Jasarat News:
2025-02-11@00:56:30 GMT

تاجروں کی شکایات پر فوری توجہ دیں گے ،سلیم میمن

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے لطیف آباد کے تاجروں کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات پر فوری توجہ دیتے ہوئے اُس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ تاجروں کی شکایت ہے کہ لطیف آباد میں ایچ ایم سی (حیدرآباد میونسپل کارپوریشن) اور ٹی ایم سی (ٹاؤن میونسپل کارپوریشن) کے نمائندے ایک ہی سائن بورڈ کے لیے دونوں محکموں کی جانب سے ٹیکس وصول کر رہے ہیں، جس سے تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ اِس مسئلے کے حل کے لیے چیمبر کے پلیٹ فارم سے لوکل گورنمنٹ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سید خالد حیدر شاہ کو بھی خط لکھا گیا ہے، جس میں اُن سے درخواست کی گئی ہے کہ عدالت کے فیصلے تک دونوں محکموں کو تاجروں کو ہراساں کرنے سے روکا جائے اور اِس تنازعے کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ اِس کے علاوہ حل ہونے کے بعد ٹیکس کلیکشن کے تمام قواعد و ضوابط اور ٹیکس نرخ پہلے حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے ساتھ شیئر کئے جائیں تاکہ اُن پر تاجروں کو اعتماد میں لیا جائے اور انتظامیہ کو ٹیکس کلیکشن میں کسی بھی دُشواری کا سامنا نہ ہو۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے اِس معاملے پر تشویش کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہے، لیکن اُس کے باوجود تاجروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں محکموں کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے تاجروں کو بے جا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا فوری حل نکالنا ضروری ہے۔ صدر چیمبر نے میئر حیدرآباد، کمشنر حیدرآباد، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد اور دیگر متعلقہ حکام سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اِس معاملے پر فوری توجہ دیں اور دونوں محکموں کے نمائندوں کو ایک میز پر بٹھا کر اِس مسئلے کا حل نکالیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ جب تک عدالت اُس معاملے کا فیصلہ نہیں کرتی دونوں محکموں کو تاجروں کو ہراساں کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ چیمبر تاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا اور اِس معاملے کو حل کرنے کے لیے تمام ضروری اِقدامات اُٹھائے جائیں گے۔ صدر چیمبر سلیم میمن نے اِس موقع پر لطیف آباد کے تاجروں کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات کو بھی اُجاگر کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کئی تاجروں نے شکایت کی ہے کہ ایچ ایم سی اور ٹی ایم سی کے نمائندے اُن کے سائن بورڈز کو اُتارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اُن کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں۔ صدر چیمبر نے اِس بات پر زور دیا کہ تاجروں کے ساتھ اِس طرح کا رویہ حکومتی اداروں کے نمائندوں کا ناقابلِ برداشت اور قابلِ مذمت ہے۔ اُنہوں نے تمام متعلقہ حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ اِس معاملے پر فوری توجہ دیں اور تاجروں کو ہراساں کرنے کے بجائے اِس مسئلے کو قانونی اور پُر اَمن طریقے سے حل کیا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تاجروں کو ہراساں پر فوری توجہ ا س معاملے صدر چیمبر تاجروں کی سلیم میمن ا نہوں نے ا س مسئلے ایم سی کے لیے

پڑھیں:

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کو تقریبا تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے۔ روسی فوج یوکرین میں کئی محاذوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یوکرین کو جنگی ہتھیاروں اور افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر یوکرین کی جنگی امداد روکی جاسکتی ہے۔

روس اور مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی صدر اپنا ہدف کے حصول کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کر دیں۔

ٹرمپ نے اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین تنازعہ 24 گھنٹوں کے اندر حل کر سکتے ہیں۔ بعد تاہم انہوں نے ان چوبیس گھنٹوں کو چھ ماہ میں تبدیل بھی کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کریملن کے ساتھ اس معاملے پر 'انتہائی سنجیدہ‘ گفتگو کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور روسی صدر جلد ہی اس جنگ کے خاتمے کے لیے 'اہم قدم‘ اٹھائیں گے۔ اس جنگ میں روس کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روس کو فوجی اموات کے علاوہ مغربی پابندیوں اور معیشت میں گراوٹ جیسے معاملات کا سامنا ہے

