غزہ اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان نے پوری دنیا کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ امریکا غزہ پر قبضہ کرکے اس کی تعمیر نو کر سکتا ہے ۔ انھوں نے کہا ہم غزہ کے مالک ہونگے اور خطے میں موجود تمام خطرناک اور ان پھٹے بموں اور دیگر ہتھیاروں کو ختم کرنے کے ذمے دار ہوں گے ۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو "مستقل" طور پر کہیں اور آباد کیا جا سکتا ہے اور امریکا غزہ پر کنٹرول حاصل کرکے اسے اپنے ملکیت میں لے سکتا ہے ۔ ٹرمپ نے غزہ میں واشنگٹن کے کردار کو "طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن" کے طور پر بیان کیا ۔ انھوں نے غزہ کو "ترقی " دینے کا وعدہ کیا اور کہا کہ عرب ممالک بھی میرے منصوبے کی حمایت کریں گے ۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے ٹرمپ کی تجویز کو تاریخی قرار دیا۔ جب کہ امریکی و زیر خارجہ ماریو روبیو نے بھی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف غزہ کی تعمیر نو کی تجویز دی ہے اور غزہ پر غیر معینہ مدت کے لیے قبضے کی بات نہیں کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا سب سے بڑا دوست قراردے دیا ہے ۔ انھوں نے کہا انھیں یقین ہے کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا میرے خیال میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن نہ صرف ممکن ہے بلکہ میرے خیال میں تو ایسا ہونے والا ہے ۔ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ ان کا ملک دو ریاستی حل کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے اندرونی تنقید اور عالمی مخالفت کے باوجود غزہ پر قبضے کا بیان دہرایا تاہم وہ غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کے بیان سے پیچھے ہٹ گئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے موجودہ منصوبے میں امریکی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
غزہ کا انتظام اسرائیل امریکا کے حوالے کردے گا۔ جب کہ اسرائیل نے ٹرمپ کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیا ہے ۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے صیہونی فوج کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایک ایسا " منصوبہ " تیار کریں جس کے تحت غزہ کی پٹی کے فلسطینی رضاکارانہ طور پر اپنے علاقوں کو چھوڑ کر چلے جائیں ۔ فلسطینیوں کو سمندری ، فضائی ، زمینی راستے سے دنیا میں کسی بھی جگہ جانے کی اجازت ہو ۔ جب کہ حماس کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر کا غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ ناقابل قبول ہے ۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے جرات مندانہ منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ غزہ کے ان لوگوں کی مدد کر سکتا ہے جو میزبان ممالک میں بہتر طور پر ضم ہونے کے خواہش مند ہیں ۔ اسرائیلی میڈیا نے تین دیگر علاقوں کا انکشاف کیا ہے جہاں ٹرمپ غزہ کی پٹی میں آبادی کو منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ اسرائیلی ٹی وی چینل کے مطابق یہ ممالک مراکش ، صومالیہ اور شمال مشرقی صومالیہ میں خود مختار علاقے ہیں ۔
صد ر ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی تقریب میں حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ میں ایک روشن امکان کو گرفت میں لیتا دیکھ رہا ہوں ۔ اور یہ روشن امکان ان کی توسیع پسندی کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ چاہے یہ گرین لینڈ کا قبضہ ہو یا خلیج میکسیکو یا پاناما ۔ اب دو ریاستی حل تو گیا چولہے بھاڑ میں ۔ ایران سمیت جو اس بات پر معترض تھے کہ دو ریاستی حل کا مطلب اسرائیل کا ارض فلسطین پر قبضہ تسلیم کرنا ہے جب کہ اسرائیل نے گزشتہ سال کے اختتام سے پہلے ہی دو ریاستی حل کے فارمولے سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا تھا جس کا میں نے بھی ذکر کیا ۔ ماضی میں امریکا ایران جوہری معاہدہ ہو یا کچھ اور امریکا کسی بات پر اڑ گیا تو اس کے طاقتور اتحادیوں کو بھی اس کی بات ماننا ہی پڑتی ہے ۔
امریکا عسکری طور پر اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے اتحادیوں کو بھی نہ نہ کرتے اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے ۔ امریکی صدر دو ریاستی حل کی جگہ جو نیا منصوبہ لے کر آئے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے کدھیڑ کر دوسرے ملکوں میں بسایا جائے یہ بلا وجہ نہیں تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ کی دہشت گردی کو الیکشن سے پہلے ہی ٹرمپ کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اسرائیل کو حماس کو نیست ونابود کرنے کے لیے اس سنہری موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ چنانچہ غزہ پر پچھلے سوا سال میں صرف 85000 ٹن بارود برسایا گیا کہ غزہ کو اس بُری طرح تباہ وبرباد کردیا جائے کہ وہ دوبارہ بسنے کے قابل نہ رہے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ غزہ کے ملبے کو ہٹانے کے لیے ہی دس برس چاہیں اور دوبارہ تعمیر نو کے لیے بیس برس یعنی غزہ کی بربادی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوئی ہے جسے ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن کی مشترکہ حمایت حاصل تھی۔ امریکا کس حد تک اپنی بات منوانے پر قادر ہے ۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ چین روس سمیت پوری دنیا بے بسی کے عالم میں صرف شور ہی مچاتی رہ گئی اور کچھ بھی نہ کر سکی۔ اب تو مشرق وسطی امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک کھلا میدان ہے۔ حزب اﷲ اور حماس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے بعد۔ یہ ہے امریکا کا نیو ورلڈ آرڈر جس کی تعبیر کے لیے اٹھارہ برس انتظار کیا گیا ۔ایران کے ساتھ مستند جوہری امن معاہدہ نئے مشرق وسطی کی پیدائش کی طرف پہلا قدم ہو گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر دو ریاستی حل کہ اسرائیل انھوں نے سکتا ہے کہ غزہ کہا کہ نے کہا غزہ کی کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
میکسیکو کا نام تبدیل، امریکی صدر ٹرمپ نے دستخط کردیئے
نیویارک(نیوزڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کا نام باضابطہ طور پر تبدیل کردیا۔غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے ’خلیج میکسیکو‘ کو باضابطہ ’خلیج امریکہ‘ کا نام دیدیا ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلامیے پر دستخط بھی کر دیئے۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ اقدام سُپر بال دیکھنے کیلئے دوران پرواز کیا جس کے بعد امریکی صدر کے جہاز میں بھی اعلان کردیا گیا کہ آج ہم پہلی بار خلیج امریکا پر پرواز کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ عہدہ سنبھالتے ہی امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا کا نام دیں گے۔
ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے دن ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت محکمہ داخلہ کو 30 دن کے اندر وہ تمام مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی جو نام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوں۔
امریکی میڈیا کے مطابق خلیج میکسیکو کو امریکا کی ’تھرڈ کوسٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کی ساحلی پٹی امریکا کی 5 ریاستوں ٹیکساس، لوئزیانا، مسیسپی، الاباما اور فلوریڈا سے ملتی ہے۔
کرک: سی ٹی ڈی اور پولیس کا مشترکہ آپریشن، 5 دہشتگرد ہلاک