کراچی میں گزشتہ تین دن کے دوران ڈمپر کی ٹکر کے تین حادثات میں جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 7 ہوگئی ہے۔ لواحقین اور اہل علاقہ کی جانب سے احتجاج کی وجہ سے جلاؤ، گھیراؤ اور سڑکیں بند کرنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔
ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کی نقل و حرکت ہے۔ کراچی میں جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس سے حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ چالیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ پچاس ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھرکی معذوری سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ٹریفک حادثات کم کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں ان حادثات کی ممکنہ روک تھام کے لیے کوئی جامع حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو 2030 میں ان واقعات کی تعداد میں 200 فیصد تک اضافے کا خدشہ موجود ہے۔
کراچی میں ٹریفک حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ڈمپرز پورے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں اور انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہے، ٹریفک پولیس جوکہ ہر چوراہے پر ٹولیوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے لیکن وہ کراچی کے نوجوانوں اور مڈل کلاس طبقے کے موٹر سائیکل سواروں پر تمام قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔
شہر میں ہیوی ٹریفک جن میں کوچز بھی شامل ہیں یہ سب بغیر فٹنس کے چل رہی ہیں۔ ڈرائیوروں کے پاس نہ گاڑی کے کاغذات ہوتے ہیں، نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ گو کہ کراچی میں رات گیارہ بجے سے صبح چھے بجے تک ہیوی ٹریفک کے چلنے کے اوقات کار ہیں لیکن یہ پابندی یہ مافیا قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک چلائی جاتی ہے اور کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص جاری رہتا ہے۔
چالیس ہزار کے قریب سندھ ٹریفک پولیس میں نئی بھرتیاں کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود خونیں حادثات رونما ہو رہے ہیں، شہر کی سڑکیں خطرناک حد تک غیر محفوظ ہیں۔ ملک بھر میں ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف ورزی، اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہو جانا اور زائد المیعاد ٹائروں کا استعمال شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حادثات کی سب سے بڑی وجہ سڑک پر اترنے والوں کا جلد باز رویہ ہے۔
تقریباً نوے فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری اور غیرمحتاط رویے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے قطعاً تیار نہیں اور یہی جان لیوا حادثات اور ٹریفک مسائل کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گاڑیوں کے لیے تو موٹر وہیکلز قوانین موجود ہیں مگر آہستہ چلنے والی گاڑیوں مثلا گدھا و بیل گاڑی اور تانگہ وغیرہ کے لیے کوئی قانون نہیں۔ اس وجہ سے روڈ استعمال کرنے والے یہ لوگ قانون سے نہ صرف بالاتر ہیں بلکہ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ بھی ہیں۔
حادثات کے اسباب میں سڑکوں پر ٹریفک کا زیادہ ہونا اور لوگوں کا کم سے کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچنے کی کوشش کرنا، چونکہ ٹریفک کے زیادہ ہونے سے راستے مسدود ہوجاتے ہیں، گاڑیوں کے ڈرائیور کسی نہ کسی طرح راستے بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کو جلد سے جلد نکالنے کی کوشش کرنا بھی حادثات کا باعث بن جاتا ہے۔ رش میں بسا اوقات پیدل چلنے والے بھی کچلے جاتے ہیں۔ جب رش ہوتا ہے تو قوانین دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ حادثات کا ایک اہم سبب کم عمری بھی ہے۔ کم عمر ڈرائیور ناپختہ اور پرجوش ہوتا ہے۔
اس لیے وہ تیز رفتاری اور کراسنگ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جس کے نتیجے میں وہ سامنے سے آنے والی گاڑی سے یا کسی بھی چیز سے ٹکرا جاتا ہے۔ راتوں کو جاگنا اور پھر دور دراز کے سفر پر گاڑی لے جانا حادثات کا باعث بنتا ہے۔ ایسے ڈرائیور نہ صرف اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ اور بھی بہت سے گھرانوں کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ بے خوابی کا شکار ڈرائیور تیز رفتاری کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں ایسے تیز رفتار ڈرائیور بسا اوقات فٹ پاتھ یا سڑک کنارے کھڑے لوگوں کو بھی کچل دیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اوورلوڈنگ، اوور ٹیکنگ اور تیز رفتاری کا جنون بھی بے شمار ٹریفک حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں ذاتی استعمال اور پبلک ٹرانسپورٹ میں چلنے والی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں جو حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے اور ناقص انجن لیک ہونے کی وجہ سے خوفناک حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستم یہ کہ متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سڑکوں کے باقاعدہ معائنہ کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ کئی اہم شاہراہیں اور سڑکیں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں اور حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ایک تہائی ٹریفک حادثات کا سبب موٹر سائیکل سوار ہیں۔ موٹر سائیکل اور موٹر رکشہ کے نابالغ اور نوآموز ڈرائیوروں کے پاس کسی طرح کا لائسنس یا گاڑی کے کاغذات نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ ٹریفک کے قوانین سے لاعلمی کے باعث اپنی اور دوسروں کی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
