Jang News:
2025-02-10@14:06:03 GMT

ملک کے 21 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ملک کے 21 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق


ملک کے 21 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

انسداد پولیو وائرس پروگرام نے تصدیق کی ہے کہ بلوچستان کے 8 اضلاع کے علاوہ ملک کے 13 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

قومی ادارہ صحت کی لاہور کے سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

قومی ادارہ صحت اسلام آباد نے لاہور کے سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کردی ہے۔

پولیو وائرس کے نمونے جن 8 اضلاع میں پائے گئے ہیں اُن میں ژوب، نوشکی، لسبیلہ، حب، خضدار، نصیر آباد اور ڈیرہ بگٹی شامل ہیں۔

انسداد پولیو وائرس پروگرام کے مطابق ان اضلاع کے ماحولیاتی نمونے 8 سے 23 جنوری کے دوران حاصل کیے گئے تھے۔

پروگرام نے تصدیق کی کہ دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، ملتان، کراچی ایسٹ اور پشاور سمیت ملک کے دیگر 13 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس موجود ہے۔

جن اضلاع میں پولیو وائرس کے نمونے موجود ہیں، ان میں چارسدہ، صوابی، ٹانک، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، جھنگ، رحیم یار خان اور مظفر آباد شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں نمونوں میں پولیو وائرس کی کی تصدیق ملک کے

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلی کے بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ریڈیو کا استعمال ناگزیر

موجودہ صدی کا ایک تہائی حصہ مکمل ہونے کو ہے ۔ اِن 25 سالوں میں پاکستان نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ تواتر کے ساتھ کسی نہ کسی موسمیاتی تغیر کا سامنا کیا ہے ۔ جن میں مختصر دورانیہ کی شدید بارشیں ، شدید گرمی کی لہریں ، خشک سالی ، شدید سردی ، سموگ ، دھند وغیرہ شامل ہیں ۔

ان تغیرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال (آفات ) نے اکثر انسانی بحرانوں کو جنم دیا جن کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع ، گھروں اور انفراسٹرکچر کی تباہی اور معاشی زندگیوں میں خلل پڑا ۔ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ، 2022 میں پاکستان نے ریکارڈ توڑ بارشیں دیکھیں جو جرمن واچ نامی تھینک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق"1961 کے بعد اوسط سے 77 فیصد زیادہ تھیں ۔ مون سون کے دوران ایسے سیلاب آئے جن کی نظیر کم ہی ملتی ہے ۔ جنہیں عالمی درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے اور ہمالیائی گلیشیئرز کے پگھلنے نے مزید سنگین بنا دیا ۔ اسی سال پاکستان نے اپنی تاریخ کا پانچواں گرم ترین سال بھی دیکھا جس میں مارچ سے مئی کے درمیان چھ شدید ہیٹ ویوز آئیں ۔

ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات تباہ کن ثابت ہوئے ۔ تقریباً 3.3 کروڑ افراد متاثر ہوئے جن میں سے کئی مستقل طور پر بے گھر ہو گئے ۔ 13,000 کلومیٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئیں ، 22 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ، 3.8 ملین ہیکٹر زمین پر کھڑی فصلیں زیر آب آئیں اور 12 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ۔ ان نقصانات کی مجموعی مالیت 14.9 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی جبکہ بحالی اور تعمیر نو کے لیے کم از کم 16.3 ارب ڈالر درکار تھے"۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تباہ کاریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ ان بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جہاں فوری نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے وہیں ایسے حالات میں میڈیا کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ خصوصاً ریڈیو کا ۔ جس کا ادراک دنیا بھر کو ہے تبھی تو اِمسال اقوام متحدہ نے 13 فروری کو منائے جانے والے ریڈیو کے عالمی دن کا عنوان " ریڈیو اور کلائمیٹ چینج" رکھا ہے ۔

قدرتی آفات میں جب بجلی سمیت کمیونیکشن انفراسٹرکچر کام نہیں کرتا ہے تو اْس وقت صرف ریڈیو ہی وہ واحد میڈیم ہے جو ابلاغی خدمات سرانجام دے سکتا ہے اور دیتا ہے ۔ پاکستان کے معروضی حالات متقاضی ہیں کہ ہم ریڈیو جیسے ابلاغی میڈیم خاص کر سرکاری ریڈیو کو مضبوط کرتے ہوئے اس کا بھرپور استعمال کریں ۔ اس لیے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ریڈیو کی افادیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کرنے کے لیے ہم نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عدنان ملک سے ایک طویل نشست کی جس کی تفصیل قارئین کے لیے پیش خدمت ہے ۔

