Express News:
2025-02-10@14:03:49 GMT

’’کنگ چارلس ہمارا بادشاہ نہیں‘‘

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

یہ درست ہے کہ آج آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کا شمار ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ انگریزوں اور دیگر یورپی اقوام نے جس طرح امریکا، جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا پر قبضہ کر کے وہاں مقامی باشندوں پر ظلم وستم توڑے ، اسی کے مانند درج بالا تینوں ممالک پر قابض ہو کر انھوں نے وہاں صدیوں سے رہتے بستے مقامی قبائل پہ بھی خوب مظالم ڈھائے۔

پاکستان میں عام لوگ اس حقیقت سے عموماً ناواقف ہیں کہ آسٹریلیا ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں قدم جمانے اور وہاں قابض ہونے کی خاطر انگریز وسیع پیمانے پر مقامی قبائل کی نسل کشی کرتے رہے۔ آج اسی لیے ان تینوں ممالک میں مقامی قبائل کی نئی نسل تاج برطانیہ کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف ہے۔ 

وجہ یہ ہے کہ امریکی سفید فاموں نے تو اپنے معاشی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر برطانیہ کی ماتحتی سے جان چھڑا لی، مگر برطانوی شاہی خاندان آج بھی کینیڈا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا حکمران ہے، چاہے رسمی ہی سہی۔ لیکن قبائل کی نئی نسل ان جرائم اور ظلم وستم کو نہیں بھول پائی جو انگریز فوج اور سفید فام آبادکاروں نے انجام دئیے اور جن اپنا کر ان کے اجداد کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ اب شاہ چارلس کی رسمی بادشاہت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ 

ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ تینوں ممالک میں سفید فام اکثریت نے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ اکثریت مقامی قبائل کے ساتھ ناروا سلوک کرتی ہے۔ معتصب سفید فام ان کی ترقی کی راہ میں پتھر اٹکاتے ہیں۔ قبائلی لڑکے لڑکیوں کو معمولی جرم پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ علاج، تعلیم، ملازمت اور دیگر سرکاری خدمات دیتے ہوئے ان سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اسی لیے تینوں ملکوں کے مقامی قبائل سفید فام حکمرانوں سے خوش نہیں جو زبردستی ، اسلحے کے بل پر ان کے دیس پہ قابض ہو گئے۔

کینیڈا
تاج برطانیہ کی تینوں نوآبادیوں میں کینیڈا بہ لحاظ آبادی سب سے بڑا ہے۔اس پر پہلے فرانس اور پھر برطانیہ نے قبضہ جمایا۔ دونوں یورپی اقوام نے قبائل سے جنگیں لڑیں اور ہزارہا قبائلی مار ڈالے۔ اس قتل عام اور نسل کشی کے باعث جدید قبائلی تاج برطانیہ کی غلامی کا جوا اپنی گردن سے اتار دینا چاہتے ہیں۔ اس خواہش کا عملی مظاہرہ کینیڈین قصبے، ڈائسن سٹی (Dawson City)میں سامنے آیا۔

حالیہ ماہ نومبر میں وہاں کی ٹائون کونسل کا الیکشن ہوا۔اس میں ایک قبائلی رہنما،ڈروین لائنن (Darwyn Lynn) بھی منتخب ہوا۔ کینیڈا میں رواج ہے کہ منتخب ارکان اپنا کام شروع کرنے سے قبل جو حلف لیتے ہیں ، اس میں یہ جملے بھی بولتے ہیں’’:ہم قانون کے مطابق شاہ چارلس سوم اور اس کے جانشینوں کے وفادار رہیں گے اور اس کی حقیقی بیعت کا اظہار کرتے ہیں ۔‘‘ڈروین نے مگر شاہ چارلس سے اپنی وفاداری نتھی کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اسے اپنا بادشاہ نہیں سمجھتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ منتخب کردہ سفید فام ارکان کی اکثریت نے قبائلی رہنما کا احتجاج درست قرار دیا۔ حتی کہ انھوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ شاہ چارلس سے وفاداری کا حلف نہیں لیں گے۔ یوں ٹائون کونسل میں کام ٹھپ ہو گیا۔ کینیڈین بیوروکریسی اب کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ قصبے میں سرکاری کام شروع ہو سکے۔