لیکن بہرحال روسی معیشت مکمل زبوں حالی کا شکار نہیں ہوئی۔ پوٹن نے اس دوران تمام مخالف آوازوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا اور اسی لیے انہیں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ملکی سطح پر کسی بھرپور دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

یوکرین سے متعلق بات چیت، یوکرین کے بغیر؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن کییف کو معاملات سے باہر رکھ کر ٹرمپ کے ساتھ بہ راہ راست بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا، ”ہم کسی کو یوکرین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنے دے سکتے ہیں،" انہوں نے کہا کہ

روس یوکرین کی آزادی اور خودمختاری تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی امن ڈیل دیگر آمرانہ سوچ رکھنے والے رہنماؤں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرے گی۔

سفارتی حلقے کیا سوچتے ہیں؟

2016 سے 2019 تک امریکہ میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈروچ کے مطابق، ”ٹرمپ اپنے امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے خواہاں ہیں تاہم پوٹن یوکرین کو اپنی 'آبائی زمین‘ قرار دیتے ہیں اور وہ اتنی آسانی سے یہ علاقے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

نیٹو کے سابق ترجمان اوانا لنجکو نے کہا کہ ماسکو کے حق میں ہونے والا معاہدہ امریکہ کی کمزور پالیسی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ فن لینڈ کے سابق صدر سولی نینسٹو نے کہا، ٹرمپ اور پوٹن میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ پوٹن ایک منظم مفکر ہیں جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ٹرمپ ایک کاروباری سوچ کے حامل انسان ہیں جن کے فیصلے فوری اور جلدبازی کے ہوتے ہیں۔

شخصیتوں میں اختلاف اس معاملے پر بھی تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ اس جنگ کا فوری حل چاہتے ہیں جبکہ روسی صدر اس پر ابھی راضی دکھائی نہیں دیتے۔ یوکرینی صدر کے مطابق پوٹن ابھی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اس حوالے سے ہر پیش قدمی کو سبوتاژ کر دیں گے۔

جنیوا میں سابق روسی سفارتکار، بورس بونڈاریف نے کہا، ”ٹرمپ بلآخر اس معاملے سے اکتا جائیں گے اور ان کی توجہ کسی اور مسئلے پر مرکوز ہو جائے گی اور اس بات کا اندازہ پوٹن کو بخوبی ہے۔

"

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک روسی فوجی اور معاشی ماہر رچرڈ کونولی نے کہا کہ ٹرمپ نے روس کو مزید ٹیکس، پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کٹوتی کی دھمکی دی ہے، لیکن معاشی طور پر کمزور کرنا کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں۔ کیونکہ کے روس کو پہلے ہی کئی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

ٹرمپ کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اس بات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تمام مغربی پابندیاں ختم کر سکتے ہیں۔

وہ نہ تو یورپ کو روسی توانائی کی درآمد کو دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پوٹن کے لیے اپنے جنگی جرائم کی گرفتاری کے وارنٹ کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوپیک الائنس اور سعودی عرب پوٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کرے۔

دوسری جانب کریملن اس بات کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ ماسکو حکومت کے مطابق یہ جنگ روسی سلامتی کے بارے میں ہے، تیل کی قیمتوں کے بارے میں نہیں۔ روس کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس سے امریکی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کے اتحادی اکثر ان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پوٹن پر یہ خوف طاری نہیں ہوا تو؟

متعلقہ مضامین

  • ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ محکمہ اطلاعات سندھ سلیم خان کا ریٹائرمنٹ پر افسران اور ملازمین کے ساتھ گروپ فوٹو
  • شہبازشریف صاحب! سینما انڈسٹری پر بھی توجہ دیں
  • 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس پیر کو ہوگا
  • سعید غنی کا کامران ٹیسوری کو پارٹی کے اندر کی مخالفت پر توجہ دینے کا مشورہ
  • پولیس ،وکلاءتنازع کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے،سلیم میمن
  • روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی
  • صومالیہ سے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں: گورنر پنجاب سلیم حیدر
  • کراچی: تاجروں کی شکایات کے ازالے کیلیے25 رکنی رابطہ کمیٹی تشکیل
  • سپریم کورٹ: 100 روز میں 8174 مقدمات نمٹائے، جوڈیشل کونسل، شکایت پر 5 ججز سے وضاحت طلب