سوال: ڈاکٹر عدنان ملک، آج کل کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ اس مناسبت سے ہم اکثر ایک اصطلاح سنتے ہیں Climate Change Communication (موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ابلاغ) آپ اس اصطلاح کی کس طرح وضاحت کریں گے اور یہ معاشرے کے لیے کیوں اہم ہے؟

جواب : موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ابلاغ (Climate Change Communication) دراصل موسمیاتی تبدیلی، اس کے اسباب ، اثرات اور ممکنہ حل کے بارے میں عوام تک درست معلومات پہنچانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے ۔ اس کا مقصد عوام میں آگاہی پیدا کرنا ، سائنسی حقائق کو آسان انداز میں پیش کرنا اور افراد ، کمیونٹیز اور پالیسی سازوں کو عملی اقدامات کی ترغیب دینا ہے ۔ تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کو کم کیا جا سکے اور اس کے مطابق خود کو ڈھالا جا سکے ۔

یہ ابلاغ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک سماجی ، اقتصادی اور انسانی بحران بھی ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ اگر عوام کو موسمیاتی مسائل کے بارے میں درست معلومات فراہم کی جائیں تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں ۔ اپنی طرزِ زندگی میں پائیدار تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور حکومتوں پر مؤثر پالیسی سازی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں ۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی سے متعلق شعور اجاگر کر کے ہم اپنی قوم کو زیادہ محفوظ اور پائیدار مستقبل کی جانب گامزن کر سکتے ہیں ۔

سوال: کہا جا رہا ہے کہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جس کی وجہ سے روایتی میڈیا کے ادارے مشکلات کا شکار ہیں ۔ آپ کے خیال میں کیا پھر ریڈیو بھی غیر متعلق (obsolete) ہو رہا ہے یا اب بھی اس کی اہمیت برقرار ہے ؟

جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ابلاغ کے طریقوں میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اور روایتی ذرائع جیسے پرنٹ میڈیا اور حتیٰ کہ ٹیلی ویژن کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ تاہم اس کے باوجود ریڈیو آج بھی ایک طاقتور اور مؤثر ذریعہ ابلاغ ہے ۔ دیکھیںاگر ہم اس تمام دنیا میں ہونے والی تمام تر ترقی کے باوجود ریڈیو کے استعمال کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ وہ ممالک جو جدید ابلاغی ٹیکنالوجی میں ہم سے کہیں آگے ہیں وہاں بھی ریڈیو کا استعمال اپنے عروج پر ہے ۔

برطانیہ ہی کو لے لیں وہاں اس کام کی باقاعدہ انچارج باڈی Radio Joint Audience Research کے 24 اکتوبر 2024 کو جاری اعداد و شمار کے مطابق یوکے میں15 سال اور اس سے زائد عمر کی 88 فیصد آبادی یعنی 51 ملین برطانوی ریڈیو کے سامع ہیں اور ہر سامع ایک ہفتہ میں اوسطً20.5 گھنٹے ریڈیو سنتا ہے ۔ ذرا امریکہ کی صورتحال ملاحظہ ہو میں آپ کو امریکہ کے فیڈرل کمیونیکیشنز کمیشن کے 31 دسمبر 2024 کو جاری ہونے والے اعدادوشمار بتا رہا ہوں کہ امریکہ میں اس وقت 15485 ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیںجن میں 4383 میڈیم ویوو ، 6625 کمرشل ایف ایم اور 4477 ایجوکیشنل ایف ایم ہیں ۔ امریکن ایڈورٹائزنگ بیورو کے مطابق 12 سال اور اس سے زائد عمر کا ایک امریکی شخص دن میں اوسطً دو گھنٹہ اور29 منٹ ریڈیو سنتا ہے۔ 60 فیصد امریکیوں کے پاس گھروں میں ریڈیو سیٹ موجودہے ۔