کینیڈا میں پچھلے چند سال سے انکشاف ہوا ہے کہ سفید فام اسٹیبلشمنٹ پانچ چھ عشروں قبل اسکولوں ، اسپتالوں اور دیگر سرکاری جہگوں پر مقامی قبائل کا استحصال کرتی رہی ہے۔ اس لیے ملک میں بستے اٹھارہ لاکھ سے زائد قبائلی باشندوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت غم وغصّہ موجود ہے اور وہ اسے برطانوی حکومت کا پٹھو سمجھتے ہیں ۔ممکن ہے، یہ غصّہ اتنا زیادہ پھیل جائے کہ اسٹیبلشمنٹ بطور رسمی بادشاہ چارلس سوم کا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہو جائے۔

آسٹریلیا 
اس براعظم میں بھی پہنچ کر سفید فام قبائلی عوام کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہو گئے۔ خیال ہے کہ دو سو سال کے عرصے میں آسٹریلیا پہ قابض ہوتے انگریزوں نے کم از کم ایک لاکھ ایبوریجنل مرد، خواتین، بوڑھے اور بچے قتل کر دئیے۔ درست کہ آج کے انگریز ماضی میں انجام پائی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں مگر مقتولوں کے عزیز واقارب گوروں کے اجداد کے ہاتھوں اپنے پیاروں کا قتل آج تک نہیں بھول پائے۔ وہ اسی لیے بار بار احتجاج کرتے اور اس نظریے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں کہ آسٹریلیا کا قیام پُرامن انداز میں رونما ہوا۔ ویسے بھی آج کی انگریز نسل کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اجداد دنیا بھر ٖمیں غیر اقوام پر ظلم وستم کرتے رہے۔ یوں اسے ان غلطیوں اور جرائم سے بچنے کا موقع ملے گا جو اس کے اجداد نے بے شرمی سے انجام دئیے۔ لہذا تاریخ کو وقتاً فوقتاً دہراتے رہنا ضروری ہے۔

شاہ چارلس کے خلاف احتجاج
یہی وجہ ہے، برطانیہ کے بادشاہ، چارلس سوم نے حال ہی میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تو اسے وہاں ایبوریجنل باشندوں کے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے، آئینی طور پہ برطانوی شاہ آج بھی آسٹریلیا کا سربراہ ہے۔ شاہ چارلس نے جب دارالحکومت کینبرا میں پارلیمنٹ سے خطاب ختم کیا تو ایک ایبوریجنل وفاقی سینٹر، لیڈیا تھورپ نعرے مارتے سامنے آ گئی:

’’تم ہمارے سربراہ نہیں ، تم ہمارے سربراہ نہیں ۔ تم نے ہمارے (ایبوریجنل )لوگوں کا قتل عام اور نسل کشی کی۔ ہمارے وطن پر زبردستی قبضہ کیا۔ ہماری زمین ہمیں واپس کرو۔ تم نے ہم سے جو کچھ چرایا ہے، ہمیں واپس کرو…ہماری ہڈیاِں، ہمارے ڈھانچے، ہمارا خون، ہمارے بچے، ہمارے ہم وطن۔تم نے ہمارا دیس تباہ کر دیا۔ اب معاہدہ کر کے ہمارا وطن واپس کر، تم ایک قاتل ہو، یہ تمھارا ملک نہیں، اور نہ تم میرے بادشاہ ہو، لعنت (آسٹریلوی )کالونی پر، لعنت کالونی پر۔‘‘

لینڈا تھورپ کے زبردست احتجاج پر انگریز آسٹریلوی قوم نے سخت بُرا منایا ، مگر ایبوریجنلوں کی اکثریت نے اس کو برحق قرار دیا۔ پارلیمنٹ میں گرین پارٹی کی ڈپٹی لیڈر ، پاکستانی نژاد مہرین فاروقی نے بھی ان کے حق میں بیان دیا۔ انھوں نے کہا :’’یہ بالکل سچ ہے کہ انگریزوں نے یہاں (مقامی باشندوں کی )نسل کشی انجام دی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ حکمران آج بھی ایبوریجنل قوم پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔ لہذا ان کے مظالم کے خلاف مذید زیادہ سخت احتجاج ہونے چاہیں۔‘‘

