شہید کشمیری مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کیلئے عالمی عدالت جانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
برسلز/مظفر آباد (صباح نیوز) شہید کشمیر مقبول بٹ اور محمد افضل گرو کی یاد میں (آج) پیر کو برسلز میں کشمیرکونسل ای یو کے تحت ای یو سیکرٹریٹ میں شام 7 بجے کانفرنس ہوگی۔ چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ کانفرنس کا بنیادی مقصد مقبول بٹ اور افضل گورو کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے‘ مقبول بٹ اور افضل گورو کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے کانفرنس میں کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور بے مثال خدمات کو سراہا جائے گا‘ ہم مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کے لیے شہدا کی قربانیوں کو دنیا میں اجاگر کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم مقبول بٹ اور افضل گورو کے اجساد خاکی کو بھارت سے حاصل کرنے کے لیے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کریں گے۔ یاد رہے کہ بھارت نے مقبول بٹ کو11 فروری کو اور افضل گرو کو9 فروری کو سزائے موت دے کر ان کے اجساد خاکی کو بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہی ان کے خاندان کی مرضی خلاف دفن کردیا تھا اور اب تک وہ اجساد ورثا کے حوالے کرنے سے انکاری ہے۔ علی رضا سید نے کہا کہ ہم بہت جلد انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جائیں گے تاکہ اس عالمی عدالت کے ذریعے بھارت سے ان عظیم شہدا کی میتوں کو واپس لے سکیں اور ان کی آخری رسومات بڑے اعزازکے ساتھ اور خاندان کی مرضی کے مطابق ادا جاسکیں اور ان کے اپنے وطن کشمیر میں ان کی تدفین ہوسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مقبول بٹ اور افضل گورو کے اجساد کو ان کے ورثا کے حوالے کرنے کے لیے عالمی برادری بھی بھارت پر دبا ڈالے۔ چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے بھارتی جیل میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک، انسانی حقوق کے عظیم علمبردار خرم پرویز اور دیگر کشمیری قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ علی رضا سید نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ علاوہ ازیں حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ شہید افضل گورو بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محمد افضل گورو کے 12ویں یوم شہادت کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ 9فروری 2025شہید افضل گورو بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں‘ کشمیری عوام کی بے مثال قربانیاں اور شہدا کا مقدس لہو ان شا اللہ ضرور رنگ لائے گا اور وطن عزیز آزادی کی نعمتوں سے مالا مال ہوگا ان شا اللہ ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی علاقے کریری سے تعلق رکھنے والی سید مسکان اپنی تعلیمی جدوجہد کے بارے میں کہتی ہیں، ’’پہلے تو مجھے اپنے والدین کو راضی کرنا پڑا کہ میں گھر سے بہت دور نئی دہلی جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ میرے والدین کو نئی دہلی میں لڑکیوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش تھی، کیونکہ وہاں خواتین کے خلاف جرائم کے ارتکاب کی رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
‘‘کشمیر میں موجودہ تعلیمی نظام میں پائے جانے والے مسائل کے بارے میں مسکان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وہاں تعلیمی حوالے سے وسائل بہت محدود ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز اکثر بند رہتی ہیں۔ یہ بھی دو اہم وجوہات ہیں جو کشمیری طلبہ کو تعلیم کے حصول کے لیے وادی سے باہر جانے پر مجبور کرتی ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
سید مسکان بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
مسکان ہی کی طرح کشمیری نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھارت کی مختلف ریاستوں جیسے پنجاب، چندی گڑھ، ہریانہ، اتراکھنڈ اور خاص طور پر نئی دہلی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتی ہے۔ مگر ان یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے کچھ طلبا و طالبات کو خاصی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ پھر داخلہ ہو جانے کے بعد بھی ان نوجوانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
مشکل حالات میں ایسی ہی جدوجہد شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے عاقب نذیر نے بھی کی۔
اعلیٰ تعلیم کی خواہش اور خاندان کی کفالت کی ذمے داری
اپنے تعلیمی خوابوں کی تکمیل کے عمل میں عاقب نذیر کو زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2012 میں ان کے والد کو، جو اب ایک سابقہ سبزی فروش ہیں، دل کا دورہ پڑا جس کے بعد وہ گھر پر ہی رہنے پر مجبور ہو گئے۔
ان حالات میں عاقب نے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنا ایک چھوٹا سا فوڈ بزنس شروع کیا، جو کچھ عرصے تک تو کامیاب رہا لیکن اس دوران وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہے۔عاقب نذیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے تب اپنے اس چھوٹے سے کاروبار سے کچھ پیسے تو کمائے، جن سے ہمارے خاندان کی مالی ضروریات پورا ہو جاتی تھیں۔
لیکن یہ رقم میرے لیے نئی دہلی جا کر تعلیم جاری رکھنے کے لیے تو بالکل بھی کافی نہیں تھی۔‘‘بھارت کا کشمیر سے لداخ تک سُرنگیں تعمیر کرنے کا فیصلہ
اس نوعیت کے اقتصادی اور مالی مسائل کے علاوہ کشمیر میں طالب علموں کو اپنے ارد گرد کے حالات کے سبب بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاﹰ مقامی سطح پر ناقص یا ناپید ٹرانسپورٹ اور عام سڑکوں کی خستہ حالی کے سبب کئی کم عمنر بچے اسکول جانے سے محروم رہتے ہیں۔
پھر کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں یہ بھی عموماﹰ دیکھا جاتا ہے کہ دور دروز علاقوں میں بہت سے بچے اسکول جانے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں۔کم عمری میں اسکولوں میں حصول تعلیم ہی کے سلسلے میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ کئی کشمیری بچے سخت سردی میں روزانہ اسکول جانے کے لیے طویل فاصلے تک پیدل چلنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ مجبوراﹰ اسکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
کشمیری بچوں میں اسکول کی سطح پر ترک تعلیم کا تناسب بھارت میں سب سے زیادہ
بھارت میں سرکاری سطح پر تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سیکنڈری اسکول کی سطح پر اسکول جانا چھوڑ دینے والے طلبا و طالبات کی شرح نہ صرف 13 فیصد سے بھی زیادہ ہے بلکہ یہ تناسب پورے شمالی بھارت میں بھی سب سے زیادہ ہے۔
سرینگرمیں واقع کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو لو بتایا، ’’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول جانا چھوڑ دینے کے واقعات کی وجوہات متعدد اور متنوع ہیں۔
مثلاﹰ کشمیری لڑکیوں کی جب کم عمری میں ہی شادیاں کر دی جاتی ہیں، تو ساتھ ہی ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ترک حصول تعلیم کر کے بس اپنا گھر سنبھال لیں۔ ایسا کشمیر کے بہت سے دیہی علاقوں میں بار بار دیکھنے میں آتا ہے۔‘‘سری نگر یونیورسٹی کے اس اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا، ’’کشمیر میں تشویش ناک صورتحال کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے والدین نے اپنی بیٹیوں کو اسکول نہ بھیجنے کو ترجیح دی۔
‘‘ ان کے مطابق لڑکوں کو اگر اسکول جانا چھوڑنا پڑے، تو اس کی ’’وجہ اکثر ان کے گھرانوں کے مالی مسائل اور آمدنی میں کچھ نہ کچھ اضافے کی خواہش‘‘ ہوتے ہیں۔انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو کشمیر سے آ کر نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کرنے والے عاقب نذیر کے لیے بڑے اطمینان کی بات یہ ہے کہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اب ایک اسکالرشپ بھی مل چکا ہے۔