84 فیصد بالغوں تک ریڈیو پہنچتا ہے اور امریکہ میں ریڈیو سامعین کی تعداد تقریباً 27 کروڑ ہے ۔ یعنی ترقی یافتہ ممالک میں بھی جہاں ڈیجیٹل میڈیا عام ہو چکا ہے ریڈیو اب بھی اپنی جگہ برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ اب اپنے ہمسائے بھارت میں ریڈیو کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں اس وقت 1319 ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 591 سرکاری، 388 نجی ایف ایم اور 521 کمیونٹی ریڈیو اسٹیشنز ہیں ۔ جبکہ سرکاری ریڈیو کے 754 ٹرانسمیٹر پورے بھارت میں موجود ہیں ۔ جن میں سے 122 میڈیم ویوو، 625 ایف ایم اور 7 شارٹ ویو کے ٹرانسمیٹرز کام کر رہے ہیں ۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اس وقت ملک میںریڈیو اسٹیشنز کی مجموعی تعداد297 ہے ۔ جن میں کمرشل ایف ایم کی تعداد 175 اور 60 نان کمرشل ایف ایم کام کر رہے ہیں ۔ جبکہ سرکاری ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد 62 ہے جن میں 40 ایف ایم اور 22 میڈم ویوز اسٹیشنز ہیں ۔ لہٰذا، یہ کہنا کہ ریڈیو متروک ہو رہا ہے بالکل درست نہیں ہو گا ۔ بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے امتزاج کے ساتھ جیسے کہ آن لائن اسٹریمنگ ، پوڈکاسٹس ، موبائل ریڈیو ایپس اور سمارٹ اسپیکرز کے ذریعے یہ مزید ترقی کر رہا ہے ۔

سوال: جیسا کہ ورلڈ ریڈیو ڈے 2025 قریب آ رہا ہے ، جس کا موضوع "ریڈیو اور موسمیاتی تبدیلی" ہے آپ کے خیال میں ریڈیو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی کے لیے ایک اہم ذریعہ کیوں ہے؟

جواب: بالکل درست ورلڈ ریڈیو ڈے 2025 کا موضوع "ریڈیو اور موسمیاتی تبدیلی"ہے ۔ یہ موضوع اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ریڈیو کس طرح موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ ریڈیو کی سب سے بڑی خوبی اس کی وسیع پہنچ اور بآسانی دستیابی ہے ۔ کم لاگت اور بجلی کے بغیر چلنے والے ریڈیو سیٹوں کی وجہ سے یہ معلومات کی ترسیل کا ایک قابلِ بھروسہ اور سستا ذریعہ ہے ۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی ، انٹرنیٹ اورٹی وی کی سہولت محدود ہوتی ہے۔ جو اکثر ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات جیسے کہ سیلاب ، گرمی کی لہریں اور خشک سالی کا سامنا کرتے ہیں ۔ چونکہ ریڈیو مقامی زبانوں اور ثقافتی تناظر میں سیدھے اور عام فہم انداز میں معلومات پہنچا سکتا ہے ۔ جس سے پیغام زیادہ مؤثر اور قابلِ فہم بن جاتا ہے ۔ اس لیے یہ ماحولیاتی تبدیلی اس کے اثرات اور اس سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے ۔

آفات سے پہلے ریڈیو عوام میں آگاہی پیدا کرتا ہے ۔ ابتدائی وارننگ سسٹم کے ذریعے خطرے کی پیشگی اطلاع دیتا ہے۔ احتیاطی تدابیر جیسے غذائی اشیاء، ادویات اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ جب آفت پیش آتی ہے تو یہ فوری طور پر محفوظ مقامات کی نشاندہی ، نقصانات کی اطلاعات اور امدادی کوششوں کی ہم آہنگی کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ متاثرین کے لیے نفسیاتی سکون فراہم کرنے اور فیلڈ میں موجود رضاکاروں اور حکومتی اداروں کے درمیان ایک رابطہ کار کے طور پر بھی کام کرتا ہے ۔

آفت کے بعد ریڈیو متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے مشورے فراہم کرتا ہے ۔ جیسے امدادی کیمپوں کی معلومات ، صفائی کے اصول اور نفسیاتی مشورے ۔ ریڈیو عوام کو نہ صرف آفات کے دوران مدد فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی زندگیوں میں بہتری لانے اور آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایک طاقتور پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے ۔ جس کی بدولت یہ ایک انتہائی قابلِ اعتماد ذریعہ اطلاعات ہے ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ریڈیو کی اہمیت کو تسلیم کریں اور اسے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں مؤثر ابلاغ کے لیے مزید مضبوط بنائیں تاکہ یہ سائنس ، پالیسی اور عوام کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار ادا کرتا رہے ۔