احتجاج کے بعد لینڈا تھورپ نے صحافیوں کو بتایا:’’ یہ کالونی (آسٹریلیا) چوری شدہ زمین، چوری شدہ دولت اور چوری شدہ زندگیوں کے بل پہ بنائی گئی۔ آج بھی ایبوریجنل بچے، بوڑھے ، مرد اور خواتین کسی بہانے گرفتار کر کیے جاتے ہیں۔ انھیں پھر مقدمہ چلائے بغیر طویل عرصہ قید میں رکھا جاتا ہے۔ ان کے کوئی حقوق نہیں اور معاشرے میں ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک ہوتا ہے۔ قیدی اکثر اسیری کی حالت میں مر جاتے ہیں اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کی موت ماورائے قانون قتل ہوتا ہے۔‘‘

شاہ چارلس نے سڈنی میں ایبوریجنل معززین سے ملاقات کی۔ وہاں بھی بزرگوں نے شاہ کو بتایا کہ انگریز قوم اور ایبوریجنل قوم کے درمیان جامع دوستانہ معاہدہ ہونا اشد ضروری ہے تاکہ مقامی باشندے (حکمران انگریز قوم کے )مزید مظالم سے بچ سکیں۔ ایک بزرگ، ایلن مرے نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا؛’’ ہمارے دیس پر ہماری مرضی کے بغیر یونین جیک لہرایا گیا۔ ہمیں مکمل طور پہ نظرانداز کر دیا گیا۔ ہم ایسی صورت حال میں شاہ چارلس کی آمد پر کیونکر خوشیاں منا سکتے ہیں؟‘‘

جب شاہ چارلس اپنی بیگم کے ہمراہ سڈنی اوپیرا ہائوس پہنچے تو وہاں بھی انھیں ایبوریجنل لوگوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ وائن کوکو نامی باشندہ تو شاہ کو دیکھتے ہی نعرے مارنے لگا:’’چوروں اور جھوٹوں کا بادشاہ آ گیا۔ ‘‘پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔ آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کا احتجاج عیاں کرتا ہے کہ آج بھی حکمران طبقے نے اپنی روش نہیں بدلی۔ وہ اپنی نسلی برتری کے غرور میں مبتلا ہے اور ایبوریجنل قوم کے حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ چلن اس قوم کا دوسرا چہرہ ہمارے سامنے لاتا ہے جو خود کو انسانی حقوق کی چیمپین ، قانون پسند اور بااخلاق کہتے نہیں تھکتی…اور یہ ایک ظالم، لالچی اور سنگ دل چہرہ ہے جو دوسرے انسانوں پہ رحم کھانے اور ان سے محبت کرنے کو تیار نہیں۔

برطانوی آ پہنچے
یہ جنوری ۱۷۸۸ء کی بات ہے جب مشرقی آسٹریلیا کے ساحل پر برطانیہ سے آئے مہاجرین نے براعظم پر اپنی پہلی کالونی کی بنیاد رکھی۔ اس کو بعد ازاں ’’سڈنی‘‘ کا نام دیا گیا۔ تب ایک ہزار انگریز مرد و عورتیں بحری جہازوں پر سوار ہو کر سڈنی آئے تھے۔ ان میں ۷۷۸ سزا یافتہ مجرم تھے۔ گویا آسٹریلیا کے پہلے گورے ساکنوں میں پچھتر فیصد سے بھی زیادہ جیب کترے، غنڈے، چور، ڈاکو اور قاتل تھے۔ یہی لوگ پھر پولیس میں گئے اور انتظامی ڈھانچے کا بھی حصہ بنے۔ کرمنل پس منظر رکھنے کی وجہ ہی سے یہ لوگ ایبوریجنل باشندوں پر بے دھڑک مظالم بھی ڈھاتے رہے اور کوئی نہیں تھا جو ان کی راہ روک لیتا۔

