’دنیائے کرکٹ کے سب سے مہمان نواز، کشادہ دل اور کرکٹ لورز پاکستان کے تماشائی‘
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سہ فریقی سیریز کے پہلے میچ کی دو سری اننگز کے دوران کیوی کھلاڑی راچن رویندرا ماتھے پر گیند لگنے سے زخمی ہوگئے تھے۔ راچن کے ماتھے پر بال لگنے سے کٹ لگا تھا، انہیں 38 ویں اوور میں خوشدل شاہ کی شاٹ پر کیچ پکڑتے ہوئےگیند ماتھے پر لگی تھی۔
اس واقعے کے حوالے سے ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی راچن کے ماتھے پر گیند لگتی ہے تو گراؤنڈ میں موجود شائقین پریشان ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین اس ویڈیو پر مختلف تبصرے کر تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی مہمان نوازی دیکھنی ہے تو یہ کلپ دیکھیں۔
اسد آر چوہدری نے ’ایکس‘ پر اپنے تاثرات لکھتے ہوئے کہاکہ دنیائے کرکٹ کے سب سے ڈیسنٹ، مہمان نواز، کشادہ دل اور کرکٹ لورز پاکستان کے ’تماشائی‘ ہیں۔ کل جب میچ میں مہمان ٹیم ’نیوزی لینڈ‘ کے کھلاڑی کو چوٹ لگی تو پاکستان کی یقینی ہار دیکھتے ہوئے بھی سارے اسٹیڈیم میں تماشائی انتہائی بے چین اور پریشان ہوگئے، ہر طرف خاموشی چھا گئی، بھارتیوں کے لیے شرم کا مقام ہے، ایسےمہمانوں کے ساتھ کھلے دل والا رویہ دکھایا جاتا ہے۔
دنیائے کرکٹ کے سب سے ڈیسنٹ،مہمان نواز،کشادہ دل اور کرکٹ لورز۔۔
پاکستان کے”تماشائی”ہیں۔
کل جب میچ میں مہمان ٹیم “نیوزی لینڈ”کے کھلاڑی کو چوٹ لگی تو پاکستان کے یقینی ہار ہوتی ہونے کے باوجود سارے سٹیڈیم میں تماشائی انتہائی بے چین اور پریشان ہو گئے،ہر طرف خاموشی چھا گئی۔
بھارتیوں کے… pic.
— Asad R Chaudhry (@Asadrchaudhry) February 9, 2025
سوشل میڈیا انفلوئنسر پرویز سندھیلا نے تماشائیوں کے اس عمل کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ہے میرا اصل پاکستان‘
یہ ہے میرا اصل پاکستان
pic.twitter.com/LHn0VkHGQM
— Pervaiz Sandhila (@chsandhilaa) February 9, 2025
ایک اور ایکس صارف شاکر جُگن نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’ہمارے مہمان کو بال لگی اور ہر طرف آپ ہمارے چہرے پر پریشانی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم مہمان نواز قوم ہیں‘۔
ہمارے مہمان کو بال لگی اور ہر طرف اپ ہمارے چہرے پر پریشانی دیکھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہم مہمان نواز قوم ہیں۔
So Sad Moment.????????????