سوال: ابھرتے ہوئے ڈیجیٹل دور کو دیکھتے ہوئے آپ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق غلط معلومات اور شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنے میں ریڈیو کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: دیکھئے ڈیجیٹل دور میں جہاں معلومات کی ترسیل تیز اور وسیع پیمانے پر ہو رہی ہے ، وہیں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق غلط معلومات (Misinformation) اور شکوک و شبہات (Skepticism) بھی عام ہو گئے ہیں ۔ ایسے میں ریڈیو کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو مستند معلومات کو مؤثر انداز میں عوام تک پہنچا سکتا ہے ۔ ریڈیو کی ایک بڑی خوبی اس کی مقامی اور قابلِ اعتماد رسائی ہے ۔ بہت سے لوگ خاص طور پر دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں ابھی بھی خبروں اور معلومات کے لیے ریڈیو پر انحصار کرتے ہیں ۔ جب موسمیاتی تبدیلی جیسے حساس موضوعات کی بات آتی ہے تو ریڈیو سننے والے زیادہ تر ماہرین، سائنس دانوں اور مقامی تجزیہ کاروں کی آراء سننے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غلط معلومات کے مقابلے میں زیادہ مستند ہوتی ہیں ۔ مزید برآں ریڈیو دیگر میڈیا کے مقابلے میں زیادہ انٹرایکٹیو ہوتا ہے ۔ لوگ ریڈیو اسٹیشنز سے آسانی سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ فون کالز، میسجز یا سوشل میڈیا کے ذریعے براہِ راست پروگرام میں شامل ہو سکتے ہیں ۔

اپنے سوالات پوچھ سکتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور شکوک و شبہات دور کر سکتے ہیں ۔ یہ پہلو ریڈیو کو موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوع پر عوامی مکالمے (Public Dialogue) اور شعور بیدار کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بنا دیتا ہے ۔ جس سے حکومتوں اور اداروں پر بہتر ماحولیاتی پالیسیاں بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے ۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سائنسی حقائق کو عوام کے سامنے سادہ اور عام فہم انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جس سے وہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے اور اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں ۔ ریڈیو کی ایک اور خاصیت اس کا مقامی اور ثقافتی تناظر میں پیغام پہنچانے کی صلاحیت ہے ۔

چونکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہر علاقے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ اس لیے ریڈیو اسٹیشنز اپنے سامعین کو ان کے مخصوص ماحول اور روزمرہ زندگی کے مطابق معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔ جیسے کہ کسانوں کے لیے زرعی مشورے، شہروں میں گرمی کی شدت سے بچنے کے طریقے یا سیلاب سے متعلق احتیاطی تدابیر ۔ یعنی ریڈیو ایک ایسا ذریعہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق غلط معلومات اور شکوک و شبہات کے خلاف ایک مضبوط دفاع فراہم کر سکتا ہے ۔ یہ عوام کو مستند اور تحقیق پر مبنی معلومات فراہم کر کے، ان کی رائے کو مثبت اور سائنسی سمت میں تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ، جو کہ اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے نہایت ضروری ہے ۔

سوال: پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی کیوں کر اہمیت کی حامل ہے اور اس منظر نامے میں ریڈیو کیوں اہم ہے ؟

جواب: ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے ۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ اس کی عالمی کاربن اخراج میں شراکت انتہائی کم ہے ۔ ملک میں شدید گرمی کی لہریں، غیر متوقع بارشیں ، گلیشیئرز کے پگھلنے، سیلاب ، خشک سالی اور زراعت پر منفی اثرات جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں ۔ خاص طور پر 2022 کے تباہ کن سیلاب نے یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان مسائل کے حل کے لیے نہ صرف پالیسی سازی بلکہ عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے ۔ اور اس مقصد کے لیے ریڈیو ایک انتہائی اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں اپنی رسائی رکھتا ہے۔

پاکستان میںانٹرنیٹ صارفین کی تعداد فروری 2024 کے اعداوشمار کے مطابق 111 ملین ہے تقریباً 46 فیصد آبادی ۔ یعنی ابھی ملک کی آدھی سے زائد آبادی انٹرنیٹ سے دور ہے اور اسی طرح لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ٹیلی ویژن تک رسائی نہیں رکھتے ۔ اس کے علاوہ بجلی کی سہولت سے محروم یا اگر بجلی سہولت حاصل ہے تو اْس کے استعمال کی قیمت ادا کرنے سے قاصر افراد اور ہماری 37 فیصد کے قریب ناخواندہ آبادی کے ساتھ ساتھ لاکھوں کم تعلیم یافتہ افراد کے لیے ریڈیو ایک مؤثر ذریعہِ معلومات ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے ریڈیو کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہمیں مقامی کمیونٹیز کو ان کی زبان میں فوری اور قابلِ فہم معلومات فراہم کرنی ہوتی ہیں ۔

