اب خریداری کیش پر نہیں، صرف ڈیبٹ کارڈز سے ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
کراچی:
عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد جاری ہے، اب خریداری کیش کے بجائے ڈیبٹ کارڈ ز سے ہوگی۔
آئی ایم ایف شرائط کو پورا کرنے اور ریونیو بڑھانے کیلیے ایف بی آر نے ایک اور بڑا فیصلہ کرلیا۔ ملک بھر میں کاروباری شعبے کو دستاویزی شکل دی جائیگی۔
پہلے مرحلے میں بڑی دکانوں پر ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز مشینوں کی تنصیب لازمی قرار دی گئی ہے۔ سافٹ ویئر ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ منسلک ہوگا۔
ٹرانزیکشنز کی سی سی ٹی وی کے ذریعے نگرانی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ فیصلے کا مقصد پاکستان کو ڈیجیٹل پیمنٹس کی طرف لے جانا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فیصلہ آپ کو آج ہی کرنا ہے
پاکستانی عوام اس وقت 2 قسم کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ ایک طرف انتشار کی آواز ہے اور دوسری جانب امن کا پیغام ہے۔ ایک طرف ایک شخص کی انا کا پہاڑ ہے اور دوسری جانب ریاست اور سرکار ہے۔ ان 2 سوچوں میں بہت سے لوگ پس رہے ہیں۔ بہت سا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہ 2 سوچیں کیا ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر آپ کس سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں؟
ایک سال بیت گیا الیکشن کو۔ لیکن فارم 47 والا احتجاج تھم نہیں رہا۔ پنجاب اور وفاق بہت آگے چلا گیا مگر خیبر پختونخوا میں وقت احتجاج در احتجاج پر منجمد ہو چکا ہے۔ وہاں کی قیادت یہ سوچتی ہی نہیں کہ لوگوں کو فلاح کیسے دینی ہے؟ عوام کی خدمت کیسے کرنی ہے؟ ترقی کا پہیہ کیسے چلانا ہے؟ صحت اور تعلیم کی سہولیات کس طرح بہم پہنچانی ہیں؟ انفراسٹرکچر کس طرح بنانا ہے؟
خیبر پختونخوا کی موجودہ قیادت ایک شخص کی ضد پر سارا صوبہ تباہ کرنے پر تلی ہے۔ اس صوبے کے عوام کا مستقبل پاؤں تلے روندنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خود ہی بتائیں کہ گزشتہ ایک سال میں خیبر پختونخوا میں ترقی کا کوئی کام ہوا؟ کوئی سڑک بنی یا کسی یونیورسٹی کا افتتاح ہوا؟ کسی ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا؟
خیبر پختونخوا کے عوام کو ایک سال میں صرف یہ بتایا گیا کہ تم نے احتجاج کرنا ہے، تم نے ڈنڈے کھانے ہیں، تم نے لاٹھیوں کا سامنا کرنا ہے، تم نے ہر شئے کو آگ لگانی ہے۔ تم نے گولیاں کھانی ہیں اور ایک شخص کے ذاتی مفاد کی خاطر خود کو قربان کر دینا ہے۔
خیبر پختونخوا کے لوگ باشعور بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن جب وہاں کے حکمران عوام کو ایک احتجاجی مہرے کی طرح استعمال کریں گے تو وہ اب زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنیں گے۔ عمران خان نے اس صوبے کے عوام اور خزانے کو جس بے دردی سے استعمال کیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔
صوابی جلسہ اس بات کا غماز ہے۔ اب لوگ تھک چکے ہیں۔ انہیں اب اس احتجاج سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انہیں ادراک ہو رہا ہے کہ ان کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے۔ تب ہی تو اب عوام نہیں نکلتے۔ البتہ ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر انقلاب بھرپور طریقے سے لایا جا رہا ہے۔ معصوم لوگوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ جو یو ٹیوب پر انقلاب لارہے ہیں وہ آپ کی حماقت سے کروڑوں کما رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کا وسیلہ آپ اور آپ کی معصومیت ہے۔ یہ اپنے ڈالروں کے لیے آپ کو ورغلاتے ہیں۔ فیک نیوز پھیلاتے ہیں۔ انتشار پیدا کرتے ہیں۔ لڑائی مار کٹائی پر مجبور کرتے ہیں۔ ریاست کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں۔ عوام کو اب سمجھنا چاہیے۔ نہ ان کا مقصد انقلاب ہے نہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ان کا نظریہ ہے اور نہ ہی یہ اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ان کا دھندا جھوٹ کا دھندا ہے۔ فریب کا کاروبار ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ عوام میں مایوسی بانٹتے ہیں اور خود اس کام کے عوض ڈالر بٹورتے ہیں۔