دور جدید میں آسٹریلوی یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے کچھ محققین نے تحقیق کی ہے کہ براعظم میں حکمران طبقے نے کیونکر ایبوریجنل قوم کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ ان ماہرین کی تحقیق پر مبنی ایک رپورٹ ’’The killing times: the massacres of Aboriginal people Australia must confront‘‘مارچ ۲۰۱۹ء میں برطانیہ کے ممتاز اخبار، گارڈین نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی۔ اس میں انکشاف کیا گیا کہ ۱۷۸۸ء سے ۱۹۲۶ء تک آسٹریلیا میں انگریزوں نے ’’دو سو ستر‘‘سے زیادہ واقعات میں ایبوریجنل باشندوں کا قتل عام کیا اور بڑی تعداد میں مقامی باشندے بے دردی سے مار دئیے گئے۔ اسی قسم کی دیگر رپورٹیں آسٹریلیا اور برطانیہ کے میڈیا میں شائع ہو نشر ہو چکیں۔ مقامی باشندوں کی نسل کشی صرف ایک علاقے نہیں پورے آسٹریلیا میں کی گئی۔

زمین پہ قبضہ
ایبوریجنل قوم کی نسلی صفائی ان کے علاقے ہتھیانے کی غرض سے شروع ہوئی۔ مقامی باشندے کھیتوں اور باغات کے مالک تھے۔ انگریزوں نے بندوقوں کی مدد سے انھیں قتل کر کے یہ کھیت اور باغ چھین لیے۔ مقامی باشندے ایسے علاقوں میں رہتے تھے جہاں زندگی نمو پا سکتی تھی۔ انگریز نے یہ علاقے بھی ہتھیا لیے۔ ایبوریجنلوں کے پاس اسلحہ نہیں تھا، اس لیے وہ انگریز کا مقابلہ نہیں کر پائے اور جنگلوں اور ویرانوں میں جا کر رہنے لگے۔ یوں انگریز قوم کی ہوس زمین کی تمنا کے بطن سے ایبوریجنل قوم کی نسل کشی کا آغاز ہوا۔

آسٹریلیا میں آباد ہوتے انگریزوں کی لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے باقاعدہ یہ قانون بنا لیا:’’کوئی بھی انگریز آسٹریلیا میں کہیں بھی آباد ہو سکتا ہے۔ اور اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایبوریجنلوں کو ان کے علاقے سے بزور بے دخل کر سکے۔ ‘‘یوں گورے آبادکاروں کو یہ قانونی لائسنس مل گیا کہ وہ نہ صرف مقامی باشندوں کی پراپرٹی پر بلا دھڑک قبضہ کر لیں بلکہ ضرورت پڑے تو ان کو گولیاں کا نشانہ بھی بنا دیں۔ اس قسم کی وحشیانہ اور غیر انسانی و غیر اخلاقی قانون سازی ہمیں ان علاقوں میں بھی نظر آتی ہے جہاں انگریز یا یورپی اقوام قابض رہیں، مثلاً شمالی امریکا، جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں!

 راہ دکھلاتے ڈھانچے
آسٹریلیا میں آباد ہوتے انگریز چونکہ جرائم پیشہ تھے، لہذا ان میں سفاکی اور سنگ دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ جب وہ کہیں ایبوریجنلوں کا قتل عام کرتے تو ان کے ڈھانچے محفوظ کر لیتے۔ یہ ڈھانچے پھر راہ بتاتے بورڈوں کے ساتھ لٹکا دئیے جاتے۔ مدعا اپنی طاقت و برتری کا اظہار کرنا تھا۔ اپنا دفاع کرتے ہوئے مقامی باشندے کسی گورے کو قتل کر دیتے تو انگریز طوفان برپا کر دیتے۔ وہ اپنے ایک ساتھی کے بدلے کہیں زیادہ ایبوریجنل مار ڈالتے۔ سفید فاموں کی نظر میں یہ سیاہ فام جانوروں سے بھی بدتر تھے۔

 ایبوریجنل قوم یوں بھی بدقسمت رہی کہ آسٹریلیا میں جس پولیس کو قانون نافذ کرنا تھا، وہی ان کے قتل عام اور نسل کشی میں ملوث رہی۔ غرض آباد کار ہوں، پولیس ، فوج یا بیرون ممالک سے آنے والے نئے لوگ، سبھی نے مقامی باشندوں کو قتل کرنے میں حصہ لیا۔ ایسی خوفناک اور لرزہ خیز نسل کشی ہمیں صرف شمالی امریکا میں دکھائی دیتی ہے جہاں یورپی حملہ آور ریڈانڈینز پہ ظلم و ستم کرتے رہے۔ وہاں یہودی والدین کی اولاد، کرسٹوفر کولمبس نے مقامی باشندوں کو سزائیں دینے کی خاطر ایسے ایسے خوفناک طریقے ایجاد کیے جن کی بابت پڑھ کر خوف کے مارے جسم میں جھرجھری پیدا ہو جائے۔

