Islam Times:
2025-02-10@13:59:13 GMT

دین و عقل اور دشمن سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

دین و عقل اور دشمن سے مذاکرات

اسلام ٹائمز: امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت‌ الله سید علی خامنہ‌ای نے  فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو غیر ہوشمندانہ، غیر عقلانہ اور غیر شرافتمندانہ قرار دیا ہے۔ یہ تعبیر ان حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے جو دہائیوں سے امریکہ کے ایران اور آزاد قوموں کے خلاف مخاصمانہ رویے کے دوران سامنے آئی ہیں۔ عقلی، تجرباتی اور دینی لحاظ سے اس نوعیت کے دشمن سے مذاکرات غیر منطقی ہونیکی کئی وجوہات ہیں۔

سب سے پہلے سیاسی بصیرت یہ کہتی ہے کہ مذاکرات اس وقت معقول ہوتے ہیں جب دونوں فریق منصفانہ اور عادلانہ تعامل کی تلاش میں ہوں، لیکن امریکہ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا رویہ استکباری ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل خواہاں نہیں بلکہ اپنی مرضی کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایٹمی معاہدے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسمی معاہدے کے بعد بھی، واشنگٹن نے اپنی کسی بھی ذمہ داری پر عمل نہیں کیا اور اسی دوران پابندیاں بڑھا دیں۔ لہذا، اس تجربے کو دہرانا نہ صرف ہوشمندانہ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی سیاسی سادگی بھی ہے۔

دوسرے یہ کہ قومی شرافت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ایسے فریق کے ساتھ مذاکرات کرنا جو آپ کے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھیار استعمال کرتا ہے، ظلم کو قبول کرنے اور تحقیر کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے۔ وسیع اقتصادی پابندیاں، دہشت گرد گروہوں کی حمایت، داخلی فتنے میں امریکی کردار اور ایٹمی سائنسدانوں کا قتل، امریکہ کے دشمنی پر مبنی اقدامات ہیں۔ ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات کرنا، بغیر کسی مضبوط ضمانت کے، ان شہیدوں کے خون کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے جنہوں نے ایران کی عزت اور خودمختاری کے راستے میں اپنی جانیں قربان کیں۔

اسی طرح دینی اور شرعی لحآظ سے بھی خداوند متعال کا کلام، قرآن کریم بار بار دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی تنبیہ کرتا ہے، سورۃ بقرہ کی آیت 100 میں آیا ہے: «أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم»؛ یعنی «کیا ہر بار جب انہوں نے عہد کیا، ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ دیا؟»، یہ آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ اسلام کے دیرینہ دشمن اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہتے، اسی بنیاد پر، حضرت امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السّلام بھی اپنے خط میں مالک اشتر کو تاکید کرتے ہیں؛ «الحَذَرَ كُلَّ الحَذَرِ مِن مُقارَبَةِ عَدُوِّكَ فِی طَلَبِ الصُّلْحِ»؛ یعنی «اپنے دشمن کے ساتھ صلح کے لیے قریب ہونے سے سختی سے بچو۔»، ایسے اسباق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بغیر مضبوط ضمانتوں کے مذاکرات کرنا، حکمت اور دور اندیشی کے منافی اقدام ہے۔

تاریخی تجربات سے بھی ثابت ہے کہ وہ ممالک جو امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں، ان کا انجام خوشگوار نہیں رہا، عراق، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں اس بات کی گواہ ہیں۔ ان ممالک میں، امریکہ نے ابتدا میں مذاکرات اور تعامل کے نعرے کے ساتھ قدم رکھا، لیکن آخرکار، ان کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو تباہی کی طرف لے گیا۔ یہ تجربات واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے کسی حکومت پر اعتماد کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جو قومی نقصان کا باعث بن سکتا ہے، نیز امریکہ نے مذاکرات کی پیشکش مسلسل اس مقصد کے ساتھ کی ہے کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرے اور اسلامی جمہوریہ کی خود مختاری کی شناخت کو تبدیل کرے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ ایران سے نہ صرف ایک محدود معاہدہ، بلکہ علاقائی، فوجی اور حتیٰ کہ ثقافتی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے، یہ مطالبات عام مذاکرات سے ماورا مقاصد ہیں اور عملاً ایک قوم کے کسی بھی استکباری طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہیں، ایسے حالات میں، مذاکرات قبول کرنا نہ صرف ایک شرافتمندانہ عمل نہیں ہوگا، بلکہ بے عملی اور دشمن کے سامنے کمزوری کی علامت ہونگے۔

رہبر انقلاب اس حقیقت پر بھی زور دیتے ہیں کہ مذاکرات تب ہی نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب یہ عزت اور وقار کے ساتھ ہوں، جبکہ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ پابندیوں اور دباؤ کے ہتھیار کو مذاکرات کے لیے استعمال کرے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی گفتگو، طاقت کے زور کی منطق کو قبول کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس لیے، داخلی صلاحیتوں، مزاحمتی معیشت اور علاقائی حیثیت پر انحصار کرنا، اس دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے سے زیادہ عقلمندانہ حکمت عملی ہے، جس کا مقصد تعامل نہیں بلکہ تسلیم ہے۔

