ایک شخص رات کی تاریکی میں قبل از فجر دریا کنارے بیٹھا تھا کہ کنکریوں سے معمور اک زنبیل اس کے ہاتھ لگی، اس نے ہاتھ بڑھا کر زنبیل سے کنکری لی اور دریا میں پانی کی طرف اچھال دی، جسکے دریا میں گرنے سے پانی سے پیدا ہونے والی آواز اسے سرور آگیں محسوس ہوئی، تو دوبارہ اک اور کنکری پانی کی طرف اچھالی، پھر یونہی اس صدائے آب سے محظوظ ہونے واسطے یکے بعد دیگرے کنکریاں پھینکتا رہا، یہاں تک کہ آفتاب کی شعائیں رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی نمودار ہونے لگیں، اور پاس پڑی زنبیل سے سیاہی چھٹنے لگی، جس میں اب صرف ایک کنکری باقی تھی، اتنے میں بیاضِ شمس نے سوادِ لیل پر غلبہ پا کر چار سو کو منور کیا، اس آدمی نے وہ باقی بچی کنکری کو بغور دیکھا، تو معلوم ہوا کہ وہ کنکری نہیں، بلکہ قیمتی نگینہ ہے، اب اس پر یہ عیاں ہوا کہ جنہیں وہ پتھر سمجھ کر دریا میں پھینکے جا رہا تھا حقیقت میں وہ پتھر نہیں، بلکہ جواہر تھے۔
پھر مارے ندامت کے، کف افسوس ملتے ہوئے بڑبڑانے لگا : ہائے میری کم عقلی، پتھر سمجھ کر نگینوں کو پھینکتا رہا، محض اک آواز سے محظوظ ہونے واسطے، اگر مجھے انکی قیمت کا اندازہ ہوتا تو یہ غلطی کبھی نہ کرتا۔
جانتے ہیں کہ وہ شخص کون ہے؟
وہ شخص میں ہوں، آپ ہیں، ہم سب ہیں؛
جواہر سے بھری وہ زنبیل” زندگی و عمر ہے، جسکی ہر آن و گھڑی ہم بے مقصد، بلا فائدہ ضائع کرتے چلے جا رہے ہیں۔
صدائے آب” (جس میں وہ شخص مدہوش ہوا تھا وہ) دنیا کا فانی مال و متاع اور خواہشات ہیں۔
رات کی تاریکی” غفلت ہے
سورج کا ظہور” وقت أجل حقیقت کا عیاں ہونا ہے، جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
تو چلیے : ابھی سے بیدار ہو جاتے ہیں، جواہر جیسے ان قیمتی لمحات کو یوں بے فائدہ ضائع نہیں کرتے، وگرنہ اس وقت ندامت ہو گی، جب یہ پشیمانی کچھ فائدہ نہ دے گی۔
(اک عربی تحریر کا اُردو ترجمہ)
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایران-امریکہ مذاکرات اسرائیل کے مفاد میں ہونے چاہئیں، صیہونی رژیم
عبرانی اخبار کو مطلع کرتے ہوئے صیہونی سلامتی کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ تہران کے میزائل پروگرام اور غزہ کی حمایت میں استقامتی محاذ و یمن کیجانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں جیسے موضوعات کو مذاکرات میں نظرانداز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ نام ظاہر نہ کرتے ہوئے صیہونی سلامتی کے ایک عہدیدار نے اسرائیل کے مقامی اخبار "یدیعوت آحارانوت" کو بتایا کہ صیہونی رژیم، امریکہ و ایران کے مابین مذاکرات سے نہایت رنجیدہ ہے۔ اسرائیل اس بات پر نالاں ہے کہ ان مذاکرات میں تہران کے میزائل پروگرام اور استقامتی محاذ کے متعلق کوئی بات نہیں ہو رہی۔ اسرائیلی حکام بالخصوص وزیراعظم "نتین یاہو"، ایران-امریکہ مذاکرات کے حوالے سے صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے مؤقف پر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ نتین یاہو نہیں جانتے کہ امریکی صدر درحقیقت کیا چاہتے ہیں؟۔ یہانتک کہ انہیں مذاکرات کی ریڈ لائنز کے متعلق بھی کوئی خبر نہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر ڈونلڈ ٹرامپ کے بیان کے بعد صیہونی سلامتی کے اس عہدیدار نے کہا کہ اگر امریکہ اور ایران کسی ایسے معاہدے پر اتفاق کرتے ہیں جو اسرائیل کے مفاد میں نہ ہو تو یہ ہمارے لئے بہت بُری بات ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے اس بُرے معاہدے کے بعد ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا جا سکے گا۔
اسرائیلی سیکورٹی کے عہدیدار نے یدیعوت آحارانوت کو مزید بتایا کہ تل ابیب کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ صرف اور صرف ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کر رہا ہے۔ جب کہ تہران کے میزائل پروگرام اور غزہ کی حمایت میں استقامتی محاذ و یمن کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں جیسے موضوعات کو مذاکرات میں نظرانداز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ انہوں نے تہران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ایران ایک چالاک اور ہوشیار ملک ہے جس پر اسرائیل کے خدشات جائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام، مذاکرات یا امریکہ و اسرائیل کے فوجی حملے کی صورت میں ہی بند ہو سکتا ہے اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں۔ یاد رہے کہ رواں ہفتے سنیچر کے روز امریکہ اور ایران کے درمیان عمان کی ثالثی سے مسقط میں غیر مستقم مذاکرات کا ایک دور مکمل ہوا۔ انہیں مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے یورپ کے کسی ملک میں شروع ہو گا۔