سردیوں میں چقندر کا استعمال
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
چقندر کا شمار مفید عناصر سے بھرپور غذاؤں میں ہوتا ہے۔ غذائی ماہرین کے نزدیک موسم سرما کے دوران میں اگر آپ اپنی روزانہ کی خوراک میں اسے شامل کر لیں تو آپ اپنے فیصلے پر نادم ہر گز نہیں ہوں گے۔
چقندر کے اہم فوائد۔ قوت مدافعت میں اضافہ، دل کی صحت میں بہتری، ہاضمے کی بہتری، جگر کے کام میں بہتری، سوزشوں کا خاتمہ، جلد کی صحت کی بہتری۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان میں پانی کا بڑھتا ہوا بحران
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جنھیں رواں برس یعنی 2025 سے پانی کے شدید بحران کا سامنا ہوگا۔ حکومت اور عوام نے مل کر اس بحران کو حل نہ کیا تو اگلے چند سال میں خشک سالی کی وجہ سے پاکستان میں شدید ترین غذائی بحران شروع ہو جائے گا۔
لبنان، افغانستان، شام، ترکی، برکینافاسو، قطر، اسرائیل، قبرص اور کویت بھی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اس وقت پاکستان 50 فیصد سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے۔
پاکستان بڑے خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پانچ براعظموں میں پچاس سے زائد ممالک پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اگر یہ ممالک دریاؤں اور زیر زمین پانی کے ذرایع کے استعمال پر معاہدوں پر متفق نہ ہوئے تو مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر جھگڑے اور جنگیں سر اٹھانے لگیں گے۔
پانی انسانی بقاء اورترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ماہرین نے جنوبی ایشیاء میں بھی پانی کے مسئلے پر جنگیں چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر کے علاوہ پانی کا تنازعہ بھی خاصہ سنجیدہ ہے ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی پانی کا تنازعہ موجود ہے۔ افغانستان بھی بعض ایسے آبی ذخائر بنانے کی کوشش کررہا ہے جس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی میں کمی ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں میٹھے پانی کی کمی کہ کئی عوامل ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں بے تحاشا اضافہ، دیہی آبادی کا شہروں کی طرف تیزی سے منتقل ہونا شامل ہے ۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان دس ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، 1950 میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 5,260 مکعب میٹر تھی، جو 2019 تک کم ہو کر صرف 1,032 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔
ملک کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن ہے، جب کہ عالمی اوسط 220 دن ہے۔ پاکستان میں پانی کا دس فیصد استعمال گھریلو ضروریات کے لیے ہوتا ہے، بیس فیصد صغعتوں کے لیے اور باقی ستر فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔
پانی ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی نظام کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کا آبی نظام پرانا اور غیر مؤثر ہے، جس کے باعث پانی بڑی مقدار میں بخارات، لیکیج اور دیگر وجوہات کی بنا پر ضایع ہو رہا ہے۔پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کے مجموعی پانی کا 90 فیصد سے زائد استعمال کرتا ہے، لیکن غیر مؤثر آبپاشی کے طریقے اور پانی کے زیادہ استعمال والے فصلوں کی کاشت بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
پانی کی قلت کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی آ رہی ہے اور خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے ملک غذائی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پانی کا بحران معیشت پر بھی گہرا اثر ڈال رہا ہے، زرعی شعبہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 20 فیصد سے زیادہ ہے۔اس کے علاوہ سماجی بدامنی اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں، جو سماجی عدم استحکام کو جنم دے سکتے ہیں۔
پاکستان کو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ جدید آبپاشی نظام، جیسے کہ ڈرپ اریگیشن اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے والے طریقے متعارف کرا کر پانی کے ضیاع کو کم کرنا ہوگا۔ نئے ڈیم اور ذخائر تعمیر کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔
زرعی شعبے میں ایسی تکنیکس کو فروغ دینا ہوگا جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دے سکیں۔ پاکستان آج بھی دستیاب پانی کا بڑا حصہ سمندر میں گرا کر ضایع کر دیتا ہے، 60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ چھوٹے بڑے ڈیمز ترجیحاً تعمیر کیے جائیں اور پانی کے کم استعمال اور اس ’’ لیکویڈ گولڈ‘‘ کی حفاظت کا شعور اجاگر کیا جائے۔
زرعی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں، راجباہوں کی باقاعدگی کے ساتھ بھل صفائی کی جائے، روز مرہ کے گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرنے کا کلچر اختیار کیا جائے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب پٹرول ڈیزل نہیں تھا تب بھی انسانی زندگی موجود تھی، پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔
پاکستان میں پانی کا بحران گھڑی کی ٹک ٹک کرتا ہوا اگے بڑھ رہا ہے، اگر اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں ملک کو شدید ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے بروقت اور مؤثر حکمت عملی اپنا کر ہی ہم ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