اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان قدامت پسند معاشرہ ہے مگر ملک میں طلاق اور خلع کی شرح میں گزشتہ 5 سالوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

ہمارا وطن پاکستان ایک قدامت پسند معاشرہ رکھتا ہے۔ جہاں طلاق اور خلع کو نہ صرف اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں میں ملک میں طلاق اور خلع کی شرح میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں زیادہ خواتین اپنی شادیاں ختم کرنے کا انتخاب کر رہی ہیں اس لیے خلع کا استعمال ان دنوں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں پچھلے پانچ سالوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پچھلے چار سالوں میں خلع کے مقدمات کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔

اس حوالے سے ادارہ شماریات کے جاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار ریکارڈ کی گئی۔

کراچی میں سال 2020 میں کراچی کی فیملی کورٹس میں ازدواجی رشتہ ختم کرنے کے 5 ہزار 8 سو کیسز دائر ہوئے جبکہ 2024 میں 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے خلع اور طلاق کمزور خاندانی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔

دوسری جانب گیلپ پاکستان کی جانب سے سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت طلاق اور خلع کے معاملات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
مزیدپڑھیں:کراچی میں پارکنگ مفت کرنے کا فیصلہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میں طلاق اور خلع کی شرح میں

پڑھیں:

متحدہ عرب امارات میں شادی، طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق قوانین میں بڑی تبدیلی

ابوظہبی: متحدہ عرب امارات میں 15 اپریل سے وفاقی پرسنل اسٹیٹس قانون میں اہم تبدیلیوں کا اطلاق ہوگیا ہے، جن میں شادی، طلاق، بچوں کی تحویل اور ازدواجی زندگی سے متعلق کئی نئے اصول شامل کیے گئے ہیں۔

نئے قانون کے تحت خواتین کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اور اگر ان کے سرپرست انکار کریں تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں۔ اگر خاتون غیر ملکی مسلم ہو اور اس کے ملک کے قانون میں سرپرست کی اجازت لازمی نہ ہو تو شادی کے لیے سرپرست کی منظوری ضروری نہیں ہوگی۔

قانون کے مطابق شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، اور اگر میاں بیوی کے درمیان عمر کا فرق 30 سال سے زیادہ ہو تو شادی صرف عدالت کی منظوری سے ہی ممکن ہوگی۔

منگنی کو ایک قانونی وعدہ تصور کیا گیا ہے، لیکن اسے شادی نہیں مانا جائے گا۔ اگر منگنی ختم ہو جائے تو 25 ہزار درہم سے زائد مالیت کے تحائف واپس کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ شادی کے وعدے سے مشروط ہوں۔

ازدواجی گھر کے حوالے سے بھی قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیوی کو مناسب رہائش فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اور شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اپنے والدین یا دوسری شادی سے بچوں کو رکھ سکتا ہے اگر اس سے بیوی کو نقصان نہ ہو۔

بچوں کی تحویل کے معاملے میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اب تحویل کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، اور 15 سال یا اس سے زائد عمر کے بچے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ والد یا والدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

قانون میں ایسے افراد کے لیے بھی سخت سزائیں رکھی گئی ہیں جو بچوں کے ساتھ بغیر اجازت سفر کریں یا والدین کی ذمہ داریاں نظر انداز کریں۔ ایسی خلاف ورزیوں پر 5 ہزار سے ایک لاکھ درہم تک جرمانہ یا قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • وزن میں تشویشناک حد تک کمی؛ مداحوں کے اصرار پر کرن جوہر نے خاموشی توڑ دی
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پانچ روزہ دورے پر چین روانہ ہوں گے
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پانچ روزہ دورے پر چین روانہ ہوں گے
  • دل کے امراض میں تشویشناک اضافہ
  • لاہور کی فیملی عدالتوں میں طلاق کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ
  • متحدہ عرب امارات میں شادی، طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق قوانین میں بڑی تبدیلی
  • 2 ہفتوں میں ایسی خبریں آئیں گی جو کسی نے اتنے سالوں میں نہیں سنی ہونگی، آرمی چیف ملک کو معمول کی سطح پر لے آئے ہیں، فیصل واوڈا
  • دھناشری سے طلاق؛ مہوش سے دوستی! چہل کو آسمان پر پہنچا گئی، مگر کیسے؟
  • پنجاب میں گزشتہ سالوں کی نسبت رواں سال زیادہ گرمی پڑنے کی پیشگوئی
  • ظالم کار سوار نے زہریلی مٹھائی بانٹ دی، 3 بچے جاں بحق ،5 کی حالت تشویشناک