امریکیوں کی اکثریت نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو بُرا قرار دیدیا، سروے
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
47 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو بُرا قرار دیا۔ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی صرف 13 فیصد امریکیوں نے حمایت کی جبکہ 40 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے سے متعلق واضح رائے نہیں دی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان سے متعلق امریکی میڈیا کے سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو بُرا قرار دے رہی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق 47 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو بُرا قرار دیا۔ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی صرف 13 فیصد امریکیوں نے حمایت کی جبکہ 40 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے سے متعلق واضح رائے نہیں دی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو ب را قرار
پڑھیں:
امریکی عدالت نے ایلون مسک کے امریکی حکومت کا حجم کم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دیا
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 فروری ۔2025 )امریکی عدالت کے جج نے صدر ٹرمپ کے قائم کردہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے امریکی حکومت کے حجم کو کم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دیا ہے جس کے تحت وفاقی ملازمین کو بڑے پیمانے پر ملازمت چھوڑنے کی ترغیب دی گئی تھی.(جاری ہے)
فرانسیسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق میساچوسٹس کے وفاقی جج نے ایلون مسک کی جانب سے ملک کے 20 لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن پر عارضی حکم امتناع جاری کر دیا ہے جس کے تحت وفاقی ملازمین کے لیے پیشکش 8 ماہ کی تنخواہ کے ساتھ ملازمت چھوڑنے کی تھی، یا مستقبل میں نوکری سے نکالے جانے کا خطرہ تھا اس ڈیڈ لائن کو پیر تک بڑھا دیا گیا ہے جب ضلعی جج جارج اوٹول لیبر یونینز کے دائر کردہ کیس کی میرٹ پر سماعت کریں گے.
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے بڑے عطیہ کنندہ ایلون مسک ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈی او جی ای) نامی ایک آزاد ادارے کے انچارج ہیں جس کا مقصد حکومت کا حجم کم کرنا اور کارکردگی کو بڑھانا ہے وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کارولن لیویٹ کے مطابق اب تک 40 ہزار سے زائد ملازمین نے معاہدے کو قبول کر لیا ہے، جو نسبتاً کم تعداد ہے تقریباً 8 لاکھ سرکاری ملازمین کی نمائندگی کرنے والی یونینز اور کانگریس کے ڈیموکریٹک ارکان اس اسکیم کی مخالفت کر رہے ہیں اور انہوں نے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کی دھمکیوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے. امریکی بجٹ میں کٹوتی کی وسیع تر مہم جس کی ٹرمپ اور ان کے معاونین کی حمایت ہے اور حکومت مخالف کارکنوں میں اشتعال کا سبب ہے نے پہلے ہی ان بڑے محکموں اور ایجنسیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جو دہائیوں سے تعلیم سے لے کر قومی انٹیلی جنس تک سب کچھ چلا رہے ہیں. حکومت کا انسانی امداد کا ادارہ یو ایس ایڈ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے غیر ملکی عملے کو گھر بھیجنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور تنظیم کے پروگراموں کو وائٹ ہاﺅس اور دائیں بازو کے ذرائع ابلاغ روزانہ اور اکثر غلط طریقے سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یونین کے ایک عہدیدار نے ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ ایجنسی کی عالمی افرادی قوت کو10 ہزار سے کم کرکے 300 سے بھی کم کردیا جائے گا. امریکن فارن سروس ایسوسی ایشن کے نائب صدر رینڈی چیسٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ آخر کار ہمیں خوراک کی تقسیم روکنی پڑے گی کیوں کہ ہمارے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے لوگ نہیں ہوں گے کہ کھانا اصل میں تقسیم کیا جا رہا ہے ڈیموکریسی فارورڈ سے تعلق رکھنے والے رابن تھرسٹن جنہوں نے یو ایس ایڈ میں بڑے پیمانے پر برطرفیوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یو ایس ایڈ پر غیر قانونی قبضے کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اقتدار کی علیحدگی سے متعلق بنیادی آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے. سرکاری املاک کا انتظام سنبھالنے والی ایجنسی کے عہدیدار نے کہا کہ محکمہ دفاع کی عمارتوں کو چھوڑ کر رئیل اسٹیٹ پورٹ فولیو میں کم از کم 50 فیصد کٹوتی کی جانی چاہیے لیوٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی ملازمین کو موخر استعفے کی انتہائی فراخدلانہ پیشکش کو قبول کرنا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے لیے اچھے متبادل تلاش کیے جائیں گے جو امریکی عوام کو ختم کرنا چاہتے ہیں ایلون مسک کے منصوبے کے گرد گردش کرنے والے تنازعات میں سے ایک یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ٹیکنالوجی ٹائیکون کو خفیہ سرکاری اعداد و شمار تک کتنی رسائی مل رہی ہے جس میں خزانہ کا پورا ادائیگی کا نظام بھی شامل ہے. واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ سمیت دوسرے ممالک میں امدادی پروگرام چلانے والے امریکی اداروں کے سخت ناقد رہے ہیں اپنی انتخابی مہم اور صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کا موقف رہا ہے کہ یو ایس ایڈ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا ضیاع ہے اور وہ اسے بند کرنا چاہتے ہیں ان کی حکومت کئی سرکاری اداروں کے بجٹ میں کمی کر رہی ہے تاکہ حکومتی اخراجات کم کیے جا سکیں . یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے اعلان کے بعد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ یہ ادارہ اب امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک برانچ کے طور پر کام کرے گا ٹرمپ انتظامیہ اس کی فنڈنگ اور کام کرنے والے افراد کی تعداد میں واضح کمی لانے کا ارادہ رکھتی ہے امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے یو ایس ایڈ کی قیادت پر حکم عدولی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب اس ادارے کے عبوری سربراہ ہیں.