PakVsNz pic.twitter.com/VSJd0J0u3g
— Shakir juggan (@_Juggan2233) February 8, 2025
بشارت علی سندھو نے لکھا کہ ’قسم سے پاکستانی قوم کے دل بہت نرم ہیں‘۔
قسم سے پاکستانی قوم کے دل بہت نرم ہے ???????????? https://t.co/IeqaikMm4N
— بشارت علی سندھو (@cibex23) February 9, 2025
نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے بتایا ہے کہ راچن راویندرا کی ٹریٹمنٹ کی گئی تھی تاہم اب ترجمان کا کہنا ہے کہ راچن رویندرا اس وقت بہتر محسوس کررہے ہیں۔ ان کی پہلی ہیڈ انجری اسسمنٹ درست آئی ہے لیکن ان کے مزید اسسمنٹ پروٹوکولز جاری رہیں گے۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ کے مطابق راچن رویندرا کا کل جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیلنے کا امکان نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سہ ملکی سیریز کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے میزبان پاکستان کو 78 رنز سے شکست دے دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاکستان نیوزی لینڈ میچ پاکستانی شائقین دنیائے کرکٹ سہ ملکی سیریز سوشل میڈیا مہمان نواز نیوزی لینڈ کھلاڑی زخمی وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان نیوزی لینڈ میچ پاکستانی شائقین دنیائے کرکٹ سہ ملکی سیریز سوشل میڈیا مہمان نواز نیوزی لینڈ کھلاڑی زخمی وی نیوز دنیائے کرکٹ نیوزی لینڈ سوشل میڈیا مہمان نواز پاکستان کے کرکٹ کے
پڑھیں:
زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ
ڈاکٹر سلیم خان
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جہاں ملک بھر میں وقف بل کو لے کر شدید بے چینی پائی جارہی ہے وہیں سمراٹ اشوک کی سرزمین بہار میں بدھ مت کے پیروکار مقدس مہابودھی وہار پر ہندو کنٹرول کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ بودھ گیا میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ہندو رسومات بدھ مت کے اصولوں کی خلاف ہیں اس لیے وہار کا مکمل اختیار بودھ سماج کو دیا جائے ۔ مہابودھی وہار کا انتظام و انصرام 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے ۔ اس کے آٹھ رکنی کمیٹی میں ہندو اور بودھ نمائندوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے ، تاہم بودھ رہنما اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دے کر مندر کے مکمل انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تاریخی اعتبار سے یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سولہویں صدی میں ہندوؤں نے مندر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے خود ساختہ بودھ گیا مٹھ نے وہار کے دفاع اور تحفظ کی ذمہ داری ازخود اپنے اوپر اوڑھ لی اور اس کے تحفظ کی آڑ میں بودھوں کے سب سے مقدس عبادتگاہ پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔
اس معاملے میں حقیقت بالکل ہی برعکس ہے کیونکہ اس بودھ وہار کے تشخص کو انہیں ہندووں سے خطرہ لاحق رہا ہے ۔ ماضی میں جن لوگوں نے مہا بودھی وہار( گیا) کی حفاظت کا ڈھونگ کرکے اسے نگل لیا اب وقف املاک کے محافظ بن کر سامنے آئے ہیں اس لیے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت اور ارادے کیا ہیں؟ سپریم کورٹ میں معلق یہ ہندو بود ھ تنازع حتمی فیصلے کا منتظر ہے ۔ بودھ راہبوں نے گزشتہ ماہ اس معاملے میں بھوک ہڑتال کی تو پولیس نے انہیں زبردستی ہٹادیا۔مظاہرین کا الزام تھا کہ ہندو اکثریت کے زیر سایہ حکومت بدھ مت کے حقوق کو نظرانداز کر رہی ہے ۔ہندو سادھو سنتوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے ۔ وہ خود تو ایودھیا سے لے کر کاشی ، متھرا اور اب سنبھل تک جی بھرکے سیاست کرتے ہیں مگر مسلمان یا بدھ مت کے ماننے والے اپنے حقوق کی خاطر میدانِ عمل میں آئیں تو ان کے احتجاج کو سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے لیکن اس بار ان کی دال نہیں گلے گی کیونکہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے پرعزم مظاہرین کی یکجہتی میں مسلسل اضافہ ہو تا چلا گیا ۔
