Express News:
2025-02-10@14:12:16 GMT

 زباں فہمی نمبر 235  ؛  موت ہی موت ہے، جدھر دیکھو........

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

یہ خاکسار تمام عمر زندگی سے لڑتا رہا اور سب کو ہرحال میں مُثبَت طرزِفکر اپنائے رکھنے کی تلقین کرتا رہا، مگرآج جی چاہتا ہے کہ موت کو بھی یاد کیا جائے جو ہمارے چاروں طرف کسی نہ کسی طرح موجود ہے اور شاید اُس کا رقصِ مسلسل بھی کسی کے پاؤں کی چاپ کی طرح اپنی طرف متوجہ کررہا ہے۔

اردو شاعری کی ابتداء ہی میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صوفیہ کرا م اور علمائے عُظّام نے جہاں زندگی اور دنیا کی بے ثباتی کی بات کی، دوسرے جہان یعنی آخرت کی اہمیت اُجاگر کی، وہیں موت کے موضوع پر بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔ قُدَماء سے لے کر متأخرین تک، موت بھی ہر ایک کا موضوعِ سخن رہا۔ اس میں بعض شعراء نے مثبت جہات بھی پیش نظر رکھیں، جیسے اپنے عہد کے معروف صوفی وعالِم میرزامظہر جانِ جاناں شہید (رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا:

لوگ کہتے ہیں مر گیا مظہر

پر حقیقت میں گھر گیا مظہر

              (مظہر جانِ جاناں)

اور اسی طرح علامہ اقبال یاد آتے ہیں جنھوں نے کہا تھا:

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی

اور پھر اُن سے بہت پہلے استادِسخن، میرؔ نے کیا خوب کہا تھا:

موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے، دم لے کر

  میرؔ کے اس شعر کا مصرع اولی ، یوں مشہور ہے: موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے، مگر ریختہ ڈاٹ آرگ نے ’مرگ‘ نقل کیا ہے۔

میرؔ صاحب نے جابجا زندگی اور موت کی کشاکش پر بھرپور طبع آزمائی کی ہے۔ مزید مثالیں بھی لائق ِ دیدو قابلِ داد ہیں:

میرؔ ، عمداً بھی کوئی مرتا ہے

جان ہے تو جہان ہے پیارے!

محاورے کا استعمال دادطلب ہے۔

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دَوا نے کام کیا

دیکھا، اِس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

اور یہ بھی: تدبیر میرے عشق کی کیا فائد ہ طبیب!

اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

پھر میرؔ جیسے عاشق کو اَپنے بارے میں یہ گمان بھی تھا کہ:

میرے سنگِ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے، یااُستاد!

یہی میرؔ کہتے ہیں: 

مرگیا کوہ کَن اِسی غم میں

آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے

محاورے کا ایسا استعمال بھی اُنہی کا خاصّہ تھا۔

میرؔ نے مجنوں ؔ پر بھی خوب خوب طبع آزمائی کی۔ فرمایا:

مرگ ِ مجنوں سے عقل گُم ہے میرؔ

کیا دِوانے نے موت پائی ہے

اور میرؔ ہی نے کہا تھا:

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹُک روتے روتے سوگیا ہے

پہلے مصرع میں ’’آہستہ بولو‘‘ غلط مشہور ہے۔

میرؔ کا ذکر ہوتو ناممکن ہے کہ اُن کے بزرگ معاصر خواجہ میردردؔ کو بھُلادیا جائے جنھوں نے کہا تھا:

وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا، افسانہ تھا

اور اِسی صوفی مَنَش سخنور نے یہ بھی کہا تھا:

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے

بعد کے شعراء میں فِدوی ؔ عظیم آبادی کا بہت مختلف انداز میں کہا ہوا یہ شعر مشہورِزمانہ ہوا:

ٹُک ساتھ ہو، حسرت دلِ مرحوم سے نکلے

 عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

موت کی کئی شکلیں ہیں اور اُن کا بیان بھی مختلف۔ مُصحفیؔ جیسے استاد کا شعر ہے:

میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روزِ عیدِقرباں

وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا

(میں نے دیکھا کی بجائے میں دیکھی، قدیم اردو ہے)

بہادرشاہ ظفر ؔ سے بھی پہلے مغل تاجدارشعر کہا کرتے تھے اور جہاں دار شاہ جہاندارؔ کا یہ شعر تو ضرب المَثَل ہے:

آخر گِل اپنی صَرفِ درِمیکدہ ہوئی

پہنچے وہاں ہی خاک ، جہاں کا خمیر ہو

یہ شعر کئی طرح مشہور ہے، مگر راقم نے صحیح لکھا ہے، بحوالہ کتاب ِ شمس صاحب۔

انشاء اللہ خاں انشاء ؔ کے کلام میں یہ مشہور شعر بہت عمدہ ہے:

کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے، باقی جو ہیں، تیّار بیٹھے ہیں

اس شعر کی شہرت بھی دیگر مثالوں کی طرح مختلف انداز میں ہے۔

میرزا تقی ہَوَسؔ کیا اچھی بات کہہ گئے:

جیتے جی قدربشر کی نہیں ہوتی پیارے!