ریڈیو عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات ، ان سے بچاؤ کے طریقوں اور پائیدار طرزِ زندگی کے فروغ کے بارے میں آگاہی فراہم کر سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلوں کے دوران ریڈیو ایک اہم ہنگامی مواصلاتی ذریعہ کے طور پر کام کرتا ہے ۔ یہ عوام کو بروقت الرٹس فراہم کرنے ، محفوظ مقامات کی نشان دہی کرنے اور حکومت ا و ریسکیو اداروں کی ہدایات پہنچانے میں مدد دیتا ہے ۔

ماضی میں بھی جب پاکستان میں سیلاب اور دیگر آفات آئیں تو ریڈیو نے جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لہٰذاپاکستان جیسے ملک میں جہاں ماحولیاتی خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔ ریڈیو کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عوامی آگاہی پیدا کرنے، پالیسی سازوں اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے اور ہنگامی صورتحال میں ایک مؤثر مواصلاتی ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگر حکومت، میڈیا ادارے اور ماحولیاتی تنظیمیں مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ریڈیو کا مؤثر استعمال کریں تو یہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے ۔

سوال: پاکستان میں زیادہ تر ریڈیو اسٹیشن کمرشل ہیں جن کی اولین ترجیح اشتہارات ہیں ۔ وہ موسمیاتی تبدیلی کے مواد کو کیسے نشر کر سکتے ہیں جس کی کوئی اشتہاری قدر و قیمت نہیں ہے؟

جواب: بالکل آپ نے درست کہاکہ پاکستان میں زیادہ تر ریڈیو اسٹیشنز کمرشل بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ اشتہارات ان کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اشتہارات کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے یہ اسٹیشنز تفریحی اور تجارتی نوعیت کے پروگرامز کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ عوامی فلاح و بہبود خاص طور پر ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمرشل ریڈیو اسٹیشنز ماحولیاتی تبدیلی جیسے غیر تجارتی مواد کو کیسے نشر کر سکتے ہیں؟ اس مسئلے کا حل پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنرشپ اور کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلیٹی (CSR) کے تحت نکالا جا سکتا ہے ۔ حکومت، ماحولیاتی تنظیمیں اور کارپوریٹ سیکٹر مل کر ایسے اشتہاری ماڈلز بنا سکتے ہیں جو ماحول دوست کمپنیوں اور گرین انیشیٹوز کو فروغ دیں ۔

اگر کمپنیاں اپنی مصنوعات کو ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ جوڑیں تو وہ نہ صرف اپنا کاروبار بڑھا سکتی ہیں بلکہ ماحول دوست مہمات کو بھی سپورٹ کر سکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر سولر انرجی کمپنیاں ، الیکٹرک وہیکل مینوفیکچررز اور پلاسٹک ری سائیکلنگ ادارے ریڈیو پر اشتہارات دے کر اپنے برانڈ کو ماحولیاتی تبدیلی کے پیغام کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ وہ کمرشل ریڈیو اسٹیشنز کے لیے ماحولیاتی آگاہی کے پروگرامز نشر کرنے کی پالیسی اپنائے اور اس کے بدلے میں ان اسٹیشنز کو مالی معاونت یا ٹیکس ریلیف فراہم کرے ۔

دنیا کے کئی ممالک میں میڈیا ہاؤسز کو عوامی مفاد کے پیغامات نشر کرنے پر سبسڈی دی جاتی ہے اور پاکستان میں بھی اسی طرز کی پالیسی اپنائی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنجیدہ موضوعات کو ریڈیو کے تفریحی پروگرامز ، جیسے ٹاک شوز، ڈراموں اور میوزک شوز کے ذریعے مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ماحولیاتی پیغامات کو مقامی زبانوں ، کہانیوں اور دلچسپ فارمیٹس کے ذریعے نشر کیا جائے تو سننے والے زیادہ دلچسپی لیں گے اور اس طرح ماحولیاتی آگاہی کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا کمرشل ریڈیو اسٹیشنز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے مواد کو نظرانداز کرنے کے بجائے اسے اپنے اشتہاری ماڈل کا حصہ بنائیں تاکہ نہ صرف ان کی کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں بلکہ وہ ایک بڑے سماجی مقصد میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ حکومت، نجی شعبہ اور ماحولیاتی ادارے اگر مل کر کام کریںتو ریڈیو، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف شعور اجاگر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔

سوال: بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ریڈیو کو قومی آفات سے نمٹنے کے منصوبوں کا بنیادی جزو ہونا چاہیے ۔ ریڈیو کو ان حکمت عملیوں میں ضم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے آپ کیا اقدامات تجویز کریں گے؟

جواب: جی ہاں، ریڈیو کو قومی قدرتی آفات کے انتظامی منصوبوں میں ایک اہم جزو قرار دینا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ عوام تک معلومات پہنچانے کا ایک مؤثر اور قابل رسائی ذریعہ ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقے جہاں بجلی ،انٹرنیٹ اور ٹی وی کی سہولت محدود ہو وہاں ریڈیو ایک انمول وسیلہ بن سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ریڈیو کو قدرتی آفات کے انتظامی منصوبوں میں مؤثر طریقے سے شامل کیا جائے چند اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ریڈیو کو اپنے آفات کے انتظامی منصوبوں کا حصہ بنائیں ۔ اس کے لیے ایک قومی پالیسی تیار کی جانی چاہیے جس میں ریڈیو کو قدرتی آفات کے دوران عوامی آگاہی ، ایمرجنسی پیغامات اور دیگر اہم اطلاعات کے لیے ایک مرکزی وسیلہ تسلیم کیا جائے۔ اس پالیسی میں مختلف ریڈیو اسٹیشنز کو مخصوص ایمرجنسی پروٹوکولز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ آفات کے دوران فوری طور پر مستند معلومات نشر کر سکیں ۔

دوسرا قدم یہ ہے کہ ریڈیو اسٹیشنز کو قدرتی آفات کے بارے میں تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ اس نوعیت کے بحرانوں میں مناسب اور بروقت اطلاعات نشر کر سکیں ۔ اس کے علاوہ ریڈیو کی نشریات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مقامی زبانوں اور ثقافتوں کے مطابق پیغامات کو ڈھالنا ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ تیسرا قدم یہ ہے کہ ریڈیو کے ذریعے ایمرجنسی کمیونیکیشن نیٹ ورک تشکیل دیا جائے جس کے ذریعے حکومت اور امدادی ادارے ریڈیو کے ذریعے براہ راست عوام تک پہنچ سکیں ۔ اس میں آفات کے دوران عوام کو پناہ گاہوں، خوراک ، پانی اور دیگر ضروری سامان کی دستیابی کے بارے میں بروقت آگاہ کیا جا سکے ۔

اس کے علاوہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کے ہرگھر میں ریڈیو سیٹ کی موجودگی ہو ۔ اور کسی ایمرجنسی کے وقت ضروری نوعیت کا جو امدادی سامان تقسیم کیا جاتا ہے اس میں ایک ریڈیو سیٹ مہ بیٹری سیل کو ضرور شامل کیا جائے ۔ آخر میں حکومت اور ریڈیو اسٹیشنز کے درمیان باقاعدہ شراکت داری قائم کی جانی چاہیے تاکہ قدرتی آفات کے دوران دونوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ اور کوآرڈینیشن بہتر ہو سکے ۔ اس طرح ریڈیو نہ صرف قدرتی آفات کے دوران اہم معلومات فراہم کرے گا بلکہ اس کے ذریعے لوگ زندگی بچانے کے اقدامات بھی بہتر طور پر کر سکیں گے۔

سوال: موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ریڈیو پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

جواب: ریڈیو پاکستان ملک کا سب سے پرانا اور معتبر نشریاتی ادارہ ہے جس کا نشریاتی سیٹ اپ پورے ملک میں موجود ہے اور یہ وسیع رسائی کا حامل ہے ۔ سرکاری ادارہ ہونے کے ناطے یہ پبلک براڈ کاسٹنگ کا نمائندہ بھی ہے ۔ ریڈیو پاکستان کی سب سے بڑی خوبی اس کا لسانی اور جغرافیائی تنوع ہے جو اسے ملک کے ہر طبقے اور ہر علاقے تک رسائی فراہم کرتا ہے ۔ پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی ملک ہے ۔ جہاں اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور دیگر علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ ریڈیو پاکستان کی یہ خصوصیت کہ وہ مختلف زبانوں میں نشریات پیش کرتا ہے جو اسے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بناتی ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلی کا پیغام مؤثر تبھی ہوتا ہے جب وہ عوام کی اپنی زبان میں ان کے مخصوص ثقافتی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے پہنچایا جائے ۔