مرکزی حکومت میں شامل سماجی انصاف کے وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے گزشتہ ماہ مہابودھی مندر ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کرنے کے سلسلے میں پٹنہ جاکر وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کی تو اس معاملے کی آنچ این ڈی اے کے خیمے تک پہنچ گئی ۔ ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (آٹھاولے ) کے قومی صدر نے کے ملاقات کے بعد بتایا کہ میٹنگ کے دوران انہیں مثبت نتائج کا یقین دلایا گیا ہے ۔ مودی کے رام راج میں ہندووں کے ہاتھوں سے ایک بودھ وہار ر کا اختیار نکل جانا جسے انہوں نے عملاً مندر بنادیا ہے بی جے پی کے رائے دہندگان کو ناراض کرسکتا ہے ۔ مرکزی وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے اپنے دورے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ وہ بودھ گیا میں مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے بھکشوؤں کی جاری تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اور مہابودھی مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیر موصوف نے گوتم بدھ کے ورثے کو بچانے کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے آکاش لامہ جیسے بدھ بھکشووں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس عملاً شریک ہوئے ۔ اٹھاولے نے کہا کہ جب سے ناگارجن سورئی سوسائٹی نے مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے تحریک شروع کی ہے ، وہ اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (اٹھاولے ) کا مطالبہ ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی میں ”مہابودھی مندر ایکٹ” کو جلد از جلد منسوخ کرے ۔ اس مطالبے کو لے کر دہلی میں بھی مظاہرے کا اعلان ہوا تو اس کو کامیاب کرنے کے لیے رام داس اٹھاولے نے 5 لاکھ روپے کی فوری امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ان کے مطابق بدھ مت دلتوں کو انسانی حقوق فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، کیوں کہ یہ مذہب انفرادی وقار اور مساوات پر زور دیتا ہے ۔ اس لیے مہابودھی وہار ٹرسٹ کے صدر اور سکریٹری سمیت تمام عہدوں پر صرف بودھ مت کے پیروکاروں کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے نیزٹرسٹ کے تمام ارکان اسی مذہب کے پیروکار ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو مندروں اور بودھ وہاروں کا انتظام و انصرام اگر اس مذہب کے ماننے والے ہی کرتے ہوں تو وقف بورڈ میں غیر مسلم کا کیا کام ؟ اٹھاولے اس معاملے کو بودھوں تک پہنچایا تو راہل گاندھی نے وقف کو عیسائیوں تک پھیلا دیا ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وقف کے بعد اب آر ایس ایس کی توجہ چرچ کی زمینوں پر مرکوز ہو گئی ہے ۔
راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں کیتھولک چرچ بمقابلہ وقف بورڈ کے عنوان سے شائع مضمون کا حوالہ دیا ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیتھولک ادارے ملک میں تقریباً سات کروڑ ہیکٹیئر زمین کی ملکیت کے سبب سب سے بڑے غیر سرکاری زمین دار ہیں ۔راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ” وقف بل اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے لیکن مستقبل میں یہ دوسرے اقلیتی طبقات پر بھی حملے کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ ملک میں ایک جانب مسلم ، بودھ اور عیسائی اپنی عبادتگاہوں کے تحفظ میں بیدار ہورہے ہیں اور سکھ اور جین برادریاں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہ ورہیں دوسری جانب ہندو اپنے مندروں میں خود شودروں کو آنے سے روک رہے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا آ بھی جائے تو مندرکے احاطے کو گنگا جل میں گائے کا پیشاب ملا کر مندر کو پاک کررہے ہیں۔ یہ معاملہ اب غیر ہندووں یعنی ہیما مالنی یا شودروں تک محدود نہیں ہے بلکہ کنہیا کمار جیسے بھومی ہار یعنی کاشتکار برہمن تک پہنچ چکا ہے ۔