یاد آوے گی تجھے میری وفا میرے بعد

بہادرشاہ ظفرؔ کے یہ دو شعر ضرب المثل ہیں:

یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑجائیں گے

اور     کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کُوئے یار میں

میرزا تقی خاں ترقیؔ جیسے گمنا م شاعر کا یہ شعر بھی خوب ہے:

دنیا کے جو مزے ہیں، ہرگز یہ کم نہ ہوں گے

چرچے یہی رہیں گے، افسوس! ہم نہ ہوں گے

(محمد رفیع کا گانا یاد آگیا ہوگا: یہ زندگی کے میلے .

.....)

ناسخؔ کا کیا ہی اچھا شعر ہے:

اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے

آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا

            (امام بخش ناسخ)

پنجاب کے قدیم اردو شاعر مولوی عبدالرّضا رضاؔ تھانیسری کا شعر ہے:

آدمی بُلبُلہ ہے پانی کا

کیا بھروسا ہے زندگانی کا

لوگ اسے اُلٹی ترتیب سے پڑھ کر میرؔ سے منسوب کرتے ہیں۔ اب دیکھیے یہی شعر اَمیرؔ مِینائی نے یوں کہا تھا:

زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

آتشؔ نے کہا تھا: 

اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے ، کس کس کا ماتم کیجئے

اور یہ بھی:

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

جب تلمیح کی بات ہوئی تو یاد آیا کہ نواب سراج الدولہ کے سانحہ قتل پر راجا رام نرائن موزوںؔ کا کہا ہوا شعر ضرب المثل بن گیا تھا:

غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی

دِوانہ مرگیا آخر کو وِیرانے پہ کیا گزرا

یہاں ’گزری‘ مشہور ہے، مگر بالتحقیق غلط ہے۔ (بحوالہ اردو کے ضرب المثل اشعاراَز محمد شمس الحق)

اور یہ بھی آتش ؔ کا شعر ہے:

فاتحہ پڑھنے کو آئے قبرِ آتش ؔ پر نہ یار

دو ہی دن میں پاس ِ الفت اس قدر جاتا رہا  

اس سے قدرے مختلف مگر خیال سے قریب تر (بہت بعد کے شاعر) ثاقبؔ لکھنوی کا یہ ضرب المثل شعر دیکھیے:

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

شوق ؔ لکھنوی کہہ گئے ہیں:

موت سے کس کو رُستگاری ہے

 آج وہ، کل ہماری باری ہے

ہائے ہائے کیا حقیقت بیان کرگئے۔

میرزا رَجب علی بیگ سُرورؔ کا یہ شعر مختلف ہے:

ایک آفت سے تو مرمرکے ہُوا تھا جِینا

پڑگئی اَور یہ کیسی مِرے اللہ نئی

ذوقؔ نے فرمایا تھا:

لائی حیات ، آئے، قضا لے چلی، چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

اور یہ بھی:

اب توگھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

مزید:

کھِل کے گُل کچھ تو بہاراَپنی، صبا، دکھلاگئے

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مُرجھاگئے

ذوقؔ اپنے بارے میں یہ بھی فرماگئے:

کہتے ہیں آج ذوقؔ جہاں سے گزر گیا

 کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

اس کے مقابل غالبؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

یہ لاشِ بے کفن، اسدؔ ِ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے ، عجب آزاد مرد تھا

خواجہ محمد وَزیر ؔ نے ایک ایسا شعر کہا جو ضرب المثل بن گیا:

اِسی خاطر تو قتل ِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھِر رہے ہو، یوسفِ بے کارواں ہوکر

اُسی دور میں سید محمد خاں رِندؔ کا یہ شعر مشہور ہوا:

وعدے پہ تم نہ آئے تو کچھ ہم نہ مرگئے

کہنے کو بات رہ گئی اور دِن گزر گئے

میرزا غالبؔ نے موت کے موضوع پر بہت ہی منفرد اشعارنِکالے ہیں۔ وہ مجموعی طور پر ہمہ وقت مُثبت سوچ کی ترجمانی کرنے والے شاعر تھے، البتہ کہیں کہیں مایوسی فطری طور پر دَرآئی ہے جس کا کوئی جواز پیش کرنا بھی عبث ہے۔ یہاں مضمون آفرینی ملاحظہ کیجئے:        

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

                                     (غالبؔ)

یہی غالبؔ اسی موضوع کو بہ انداز ِدگر برتتے ہیں تو کہتے ہیں:

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا ، قاتل سے کہتا ہے

تُو مشقِ ناز کر، خونِ دوعالم میری گردن پر

اور پھر یہ بھی کہ:

قیدحیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

اور یہی میرزا نوشہ کہتے ہیں:

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے، پر نہیں آتی

ہرچند کہ محاورے اور کہاوت کا برمحل اور عمدہ استعمال اُستاد ذوقؔ اور اُن کے تلمیذِ رشید داغؔ کی شناخت ہے مگر غالب ؔ کے یہاں بھی اس کی چاشنی مل ہی جاتی ہے۔ اُن کے ضرب المثل اشعار میں ایسے شعر بھی شامل ہیں:  کی مِرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اُس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا

اور یہ بھی کہ: 

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

 خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

پھر غالبؔ ہی نے کہا تھا: 

غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مَرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے، سَحر ہونے تک

کسی پر مرجانا اور کسی بات پر مرجانا بھی دل چسپ مضمون ہے۔ غالب ؔ کہہ گئے:

اس سادگی پہ کو ن نہ مرجائے اے خُدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

غالبؔ کے یہاں ’موت‘ کا موضوع اپنی دل کشی خوب دکھا تا ہے:

موت کا ایک دن معیّن ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!

اور یہ کہ:

ہوچکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اَور ہے

 پھر یہ بھی غالب ہیں:         

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

یہ ایک گمنام شاعر کا شعر بھی خوب ہے:

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

                        (سخنؔ دہلوی)

داغؔ دہلوی کے دوشعر:

مسکرائے میری میت پہ وہ منھ پھیر کے اے داغؔ

حشر تک یاد رہے گا وہ تبسم مجھ کو

                (داغؔ)

عرصہ حشر میں اللہ کرے گم مجھ کو

اور پھرو ڈھونڈتے گھبراتے ہوئے تم مجھ کو

              (داغؔ)

شاگردِ داغؔ علامہ سیماب ؔ کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں

تلاش کر مِری محفل ، مِرا مزار نہ پوچھ!

                           (سیمابؔ اکبرآبادی)

مزید کچھ اشعار مختلف شعراء کے پیش کرتا ہوں:

موت آ جائے قید میں صیاد

آرزو ہو اگر رہائی کی

           ( رندؔ لکھنوی)

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

                        (جگر مراد آبادی)

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

                        (قمر جلالوی)

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا

بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

                        (فانی بدایونی)

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی

ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

                        (اختر شیرانی)

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

                        (رئیس فروغ)

زندگی کی بساط پر باقیؔ

موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

            (باقی صدیقی)

موت کے موضوع پر اشعار بہت ہیں، مگر تنگی وقت و قرطاس مانع ہے۔ زباں فہمی نمبر 234 اُنیس جنوری کی صبح شایع ہوا اور اُسی رات راقم کی بہت پیاری، چھوٹی بہن آنسہ راحت انجم کی ناگہانی وفات دل پر بجلی بن کر گری۔ اس موقع پر خاکسار نے ایک نظم کہی جو یہاں احباب کی نذر کررہا ہوں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا تھا اور یہ بھی ضرب المثل کا یہ شعر مشہور ہے کہتے ہیں شعر ہے کا شعر

پڑھیں:

سپریم کورٹ، آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6ریگولر بینچز تشکیل

سپریم کورٹ، آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6ریگولر بینچز تشکیل WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6 ریگولر بینچز تشکیل دے دیئے گئے۔
بینچ نمبر ایک چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس شاہد وحید اور بینچ نمبر دو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے۔بینچ نمبر 3 جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک جبکہ بینچ نمبر 4 جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس ملک شہزاد پر مشتمل ہو گا۔
بینچ نمبر 5 جسٹس شاہد وحید، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال اور بینچ نمبر 6 جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل ہو گا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ 4 روز فوجی عدالتوں سے متعلق سماعت کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • لانچ نہ ہونے کے باوجود گزشتہ ہفتے کی ٹاپ فہرست میں شامل موبائل
  • سپریم کورٹ:آئندہ ہفتے کیسز کی سماعت کیلئے ریگولر بینچز تشکیل
  • سپریم کورٹ، آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کیلئے 6ریگولر بینچز تشکیل
  • سپریم کورٹ: آئندہ ہفتے کیسز کی سماعت کیلئے 6 ریگولر بینچ تشکیل
  • ضیاء الدین یونیورسٹی امتحانی بورڈ :میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ نتائج کا اعلان
  • ضیاء الدین یونیورسٹی بورڈ: میٹرک اور انٹر 2024 حصہ دوئم کے نتائج کا اعلان
  • دنیا کے طاقتورترین پاسپورٹس کی رینکنگ جاری، پاکستان کا کون سا نمبر؟