ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت )وفاقی حکومت اور وزیر توانائی کی ہدایات پر واپڈا حکام نے ٹنڈو جام میں بجلی چوری اور بقایا بلوں کی وصولی کے لیے آپریشن ایکسیئن فاروق تنیو ایس ڈی او انیس الرحمٰن تھیہم واپڈا عملے، پاکستان رینجرز اور پولیس کے ہمراہ شہر کے مختلف علاقوں، جن میں میر کالونی، ریلوے پھاٹک، المدینہ کالونی اور دیگر شامل ہیں، میں چھاپے مارے کارروائی کے دوران بجلی چوری میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، متعدد غیر قانونی کنکشن منقطع کر دیے گئے، جبکہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر بھی کارروائی عمل میں لائی گئی کئی افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ صرف ایک دن میں لاکھوں روپے بقایا بلوں کی مد میں وصول کیے گئے۔ واپڈا حکام کا کہنا تھا کہ بجلی چوری ایک قومی جرم ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رہیں گی۔ بجلی چوروں کو سختی سے خبردار کیا گیا کہ وہ فوری طور پر غیر قانونی کنکشن ختم کریں اور بجلی کے استعمال کے لیے قانونی طریقہ اپنائیں، بصورت دیگر ان کے خلاف مزید سخت قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔ شہریوں سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ بجلی کے بل وقت پر ادا کریں اور غیر قانونی کنکشن سے گریز کریں تاکہ بجلی کا نظام بہتر ہوسکے اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان علاقوں میں کیا کائے گا جہاں پر بجلی کی چوری نہیں ہو گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بجلی چوری کہ بجلی بجلی کے بلوں کی

پڑھیں:

ریگولر بینچز میں آئینی و قانونی تشریح کیسز کی سماعت آئین و ضابطہ کی خلاف ورزی ہے، جسٹس مظہر

ریگولر بینچز میں آئینی و قانونی تشریح کیسز کی سماعت آئین و ضابطہ کی خلاف ورزی ہے، جسٹس مظہر WhatsAppFacebookTwitter 0 9 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد( سب نیوز)
سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سینیئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریگولر بینچوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملات میں آئین کے آرٹیکل 191-A کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں رہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سپریم کورٹ بینچز کے دائرہ اختیار پر لیے گئے نوٹس کے معاملے پر آئینی بینچ کی جانب سے جسٹس منصور شاہ کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے 7رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے کے حق میں 20 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کر دیا۔

اضافی نوٹ میں جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا ہے کہ آئینی بینچ کسی ٹیکس کیس میں آئین میں ہونے والی ترامیم کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ریگولر بینچ کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ آئینی ترامیم یا کسی قانون کو چیلنج کرنے کے معاملے کا فیصلہ کر سکے۔ آئینی بینچ کے علاوہ کسی کی جانب سے یہ دائرہ اختیار استعمال کرنا آئین و ضابطے کی خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس علی مظہر نے کہا کہ میرے خیال میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی باقاعدہ بینچ، واضح اور غیر مبہم آئینی دفعات کے باوجود حد سے زیادہ دائرہ اختیار استعمال کرتا ہے یا ٹیکس کے معاملے میں صرف جواب دہندہ کے وکیل کی دلیل کی بنیاد پر اپنی سمجھ کے بغیر مبینہ تنازع کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ 191-A کے خلاف اور یہ قانونی چارہ جوئی کے مترادف ہوگا۔

سینیئر جج نے لکھا کہ دائر اختیار سے تجاوز یا کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے کے بجائے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کمیٹی کو بھیجنا بہتر ہوگا۔ ججز نے آئین و قانون کے تحفظ اور پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ایک آئینی جج کا کردار ایک بادشاہ سے مختلف ہے۔ بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق احکامات جاری کرسکتا ہے جبکہ ایک آئینی جج کو اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیئے کہ انہیں آئین کے تحت تشریح اور نفاذ کا کام سونپا گیا ہے اور وہ آئین و قانون پر عمل کے پابند ہیں۔

جسٹس علی مظہر نے لکھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 191-A میں سپریم کورٹ کے آئینی اور ریگولر بینچز کے دائرہ اختیار کا واضح طور پر تعین کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ آئینی بینچ نے درست طور پر 28 جنوری 2025 کو ریگولر بینچ کی جانب سے 13جنوری اور 16 جنوری 2025 کو جاری احکامات کو دائرہ اختیار نہ ہونے پر واپس لیا جس کے بعد ان احکامات کے نتیجہ میں تعمیر کیا گیا ڈھانچہ گر گیا لہٰذا کوئی بھی کی گئی کارروائی، جاری کیے گئے احکامات اور اٹھائے گئے اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔

جسٹس مظہر کا نوٹ میں کہنا تھا کہ معاملہ کھلی کتاب کی طرح ہے اور اس پر مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں، یہ قانون کا اصول ہے کہ اگر عدالت کا دائرہ اختیار نہیں تو اس کی جانب سے دائرہ اختیار کے بغیر دیا گیا فیصلہ کالعدم تصور ہوگا، حیران ہوں اور سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح مدعا علیہ کے وکیل کے دلائل سے ریگولر بینچ کو معاونت ملی کہ وہ آئین میں دیئے گئے واضح دائرہ اختیار سے فرار اختیار کرے، آئینی ترمیم وجود رکھتی ہے جب تک کہ پارلیمنٹ انہیں ختم نہ کرے یا سپریم کورٹ انہیں کالعدم قرار نہ دے۔

سینیئر جج نے یہ تجویز دی کہ آئینی اور ریگولر بینچز کے سامنے کیسز مقرر کرنے کے حوالے سے مستقبل میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے کیس مینجمنٹ سسٹم وضع کیا جائے۔

انہوں نے لکھا کہ وہ آئینی بینچ کی جانب سے متفقہ طور پر ریگولر بینچ کی جانب سے احکامات کو کالعدم قراردینے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ کوئی زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی موجودہ آئینی ترامیم سے آنکھیں چرا سکتا ہے، نہ ہی بہرہ بن سکتا ہے، اس اضافی نوٹ کو موجودہ تنازع کے تناظر میں ہی پڑھنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف کا آٹھ فروری الیکشن چوری کے خلاف اور عمران خان کے ساتھ یکجہتی کے لئے پیرس میں بڑا اجتماع
  • خیبرپختونخوا کے ملازمین کی برطرفی کا قانون گورنر کنڈی کے تحفظات کے ساتھ منظور
  • ٹنڈوجام:بجلی چوروں کے بقایاجات کی وصولی کے لیے آپریشن پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں کیا جارہا ہے
  • ٹنڈوجام ،اساتذہ کیلیے دوروزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد
  • سعودی عرب،ایک ہفتے میں 21 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکین وطن گرفتار
  • ریگولر بینچز میں آئینی و قانونی تشریح کیسز کی سماعت آئین و ضابطہ کی خلاف ورزی ہے، جسٹس مظہر
  • راولپنڈی میں آپریشن،غیر قانونی 205 افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا
  • آئینی بینچ : فیول ایڈجسٹمنٹ کیخلاف جماعت اسلامی کی درخواست سماعت کیلیے منظور
  • اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، خلاف ورزی پر سخت کارروائی کا اعلان