ایک شہادت
۱۸۴۶ء میں برطانیہ سے ایک آباد کار، ہنری میریک (Henry Meyrick)روزگار کی تلاش میں آسٹریلیا پہنچا۔ اس نے چند ماہ نئے دیس میں گذار کر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے ہم قوم ایبوریجلوں کے ساتھ کیسا بھیانک سلوک کرتے ہیں۔ اس نے اپنے خاندان کو خط لکھتے ہوئے لکھا:’’جنگل میں کسی حیوان کو بھی اتنی سرگرمی سے اور ظالمانہ انداز میں نہیں مارا جاتا جیسے یہاں انھیں (مقامی باشندوں کو )نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کسی ہم وطن کو کہیں بھی ، کسی بھی جگہ (ایبوریجنل )مرد، عورتیں اور بچے بس دکھائی دے جائیں تو ان پہ بے دردی سے گولیوں کی بوچھاڑ کر انھیں مار دیا جاتا ہے۔‘‘

 ہنری میریک جیسے بعض انسان دوست اور باشعور انگریزوں نے ایبوریجنلوں کی ظالمانہ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی مگر حکمران اور عوام، دونوں نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ بلکہ حکومت اور معاشرے نے ان کا مقاطع بھی کیا تاکہ وہ ایبوریجنلوں کی حمایت میں نہ بول سکیں۔ حکمران طبقے نے اسی بیانیے کی ترویج کی کہ آسٹریلیا میں سفید فاموں کی آباد کاری بڑے امن وامان طریقے سے رونما ہوئی۔ حتی کہ آج بھی آسٹریلیوی حکومت کی یہی کوشش رہتی ہے کہ یہی بیانیہ عالمی سطح پر شہرت پائے تاہم دور جدید کا آزاد میڈیا اس کے جھوٹ طشت از بام کرنے لگا ہے۔ 

آسٹریلیا میں ہر گذرتے برس برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے زیادہ آباد کار آ کر بسنے لگے۔ جلد ہی براعظم میں اس کے حقیقی باشندے اقلیت میں بدل گئے۔ اس کے باوجود ان کی نسل کشی کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ وجہ یہی کہ انگریز سبھی ایبوریجنلوں کو جنگلوں کی سمت دھکیل دینا چاہتے تھے۔ یوں انھوں نے ساحلی بستیوں پر قبضہ کر لیا جہاں انسانی آبادیاں بسانا آسان تھا۔ جبکہ بچے کھچے ایبوریجنل اپنی جانیں بچا کر وسطی آسٹریلیا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی ان کی اکثریت وہیں رہتی ہے۔ بس جو ایبوریجنل نوجوان لڑکے لڑکیاں بیسویں صدی کے اواخر میں خوش قسمتی سے لکھ پڑھ گئے، انھوں نے سڈنی، میلبرون ، پرتھ وغیرہ شہروں کا رخ کیا اور وہاں نئی زندگی شروع کرنے میں کامیاب رہے۔اس کے باوجود نسل پرست انگریز آج بھی ان سے نفرت اور مختلف طریقوں سے انھیں دق کرتے ہیں۔