دو وہیلر چلانے والے تو کبھی بھی ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرتے ہی نہیں۔ کئی ایک محکمے سڑکیں کھود کر ان کو اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔بہت سے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی گاڑیوں کی وقت پر ضروری اور نہایت اہمیت کی حامل باقاعدگی کے ساتھ مرمت نہیں کراتے، گاڑی چل رہی ہے تو چلتی جائے، جب تک کہ گاڑی خراب نہ ہو ہم گاڑی کی مرمت پر دھیان ہی نہیں دیتے، جیسا کہ گاڑی کی بریکس کا چیک اپ، بریک آئل کم ہونے کی وجوہات کو چیک کرانا، گیئر آئل کی تبدیلی، ٹائروں کی مناسب ہوا، مقررہ مدت یا استعمال کے بعد ٹائروں کی تبدیلی۔ روڈ پر گاڑی وہی چلا سکتا ہے کہ جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو، مگر کیا حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا ڈرائیونگ لائسنس 100 فیصد کرپشن سے پاک طریقوں سے بنائے اور بنوائے جاتے ہیں؟ ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے سب سے پہلے ٹاؤٹس کی تلاش کی جاتی ہے، جیسے ہی ٹاؤٹ ملا، پھر ٹاؤٹ جانے اور لائسنس جانے۔
ٹریفک حادثات کی دیگر وجوہات میں حد سے زیادہ اوور لوڈنگ بھی شامل ہے، اوور لوڈنگ چاہے انسانوں کی ہو یا پھر سازو سامان کی ہو، اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول ٹائم پر رکشہ، پک اپ میں حد سے زیادہ بچوں کو بٹھایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بچوں کو رکشہ اسکول وین میں ٹھونسا جاتا ہے اور بسا اوقات گاڑی اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتی اور کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔
پاکستانی منچلوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ جس کی ہر فورم پر حوصلہ شکنی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقررہ حد رفتار سے زیادہ اسپیڈ سے گاڑی چلانا بھی حادثات کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ یوٹرن لیتے ہوئے دائیں بائیں اشاروں کا عدم استعمال یا پھر موڑ پر پہنچے کے وقت آخری لمحات میں استعمال اکثر حادثات کا سبب بنتا ہے۔
حادثات سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پوری توجہ ڈرائیونگ پر ہو، فون کے استعمال سے بچنا چاہیے، اگر فون کرنا ضروری ہوتو گاڑی کو ایک سائیڈ پر کھڑا کر کے فون کیا جا سکتا ہے۔ فون کے ذریعے میسجنگ پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے، الغرض ڈرائیونگ کے وقت پوری توجہ ڈرائیونگ پر ہونی چاہیے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔ حادثات سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بروقت گاڑی کا ورکشاپ سے چیک اپ کروایا جائے۔
اس کا آئل تبدیل کروایا جائے۔ بر وقت پانی بھی ڈالا جائے۔ موٹر سائیکل والوں کو بھی بر وقت موٹر سائیکل کی ٹیوننگ اور دیگر ضروری کام کرواتے رہنا چاہیے، اگر ڈرائیور حضرات اپنی اپنی گاڑیوں کا خیال رکھیں اور ان کی دیکھ بھال کرتے رہیں تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ ہر ڈرائیور کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنے ساتھ رکھے ڈرائیونگ لائسینس اور لیکچرز کا ثبوت وغیرہ سب ساتھ ہونا چاہیے۔ ٹریفک حادثات کا جائزہ لیا جائے تو عموماً ان کے پیچھے انسانی غلطی کارفرما ہوتی ہے جس پر تھوڑی سی احتیاط سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں نافذ قومی وہیکل آرڈیننسز ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے ان میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ موجودہ وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں جدت لانے کی بھی ضرورت ہے۔ ٹریفک سے متعلق شعور کی بیداری کے لیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہئیں تاکہ مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچا جا سکے۔ اس حوالے سے حکومتی اقدامات اپنی جگہ یہ شہریوں کی بھی قومی ذمے داری ہے کہ وہ از خود ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں اور سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حادثات کا باعث بن میں ٹریفک حادثات ڈرائیونگ لائسنس ٹریفک حادثات کی موٹر سائیکل پاکستان میں تیز رفتاری حادثات سے کراچی میں کی وجہ سے دیتے ہیں سکتا ہے کا شکار ہیں اور یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
ٹریفک حادثات:گورنر کاہیو ی ٹریفک کیخلاف سڑک پر نکلنے کااعلان
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے شہر میں ٹریفک کے بڑھتے واقعات پر کہنا ہے کہ میں اب سڑکوں پر اس وقت نکلوں گا جب ہیوی ٹریفک کا سڑکوں پر نکلنا ممنوع ہے، ان کو روکیں گے، پولیس بلائیں گے اور ان کو پکڑوائیں گے۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ ڈی آئی جی ٹریفک کو میرے پاس بھیج دیں مجھ سے مشاورت کریں اور اگر اس کے بعد کوئی ڈمپر کسی کو کچل دے تو براہ راست میری ذمہ داری ہے۔کامران ٹیسوری نے کہا کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو خط لکھا ہے اور اب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بھی خط لکھ رہا ہوں، 70 سے زائد لوگ ڈمپر حادثے میں جاں بحق ہو چکے ہیں، مجھے ایک علاقے کا بھی ثبوت دے دیں کہ کسی کو معطل کیا گیا ہو، جزا اور سزا کی بات کریں پھر پرفارمنس نظر آئے گی۔انہوں نے کہا کہ میں نے تجویز دی ہے کہ ٹریفک پولیس میرے ماتحت کر دیں اگر ایک ہفتے میں اس کو ٹھیک نہ کروں تو بولیے گا، آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ٹریفک فوری اقدامات کریں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہوں۔