اگر کوئی پیغام کسی دیہاتی علاقے کے کسان یا ماہی گیر کو اس کی زبان میں اس کے مقامی مسائل کے تناظر میں سمجھایا جائے تو اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سندھ کے کاشتکاروں کے لیے سندھی زبان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور پانی کی کمی جیسے موضوعات پر نشر ہونے والے پروگرام زیادہ کارآمد ثابت ہوں گے ۔ جبکہ بلوچستان کے ماہی گیروں کے لیے بلوچی زبان میں سمندری درجہ حرارت میں اضافے اور مچھلیوں کی نسلوں پر اس کے اثرات پر گفتگو زیادہ مؤثر ہو گی ۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کا جغرافیائی تنوع بھی اسے دیگر میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں ایک منفرد مقام دیتا ہے ۔ بڑے شہروں کے علاوہ ریڈیو پاکستان دیہی اور دور دراز علاقوں تک بھی پہنچتا ہے ۔ جہاں بجلی ، انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن کی رسائی محدود ہو سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں ریڈیو پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے ۔ مزید برآں ماحولیاتی مسائل ہر علاقے میں مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور ریڈیو پاکستان ان مسائل کو مقامی تناظر میں اجاگر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب میں ہیٹ ویو اور پانی کی کمی کے مسائل نمایاں ہیں ۔ جبکہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے پگھلنے کے اثرات زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں ۔

ریڈیو پاکستان کی یہ صلاحیت کہ وہ ہر علاقے کے عوام سے ان کے اپنے مسائل پر بات کرتا ہے جو اسے دیگر میڈیا چینلز کے مقابلے میں زیادہ مؤثر بناتی ہے ۔ لہٰذا ریڈیو پاکستان کا لسانی اور جغرافیائی تنوع ایک عظیم اثاثہ ہے جو اسے ملک کے ہر طبقے اور ہر خطے تک ماحولیاتی تبدیلی کا پیغام پہنچانے کے قابل بناتا ہے ۔ تاہم موجودہ دور میں اسے کئی ادارہ جاتی اور تکنیکی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جو اس کی استعداد کو متاثر کر رہے ہیں ۔

ریڈیو پاکستان کو درپیش مالی مسائل ، پرانی ٹیکنالوجی اورPolitical will کی کمی جیسے چیلنجز اس کے مؤثر کردار کو محدود کررہے ہیں ۔ تاہم ان مسائل کے باوجود ریڈیو پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک مؤثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ۔ بشرطیکہ ان رکاوٹوں کو حکمت عملی کے ساتھ دور کیا جائے ۔ حکومت ، ماحولیاتی تنظیموں اور میڈیا پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ ادارے کی صلاحیت کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ریڈیو پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسے Own کریں اور اس کی نشریات میں ٹیکنالوجی اور مواد دونوں حوالوں سے جدت اور وسعت لائیں ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو سمجھ سکیں اور ان کے خلاف عملی اقدامات کر سکیں ۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ، فلو وائرس نےماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے
  • بلوچستان: پولیو مہم اختتام پزیر، 99 فیصد ہدف حاصل
  • امریکا میں فلو وائرس نے 15 سالہ ریکارڈ توڑ دیا
  • آئی ایم ایف مشن دورہ پاکستان پر الیکشن کمیشن اور وزارت قانون سے مشاورت کرےگا، وزارت خزانہ نے تصدیق کردی
  • میٹرک و انٹر کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کا آن لائن ڈیجیٹل سسٹم متعارف کروا دیا گیا
  • موسمیاتی تبدیلی کے بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ریڈیو کا استعمال ناگزیر
  • آزادکشمیر سمیت ملک کے 21اضلاع کے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق
  • پنجاب میں بادل برسانے والا سسٹم داخل
  • انٹر بورڈ ز کو آرڈینیشن کمیشن اور ڈیرہ تعلیمی بورڈ کے مابین معاہدے پر دستخط