انسانی لہو کی چھینٹیں
آسٹریلوی حکومت کا سرکاری بیانیہ آج بھی یہی ہے کہ براعظم میں قدم جما کر انگریز قوم نے شاندار کارکردگی دکھائی اور اپنی محنت و مشقت سے اس خطے کو ترقی یافتہ اور خوشحال دیس میں بدل دیا۔ یہ سرکاری بیانیہ اس سچائی کو گول کر جاتا ہے کہ آسٹریلیا پہ قابض ہونے کے لیے انگریز قوم کو ہزارہا ایبوریجنل مرد، عورتوں اور بچوں کا خون بھی بہانا پڑا۔ ان کی زمینوں پہ قبضہ کرنا پڑا۔ اور ان کو ایسے علاقوں سے بے دخل کرنا پڑا جہاں وہ صدیوں سے رہتے چلے آ رہے تھے۔ غرض آسٹریلیا میں انگریز قوم کی کامیابیوں کی داستان انسانی لہو کی چھینٹوں سے رنگی ہے اور اس کے پس منظر میں ہمیں بے گناہ اور نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کی کرب ناک چیخوں اور سسکیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ برطانیہ سے عیسائی مشنری بھی بڑی تعداد میں آسٹریلیا آئے تھے۔ وہ ایبوریجنل باشندوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھوں نے مقامی باشندوں کا قتل عام اور نسل کشی روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں یہ نظریہ ذہنوں میں بیٹھ چکا تھا کہ سفید فام ہر لحاظ سے برتر ہیں۔ وہ ایک اعلی انسانی نسل ہیں۔ اسی نظریے نے متشدد ہو کر ہزارہا سفید فاموں کو ابھار دیا کہ وہ نسلی تفاخر کا شکار ہو کر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے غیر سفید فام اقوام کے لوگوں کو بے دھڑک مار ڈالیں۔ چونکہ آسٹریلوی ایبوریجنل بھی کمتر انسانی نسل سے تھے، لہذا عیسائی مشنریوں کی نگاہ میں ان کا قتل عام جائز قرار پایا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں مشہور برطانوی اخبار، دی ٹائمز میں ایک دانشور نے آسٹریلوی آبادکاروں پہ تنقید کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا تھا:’’یہ سفید فام ایبوریجنل باشندوں کو آسٹریلیا کے حقیقی مالک نہیں بلکہ دھرتی پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کا قتل جائز قرار پا گیا۔‘‘

نیوزی لینڈ
بحرالکاہل میں واقع اس مملکت میں تقریباً دس لاکھ قبائلی بستے ہیں جنھیں ’’ماوری‘‘کہا جاتا ہے۔ جب سفید فام یہاں آئے تو ان کی ماوریوں سے جنگیں ہوئیں۔ آخر دو سو سال پہلے قبائلیوں اور انگریزوں کے مابین ایک دوستانہ معاہدہ انجام پایا۔ انگریز نے ماوریوں کے حقوق تسلیم کر لیے۔ مگر اب قدامت پسند انگریز چاہتے ہیں کہ اس دوستانہ معاہدے میں تبدیلیاں کر ڈالیں تاکہ وہ ان کے حق میں ہو جائے۔اس کھلی غنڈہ گردی کے خلاف ماوری احتجاج کرنے لگے۔ وہ معاہدے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ 

وسط نومبر میں نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں ماوری ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے’’ کا ماٹے‘‘ (Ka Mate) نامی ہاکا جنگی رقص پیش کیا۔ یہ جنگی رقص اسلحے کے بغیر کیا جاتا ہے۔ اس احتجاجی رقص کی وڈیو وائرل ہو گئی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں مردوزن نے اس کو دیکھا۔ اس رقص کا آغاز بائیس سالہ خاتون رکن اسمبلی، ہانا راہویتی( Hana-Rawhiti Maipi-Clarke)نے کیا۔نوجوان ہانا اپنے وطن میں سفید فام اکثریت کو حاصل مراعات کا خاتمہ چاہتی ہے ۔

ماوری سمجھتے ہیں کہ قدامت پسند انگریز دوستانہ معاہدے میں جس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں، ان کی وجہ سے ماوری زبان، تہذیب وثقافت، زمین کے حقوق اور تعلیم و صحت کی سہولیات خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اسی لیے انھوں نے ’’پیدل مارچ ‘‘ یا ہیکوئی (hikoi) بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا۔ ہانا راہویتی نے ہاکا رقص کرنے سے قبل پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انگریز کو یاد دلایا:’’آپ یہاں مہانوں کی حیثیت سے آئے تھے۔ ‘‘اور جو پھر زمین کے لالچ میں طاقت کی مدد سے نیوزی لینڈ کے مالک بن بیٹھے۔ ہانا مملکت کی سیاسی جماعت، دی ماوری پارٹی(Te Pati Maori)کی رکن ہے۔ چونکہ انگریزوں کی روایتی سیاسی جماعتوں نے ماوری قوم کے لیے ٹھوس کام نہیں کیے، اس لیے یہ جماعت پچھلے چند برسوںمیں ماوری ووٹروں کے درمیان مقبول ہو چکی۔فی الوقت پارٹی کے پارلیمان میں چھ ارکان نہیں۔ یہ پارٹی انگریز اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ ہم چارلس سوم کو اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرتے۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مقامی قبائل جابر و قاہر برطانوی شہنشاہیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں

مثال کے طور پر غزہ میں اسرائیل نے اہل فلسطین کی نسل کشی اور قتل عام شروع کیا تو ماوری پارٹی نے اسرائیلی حکومت کی شدید مذمت کی۔ نیز کیوی حکومت کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ ’’اس نے فلسطینیوں کی نسل کشی سے توتے کی طرح آنکھیں پھیر رکھی ہیں۔ پارٹی نے مطالبہ کیا :’’امریکا نے دنیا بھر میں شہنشاہیت کا جو مکروہ سلسلہ قائم کر رکھا ہے، نیوزی لینڈ اس سے ناتا توڑ لے ۔نیز ریاست میں پانچ آنکھوں والے اتحاد (Five Eyes Alliance) نے جاسوسی کے جو اڈے کھول رکھے ہیں ، وہ بند کیے جائیں۔ ‘‘

ماوری پارٹی کا مطالبہ تھا کہ غزہ میں فوراً جنگ بندی کی جائے ۔اور نیوزی لینڈ حکومت کو چاہیے کہ وہ اسرائیل اور امریکا کے سفیروں کو ملک سے نکال دے۔ ان کو اسی وقت واپس لیا جائے جب غزہ میں جنگ بندی ہو جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قتل عام اور نسل کشی ایبوریجنل باشندوں ا سٹریلیا میں ا اور نیوزی لینڈ ایبوریجنل قوم میں ا سٹریلیا ا سٹریلیا کے ا سٹریلیا ا برطانیہ کے باشندوں کو سفید فاموں سفید فام ا کا قتل عام کی نسل کشی شاہ چارلس چاہتے ہیں چارلس سوم کرتے ہوئے کہ انگریز ممالک میں ا سٹریلوی کے خلاف ا انھوں نے کے اجداد اور دیگر کرنا پڑا ا ج بھی ا یہ ہے کہ قابض ہو اسی لیے جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہو جائے ہے کہ ا ہیں کہ قوم کی وجہ یہ قوم کے لیے ان قسم کی بھی ان ہے اور قتل کر کر دیا اور ان کے لیے اور اس

پڑھیں:

عام انتخابات 2024 میں ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا، پی ٹی آئی ویمن ونگ

اپنے بیان میں پی ٹی آئی بلوچستان کی خاتون رہنماء نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرکے فارم 47 کے ذریعے شکست خوردہ حکمرانوں کو ملک اور بلوچستان پر مسلط کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی خواتین رہنماؤں نے کہا ہے کہ سال 2024 کے عام انتخابات میں فارم 47 کے ذریعے شکست خوردہ عناصر کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا۔ عوام نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا۔ یہ بات انہوں پی ٹی آئی بلوچستان کی خواتین ونگ کی رہنماء زولیخہ مندوخیل و دیگر نے اپنے جاری بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرکے فارم 47 کے ذریعے شکست خوردہ حکمرانوں کو ملک اور بلوچستان پر مسلط کیا گیا۔ عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کامیابی دلائی، لیکن پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا، جو قابل مذمت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈیموتھ کرونا رتنے ریٹائرمنٹ کے بعد کون سی نئی اننگز کھیلیں گے؟
  • آسٹریلیا نے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا کو شکست دیکر سیریز اپنے نام کر لی
  • ہمارا اعلان پرامن پاکستان ادارے میں بڑی تیزی سے لوگ شمولیت کر رہے ہیں ،تسلیم راجپوت
  • عام انتخابات 2024 میں ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا، پی ٹی آئی ویمن ونگ
  • آسٹریلیا نے 14 سال بعد سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز جیت لی
  • روندو، 45 سالہ شخص نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی
  • مینڈیٹ چوری پر احتجاج پارلیمنٹ اور سڑکوں پر جاری رہے گا، عمر ایوب
  • تعلیم اور ہمارا مستقبل….!
  • گدھے کی پڑھائی لکھائی