریائے سندھ پر خشک سالی کا منظر دوردور تک نظرآرہاہے
  • شرمیلا فاروقی نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھادیا
  • کراچی: گھر میں آتشزدگی سے ماں جاں بحق، دو بچے زخمی
  • شکار پور: جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکرٹری محمد یوسف 16 فروری کو ڈاکو راج کے خلاف عوامی دھرنے کے مقام کا دورہ کر رہے ہیں
  • آئیے جاگ جاتے ہیں
  • چولستان کے لیے نہری منصوبہ مستحسن اقدام
  • دریائے سندھ دنیا کا دوسرا آلودہ ترین دریا ہے‘سینیٹر شیری رحمن
  • روندو، 45 سالہ شخص نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی
  • حیدرآباد واقعے پر آئی جی سندھ نے چیف سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ دیا