مجموعی طور پر، جیسا کہ رہبر انقلاب نے اشارہ کیا، امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ تو عقلمندانہ ہیں اور نہ ہی شرافتمندانہ، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف عقل اور ماضی کے تجربات کے خلاف ہے بلکہ دینی تعلیمات اور بزرگان دین کی نصیحتوں کے بھی منافی عمل ہے۔ زور زبردستی کے خلاف ڈٹ جانا نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ ایک دینی ذمہ داری بھی ہے جس پر قرآن اور حضرات اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ساتھ مذاکرات نہ صرف ایک کے مترادف امریکہ کے زور دیتے کرتے ہیں کے خلاف کرتا ہے

پڑھیں:

امریکہ، ڈیپ سیک کو سرکاری ڈیوائسز پر استعمال کرنے پر پابندی لگانے کا بل پیش

ایوان نمائندگان میں یہ بل اس وقت پیش کیا گیا ہے جب جنوبی کوریا کی وزارتوں اور پولیس نے کہا ہے کہ وہ اپنے کمپیوٹرز تک ڈیپ سیک کی رسائی کو روک رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی قانون سازوں نے چینی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) پروگرام ڈیپ سیک کو صارف کے ڈیٹا کی حفاظت سے متعلق خدشات کے پیش نظر سرکاری ڈیوائسز پر استعمال کرنے پر پابندی لگانے کا بل پیش کردیا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نیو جرسی سے ڈیموکریٹ کے نمائندے جوش گوٹیمر نے الینوائے کے ریپبلکن ڈیرن لاہوڈ کے ساتھ مل کر یہ بل متعارف کرایا ہے، جس میں ڈیپ سیک کو امریکی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ اور پروگرام اور چینی حکومت کے درمیان براہ راست تعلقات کے حوالے سے تنبیہ کی گئی ہے۔ یہ بل امریکی سائبر سیکیورٹی فرم فیروٹ سیکیورٹی کی رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اے آئی ماڈل میں خفیہ کوڈ موجود ہے جو صارف کا ڈیٹا سرکاری ٹیلی کام فرم چائنا موبائل کو منتقل کرنے کے قابل ہے۔ چینی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے گزشتہ ماہ اپنی کم لاگت، اعلیٰ معیار کے چیٹ بوٹ کے اجرا کے ساتھ عالمی آرٹیفیشل انٹیلی جنس انڈسٹری کو چونکا دیا تھا، اور اس نے ٹیکنالوجی کو تیار کرنے کی جاری دوڑ میں امریکا اور دیگر ممالک کی برتری کو ہلا کر رکھ دیا۔ جوش گوٹیمر نے اپنے بیان میں کہا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ہماری قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے، نقصان دہ غلط معلومات پھیلانے اور امریکیوں کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے اپنے اختیار میں موجود کسی بھی آلے کا استعمال کرے گی۔

ڈیرن لاہود نے ڈیپ سیک کو سی سی پی سے منسلک کمپنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی صورت میں ڈیپ سیک کو حساس سرکاری یا ذاتی ڈیٹا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایوان نمائندگان میں یہ بل اس وقت پیش کیا گیا ہے جب جنوبی کوریا کی وزارتوں اور پولیس نے کہا ہے کہ وہ اپنے کمپیوٹرز تک ڈیپ سیک کی رسائی کو روک رہے ہیں، جبکہ کمپنی نے ڈیٹا واچ ڈاگ کی درخواست کا جواب نہیں دیا کہ وہ صارف کی معلومات کا انتظام کیسے کرتی ہے۔ آسٹریلیا نے بھی سیکیورٹی ایجنسیوں کے مشورے پر ڈیپ سیک کو تمام سرکاری ڈیوائسز پر استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے، جب کہ فرانس اور اٹلی نے ڈیپ سیک کے ڈیٹا پریکٹس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی
  •  بانی تحریک انصاف نے ناراضی کی کوئی بات نہیں کی،گنڈا پور 
  • پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے سینئر وائس پریذیڈنٹ وحید حیدرشاہ نے واہ کینٹ سے CBAرہنما ظہیر احمد کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں اعلیٰ کارکردگی پر جنرل منیجر سیلز سوار خان سے LED بطور انعام ملنے پر مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونین
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا بے جا دباؤ نہ ہو تو امریکا کیساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں؛ ایران
  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات، حماقت یا خیانت!
  • امریکا نے ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو ہم ان کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالیں گے، ایرانی سپریم لیڈر
  • امریکہ، ڈیپ سیک کو سرکاری ڈیوائسز پر استعمال کرنے پر پابندی لگانے کا بل پیش
  • حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیش کش
  • جوہری مذاکرات کا تجربہ بتاتا ہے کہ امریکہ کیساتھ ڈائیلاگز سے کوئی مشکل حل نہیں ہو گی، رہبر معظم انقلاب