بہار ی نوجوانوں کا مسائل لے کر جب کنہیا کمار سڑکوں پر اترے اور بیروزگار ی کے خلاف ریاست گیرمہم کے تحت ”نقلِ مکانی روکو، روزگار دو” یاترا شروع کی تو بی جے پی بے چین ہوگئی۔ مہم کے دوران انہوں نے سہرسہ ضلع کے بنگاؤں میں بھگوتی استھان مندر کے اندر خطاب کیاتو انہیں روایتی پگڑی اور مالا پہنا کر اعزاز دیا گیامگر وہاں سے جانے کے بعد وارڈ کونسلر کے نمائندے امت چودھری مندر نے ”گنگا جل” سے مندر کو دھلوایا ۔ اس شرمناک حرکت کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ کنہیا اعلیٰ ذات کے تو ہیں مگران کے ملک مخالف بیانات کووہ نہیں بھولے ۔ یعنی جے این یو کے متنازعہ بیانات کو معاف نہیں کیاجاسکتا۔ بہار کے سانحہ کواگر انتخاب سے جوڑ کر نظر انداز کردیں تب بھی راجستھان کے الگڑ میں کانگریس کے دلت رہنما ٹیکارام جولی کے رام مندر کے پران پرتشٹھا (افتتاحی ) میں حصہ لینے کی مخالفت کا کیا کریں گے ؟
بی جے پی کے گیان دیو آہوجا نے ٹیکا رام جولی کے مندر میں آجانے سے ناراض ہوکر اسے گنگا جل سے پاک کیا ۔ اس شرمناک واقعہ پر راہل گاندھی نے لکھا ،’یہ بی جے پی کی دلت مخالف اور منوادی سوچ کا ایک اور نمونہ! بی جے پی مسلسل دلتوں کی توہین اور آئین پر حملہ کرتی ہے ‘۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ آئین کا احترام ہی نہیں، اس کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔مودی جی، ملک آئین اور اس کے اصولوں کے مطابق چلے گا، نہ کہ اس منوسمرتی کے تحت ، جو بہوجنوں کو کم درجہ کا شہری سمجھتی ہے ‘۔بی جے پی رہنما نے اپنی اس غلیظ حرکت کا ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عمل میں ذات پات کا پہلو نہیں تھابلکہ کانگریس رہنما چونکہ رام کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں اس لیے انہیں ایسے پروگراموں میں شامل ہونے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے ۔اس طرح بی جے پی نے رام پر اپنی مونو پولی بنالی ۔
گیان دیو آہوجا کے مطابق کانگریس پچھلے سال ایودھیا میں رام مندر پران پرتشٹھا ن کی تقریب کا بھی "بائیکاٹ کیا تھا اور ان کا یہ قدم اس نقطہ نظر کی وجہ سے ہے ناکہ جولی کے دلت ہونے کے سبب لیکن اگر ایسا ہے گنگا جل چھڑک کر پاک کرنے کا کیا مطلب ؟ بی جے پی کا ساراجھوٹ مہاراشٹر کے دیولی میں واقع رام مندر میں کھل گیا ۔ وہاں ان لوگوں نے پچھلے 40 سالوں سے اس مندر میں درشن کے لیے جانے والے سابق بی جے پی رکن پارلیمان رام داس تڑس کو اندرجانے سے روک دیا۔ اس سال رام نومی کے موقع پر مندرکے ٹرسٹی اور پجاری نے انہیں برہمن نہ ہونے کے سبب اندر کے حصے میں آنے سے منع کردیا۔ آگے چل کر مندرانتظامیہ نے اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بعد معافی تو مانگی مگر چھوت چھات کی ذہنیت کا اظہار ہوچکا تھا ۔ رام داس تڑس نے یہ الزام بھی لگایا کہ کسی زمانے میں اس مندر کے پاس دو سو ایکڑ کھیتی تھی جو اب گھٹ کر پچاس ایکڑ بچی ہے ۔ اس ٹرسٹ کے ہندو ارکان جب اپنے ہی مندر کی تین چوتھائی زمین بیچ کر کھا گئے تو اسی طرح کے ہندو وقف بورڈ میں آکر مسلم املاک کا تحفظ کیسے کریں گے ؟ سچ تو یہ ہے بی جے پی ایک لینڈ مافیا ہے اور اس سے مندر، مسجد، گرجا اور بودھ وہار سبھی خطرے میں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