روئی کی امپورٹ سے کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
کراچی:
مقامی ٹیکسٹائل ملوں کی سستی لاگت پر درآمدی روئی کی خریداری کو ترجیح دینے سے رواں سال روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات ریکارڈ سطح پر پہنچنے، روئی، پھٹی کی قیمتوں میں بڑی نوعیت کی کمی سے کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
کاٹن ایئر 2025-26 کے دوران ملک میں اربوں ڈالر مالیت کی روئی، سوتی دھاگے کے ساتھ خطیر ذرمبادلہ کے عوض خوردنی تیل بھی درآمد ہونے کے امکانات ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کپاس کی کاشت بڑھانے کے بارے میں مہم چلانے سے قبل روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات پرحاصل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرے تاکہ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے اندرون روئی کی خریداری شروع ہونے سے روئی اور پھٹی کے نرخ بہتر ہونے سے کاشت کاروں میں کپاس کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہو سکے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ وفاقی بجٹ 2024-25 میں پالیسی سازوں نے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد کو سیلزٹیکس فری جبکہ اندرون ملک ان کی خریداری پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا۔
بین الاقوامی منڈیوں میں کچھ مدت کے لیے روئی کی قیمتیں پاکستان کی نسبت زائد ہوگئی تھیں لیکن درآمدی روئی و دھاگوں کے وسیع ذخائر کے سبب مقامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی اور پھٹی کی قیمتوں پر کوئی خاص اثر نہ پڑا.
احسان الحق نے بتایا بین الاقوامی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں دوبارہ کمی کے باعث برآمدی نوعیت کی ٹیکسٹائل ملوں نے اندرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری یکسر معطل کرکے ان کی بڑے پیمانے پر درآمدات شروع کر دی ہیں.
جس کے باعث پاکستان میں رواں سال کپاس کی پیداوار ہدف سے 50 فیصد جبکہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد کم یا 55 لاکھ گانٹھ کم ہونے باوجود جننگ فیکٹریوں میں روئی کے اسٹاکس 35 فیصد ہیں اور ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے ان کی خریداری نہ ہونے کے باعث روئی کی قیمتیں گذشتہ ایک ماہ کے دوران ایک ہزار 500 روپے سے 2 ہزار روپے فی من تک گرچکی ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کپاس کی کاشت کی خریداری روئی اور روئی کی
پڑھیں:
فائر بندی ناکام ہوئی تو غزہ میں قحط میں اضافے کا خدشہ، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے غزہ کے دو روزہ دورے کے بعد اتوار کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''میرے خیال میں قحط کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا ہے۔ بھوک کی شدت اب اس سطح پر نہیں، جہاں فائر بندی سے پہلے تھی۔ لیکن اگر فائر بندی ختم ہو جاتی ہے، تو یہی خطرہ جلد واپس آ سکتا ہے۔
‘‘پوری غزہ پٹی میں قحط کا شدید خطرہ، عالمی ادارے کی تنبیہ
انیس جنوری کو شروع ہونے والی فائربندی کے بعد سے روزانہ سینکڑوں ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ پہنچ رہے ہیں۔
ٹام فلیچر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب فائر بندی کے تسلسل سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں اور اس کے زیادہ پیچیدہ دوسرے مرحلے پر بات چیت ہونے والی ہے۔
(جاری ہے)
چھ ہفتے کی فائر بندی کا پہلا مرحلہ اپنے نصف کو پہنچ چکا ہے۔غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی
فائر بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا جو کئی ماہ کی تاخیر اور سکیورٹی خدشات کے بعد ایک نمایاں بہتری ہے۔
فریقین سے معاہدے پر کاربند رہنے کی اپیلاقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کے دفتر کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک 12,600 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔
فلیچر نے حماس اور اسرائیل دونوں پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں جس نے ''بہت سی جانیں بچائی ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا، ''حالات اب بھی بہت خراب ہیں، لوگ اب بھی بھوکے ہیں۔ اگر فائر بندی ختم ہو گئی تو قحط جیسی صورت حال دوبارہ بہت جلد واپس آ جائے گی۔"
اسرائیلی فورسز کا غزہ کی مرکزی راہداری سے مکمل انخلا
بین الاقوامی طور پر قحط کا تعین کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہر 10 ہزار افراد میں سے روزانہ کم از کم دو افراد بھوک سے مر جاتے ہوں۔
موجودہ فائر بندی سے پہلے کئی ماہ تک غذائی تحفظ کے ماہرین، اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر تنظیمیں غزہ میں، خاص طور پر شمالی حصے میں قحط کے خطرے سے خبردار کرتے رہے تھے جو سولہ ماہ کی جنگ کے ابتدائی ہفتوں سے تقریباً باقی حصوں سے کٹ چکا تھا۔ تاہم فائر بندی کے دوران لاکھوں فلسطینی شمالی غزہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غزہ کی بیشتر آبادی بے گھر ہو چکی ہے، فلیچرفلیچر نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل غزہ کی آبادی، جس میں سے زیادہ تر افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کو مزید خوراک اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشے کا اظہار کیا اور اس علاقے میں فوری طور پر مزید خیمے اور پناہ گاہیں فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا، ''ہمیں ہزاروں خیمے فوری طور پر پہنچانا ہوں گے تاکہ جو لوگ واپس آ رہے ہیں وہ سخت موسم کی مار سے بچ سکیں۔‘‘
فلیچر نے غزہ میں تباہ شدہ علاقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا، ''تباہی کے باعث وہاں یہ فرق کرنا مشکل تھا کہ کون سی عمارت اسکول تھی، کون سا ہسپتال تھا، اور کون سا گھر تھا۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے لوگوں کو اپنے گھروں کی باقیات تلاش کرتے اور ملبے میں دبے اپنے پیاروں کی لاشیں نکالتے دیکھا۔ یہاں تک کہ کچھ کتوں کو بھی ملبے میں لاشوں کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے پایا گیا۔
فلیچر کا کہنا تھا، ''یہ کسی ہولناک فلم جیسا منظر ہے۔ یہ ایک بھیانک حقیقت ہے جو بار بار دل توڑ دیتی ہے۔ آپ یہاں میلوں سفر کریں لیکن ہر طرف یہی کچھ نظر آتا ہے۔
‘‘ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراضفلیچر نے تسلیم کیا کہ فلسطینی عوام عالمی برادری کے رویے سے ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا، ''وہاں مایوسی اور غصہ موجود ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ دنیا پر ان کا غصہ کیوں ہے، کیونکہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک مزاحمتی جذبہ بھی دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے، ''ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ہم ان جگہوں پر واپس جائیں گے جہاں ہم نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ہم انہیں دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے پی، اے ایف پی)