پنجاب بھی اس ملک کا صوبہ ہے۔ عثمان بزدار کے دور میں لوگ اس صوبے کی طرف ترس بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور آج کل حسد بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایک سال میں پنجاب بدل گیا ہے۔ مریم نواز نے نواز شریف کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ سارا صوبہ ہی تبدیل کر دیا۔ ہر گوشہ جگمگ کر رہا ہے۔ اصلاحات ہو رہی ہیں۔ نت نئے منصوبے تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ عوام کے مسائل پر توجہ کی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل میچز ہو رہے ہیں۔ سٹیڈیم رنگ و نور سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر نوجوان رقص کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشیاں ہیں، امیدیں ہیں۔
یہ خوشیاں اور امیدیں صرف پنجاب کا حق نہیں ہر صوبہ اس طرح روشن ہونا چاہیے، ہر جگہ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ ملنے چاہئیں۔ ہر گوشے کو منور ہونا چاہیے۔ لیکن بدقستی سے خیبر پختونخوا کے عوام اس روشنی سے محروم ہیں۔ ان کی حکومت صرف گالی اور گولی کا سبق دیتی ہے، تشدد اور احتجاج کا پیغام دیتی ہے، مارنے اور مرنے کی باتیں کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام اس سے کہیں بہتر کے حق دار ہیں لیکن کون ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے؟
ایک سال گزر گیا، وفاق بھی بہت بدل گیا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ملک سری لنکا بن جائے گا وہ اب خاموش ہو چکے ہیں، وہ جو کہتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، اب ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ وہ جو آئی ایم ایف کو شکایتیں لگاتے تھے اب چپ ہو چکے ہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ بیرون ملک پاکستانی اس حکومت کو ایک دھیلا بھی نہیں بھیجیں گے، ان کے لب سل چکے ہیں، ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اور ان کا بیانیہ فوت ہو چکا ہے۔
شہباز شریف حکومت کی تعریف نہ کریں تو زیادتی ہے۔اس نے جب حکومت کو سنبھالا تھا اس وقت معیشت کی کشتی ڈول رہی تھی۔ بجلی کے بل سوہان روح بنے ہوئے تھے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ معیشت ایک سال میں درست نہیں ہوتی لیکن سفر کی درست سمت اور رفتار سے منزل کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ایک سال کے قلیل عرصے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی، سٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں کرنے لگی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا، شرح سود میں بتدریج کمی ہوئی۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ دوست ممالک سے اچھے تعلقات استوار ہوئے۔ روزگار کے مواقع کی سبیل نکل رہی ہے۔
شہباز حکومت نے ایک سال میں معاشی سطح پر بہت سی حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم سمجھیں کہ مشکل وقت گزرتا جا رہا ہے اور اگر یہ حکومت چلتی رہی تو ہر آنے والے سال میں عوام کو مزید فلاح نصیب ہو گی۔ ملک عزیز کو مزید ترقی ملے گی۔
ابتدا میں ذکر ہوا تھا کہ پاکستان کے عوام دو طرح کی سوچوں میں منقسم ہیں۔ اس تقسیم میں سب سے اہم فیصلہ آپ کا ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے۔ اس وقت فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور یہ فیصلہ آپ کو آج ہی کرنا ہے کہ اپنی آنے والی نسل کے ہاتھ میں آپ ڈگری تھماتے ہیں یا ڈنڈا۔ ان کو ریاست سے بغاوت کا درس دیتے ہیں یا وطن سے محبت کا اسلوب سکھاتے ہیں۔ ان کو تنزلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا ترقی کی راہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے اور آنے والی نسل آپ کے فیصلے کی منتظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم شہباز شریف عمار مسعود