الیکشن ٹربیونلزنے30فیصد درخواستوں پرفیصلےسنا دیئے،70فیصد تاحال زیرالتوا، فافن رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک(فافن ) کی جانب سے جاری کر دہ رپورٹ کے مطابق الیکشن ٹربیونلز نےجنوری 2025 میں مزید11انتخابی درخواستوں کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے الیکشن ٹربیونلزکی جانب سے کئے گئے فیصلوں کی تعداد112ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاہور کے3ٹریبونلز نے9،بہاولپور اور کراچی کے ٹریبونلز نے1،1درخواست کا فیصلہ کیا ہے فیصلہ شدہ11درخواستوں میں 6 پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تھیں،4 درخواستیں مسلم لیگ ن اورایک درخواست استحکامِ پاکستان پارٹی کےامیدوارکی تھی۔
فافن نےالیکشن ٹریبونلزسےمتعلق رپورٹ جاری کرتے لکھا کہ جنوری کےدوران الیکشن ٹربیونلزنےتمام 11 درخواستیں مسترد کردیں، پنجاب میں قانونی چیلنجزکےبعدانتخابی درخواستوں کےفیصلوں کی رفتارمیں بہتری آئی ہے
فافن رپورٹ کے مطابق بلوچستان کےٹریبونلز نے 51 میں سے 41 درخواستوں پر فیصلہ سنایا ہےپنجاب کےالیکشن ٹریبونلز نے 192 میں سے 45 درخواستوں پرفیصلہ دیا ہےسندھ کےٹریبونلزنے 83 میں سے17،خیبر پختونخواکےٹریبونلزنے42 میں سے 9 درخواستوں کےفیصلےکئےہیں۔
قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق 123 میں سے 25 درخواستوں پر فیصلہ ہو چکاہے صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 248 میں سے 87 درخواستوں کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، سپریم کورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کے38 فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ہے، بلوچستان سے24، پنجاب سے 10 اور سندھ سے 4 اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں۔
سپریم کورٹ نےاب تک 3 اپیلوں پر فیصلہ سنایا،ایک منظوراور2 مسترد کردی گئیں،الیکشن ٹربیونلزنے112 میں سے 108 درخواستیں مستردکیں، 3 درخواستین منظورہوئیں،الیکشن ٹربیونل نےایک درخواست درخواست گزارکی وفات کے باعث ختم کردی،بلوچستان اسمبلی کی 3 نشستوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: درخواستوں پر
پڑھیں:
26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے: جسٹس محمد علی مظہر
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ 26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق بنچز اختیارات کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی بنچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 20 صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کر دیا۔نوٹ میں جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بنچ لے سکتا ہے، کسی ریگولر بنچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، آئینی بنچ نے درست طور پر دو رکنی بنچ کے حکمنامے واپس لئے۔
نورا فتیحی کے سالگرہ ڈریس نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ 26 ویں ترمیم اس وقت آئین کا حصہ ہے، ترمیم میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، ہم اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کر سکتے، یہ درست ہے کہ ترمیم چیلنج ہو چکی اور فریقین کو نوٹس بھی جاری ہو چکے، کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست کا میرٹس پر فیصلہ ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جب تک ایسا ہو نہیں جاتا، معاملات اس ترمیم کے تحت ہی چلیں گے، آئینی تشریح کم از کم پانچ رکنی آئینی بنچ ہی کر سکتا ہے، کسی ریگولر بنچ کو اپنے اختیارات سےتجاوز نہیں کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے نوٹ میں مزید لکھا کہ دو رکنی بنچ کے ٹیکس کیس میں بنیادی حکمنامے واپس ہو چکے، بنیادی حکمناموں کے بعد کی ساری کارروائی بے وقعت ہے۔
رنبیر کپور کا نیا فیشن برانڈ ویلنٹائن ڈے پر لانچ کرنے کا اعلان
واضح رہے کہ آئینی بنچ نے جسٹس منصور اور جسٹس عقیل عباسی کے حکمنامے واپس لئے تھے۔