اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اس وقت پاکستانی روپے کی قدر انتہائی گر چکی ہے اور ایک امریکی ڈالر 280 روپے کے لگ بھگ ہے قیام پاکستان کے وقت یہ تناسب کیا تھا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں آنے والی گراوٹ کی وجہ سے عوام شدید ترین مہنگائی کا بوجھ برداشت کیے ہوئے ہیں۔ یوں تو زباں زد عام یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت میں آگ لگ جاتی ہے مطلب بڑھ جاتی ہے مگر درحقیقت مہنگائی کا دارومدار عالمی کرنسی ڈالر پر منحصر ہوتا ہے۔

آج اگر آپ کی جیب میں 280 روپے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ ایک امریکی ڈالر کے مالک ہیں لیکن قومی کرنسی کی یہ بے قدری ہمیشہ سے نہیں تھی۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستانی روپے ڈالر کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں تھا۔

پاکستان 14 اگست 1947 کو قائم ہوا۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر کی پاکستانی کرنسی میں مالیت 3 روپے 31 پیسے تھی۔ وہ نوجوان نسل جو ہر گھنٹے بعد ڈالر کی قیمت بڑھتے دیکھتی ہے۔ اس کے لیے یہ بات کسی حیرت سے کم نہ ہوگی کہ ڈالر کی قیام پاکستان کے وقت کی مالیت تقریباً ڈیڑھ دہائی تک برقرار رہی۔

سال 1960 میں امریکی ڈالر کی قیمت 4 روپے 76 پیسے رہی جب کہ 10 سال بعد 1970 میں ایک ڈالر 9 روپے 52 پیسے کا ہو گیا تھا۔ ایک اور حیرت انگیز امر کہ 1970 سے 1980 تک ایک دہائی کے دوران ڈالر کی مالیت میں صرف 38 پیسے کا ہی اضافہ ہوا اور 1980 میں ایک ڈالر 9 روپے 90 پیسے میں دستیاب تھا۔

1990 میں ڈالر بڑھ کر 21.

71 روپے کا ہو گیا۔ 1998 میں پاکستانی ایٹمی تجربات کے بعد لگنے والی پابندیوں کے باعث ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑی اور نئے ہزاریے کے آغاز 2000 میں ایک امریکی ڈالر کی مالیت 51 روپے 90 پیسے کے برابر ہو گئی۔

2010 میں یہی ڈالر 85 روپے 50 پیسے جب کہ 2020 میں 160 روپے 50 پیسے تھا۔ تاہم اس کے بعد اگلے دو سال میں ڈالر کی قدر میں اتنی تیز رفتاری سے اضافہ ہوا کہ 2022 میں یہ 300 روپے پاکستانی کے لگ بھگ پہنچ چکا تھا۔ تاہم پھر حکومتی اقدامات کے باعث اب ڈالر 278 روپے 96 پیسے ہے۔

ماہرین معاشیات قیام پاکستان کی ابتدا میں روپے کی قدر میں استحکام کی ایک بڑی وجہ پاکستانی روپے کی قدر برطانوی پاؤنڈ سے منسلک ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جس

کی وجہ سے لگ بھگ چوتھائی صدی تک اس کی قدر میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔
اس کی دوسری بڑی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معیشت آج کی طرح غیر ملکی کرنسی پر انحصار نہیں کرتی تھی۔


مزیدپڑھیں:سرکاری ملازمین کیلئے بُری خبر

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قیام پاکستان کے وقت ایک امریکی ڈالر پاکستانی روپے روپے کی قدر کی قدر میں ڈالر کی کی قیمت

پڑھیں:

صدر زرداری کا دورہ چین کتنا مثبت اور کارآمد رہا؟

صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 4 سے 8 فروری چین کے سرکاری دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران صدر زرداری کا چینی حکومت کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا اور دونوں ملکوں نے انسداد دہشتگردی، دفاع، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ دوطرفہ تعلقات کو مجروح کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔

اس دورے سے متعلق جاری ہونے والے دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیے کو اگر دیکھا جائے تو اُن میں دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کی گئی ہے جو اس دورے کی کامیابی دکھائی دیتی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں اور اس میں خلل ڈالنے یا کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی۔ چین پاکستان باہمی تعاون پر مبنی چہار موسمی تزویراتی شراکت داری تاریخ اور عوام کا انتخاب ہے اور اسے دونوں ممالک میں زندگی کے تمام شعبوں کی طرف سے وسیع حمایت حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے سے متعلق بیان پر چین کا ردعمل سامنے آگیا

پاکستان دفتر خارجہ کی طرف سے بارہا اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ چین کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ بالکل اُسی طرح سے اس مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، چین کے خارجہ تعلقات کی پالیسی میں ایک ترجیح اور خصوصی اہمیت کا حامل ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھا اور ایک دوسرے کی حمایت کی ہے اور سٹریٹجک باہمی اعتماد اور عملی تعاون کو گہرا کیا ہے۔ پاکستانی سفارتی اُمور کے ماہرین اس دورے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ایم ایل ون پر پیشرفت سے سی پیک فعالی کا پتا چلے گا: ایمبیسیڈر مسعود خالد

13 سال تک چین میں پاکستان کے سفیر رہنے والے ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک اہم پراجیکٹ پاکستان میں ریلوے لائن کو دو رویہ کرنا ہے جسے ایم ایل ون کہتے ہیں۔ صدر زرداری کے دورۂ چین سے اگر اس منصوبے پر پیشرفت ہوتی ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ سی پیک جو کُچھ عرصے کے لیے غیر فعال رہا وہ اب دوبارہ سے فعال ہونے جا رہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس دورے کے دوران دونوں مُلکوں کے درمیان جو پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے وہ بہت مثبت ہے۔ دونوں مُلکوں کی جانب سے ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ نہیں ڈال سکتا یہ ایک اچھی پیشرفت ہے۔

مزید پڑھیں: پاک چین صدور ملاقات کا اعلامیہ جاری، سی پیک، دفاع سمیت کئی اہم امور پر اتفاق

زرداری صاحب سربراہِ مملکت ہیں اور چین میں اُن کو سربراہِ مملکت کا پورا پروٹوکول دیا گیا۔ اُن سے قبل وزیراعظم نے دورہ چین کیا تھا اور اب صدرِ مملکت نے کیا ہے۔ چینی شہریوں کی حفاظت کا مسئلہ چین کے لیے بہت اہم ہے اور جب اُن کے شہری یہاں جاں بحق ہوتے ہیں تو وہاں اُن کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھتا ہے، اس لیے چینی حکومت نے اپنے شہریوں کے جاں بحق ہونے کے حوالے سے بیانات بھی جاری کیے لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی خلل آیا، مختلف ممالک کے درمیان اس طرح کی اونچ نیچ لگی رہتی ہے۔ بحیثیت مجموعی صدر زرداری کا دورہ چین بہت مثبت رہا۔

پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت سب سے اہم، ملک ایوب سنبل

بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا سے وابستہ پاکستانی صحافی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ نگار ملک ایوب سنبل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری کا دورۂ چین بہت اچھا اور مثبت رہا اور اِس دورے سے پاکستان اور چین کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے جو اعتماد کی فضا میں کمی دیکھنے کو آ رہی تھی، اُس کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

اُنہوں نے کہا کہ اس وقت چین کا پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ، پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکیورٹی ہے۔ خاص طور پر کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے نے چین میں اس مسئلے کو بہت اُجاگر کیا ہے، پہلے چینی حُکام اس معاملے پر بات نہیں کرتے تھے لیکن اب اُنہوں نے کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے، اور اب چینی حکومت کا پاکستان سے سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ یہاں کام کرنے والے چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

مزید پڑھیں: پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ

ملک ایوب سنبل نے کہا کہ دو مُلکوں کے تعلقات میں اُس وقت تک پیشرفت نہیں ہو سکتی جب تک پہلے سے موجود معاہدات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ صدر زرداری کے دورۂ چین میں مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط تو کیے گئے ہیں لیکن اصل مسئلہ پرانے معاہدات پر عمل درآمد ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صدر زرداری خود تو چین آ گئے لیکن بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں امریکی صدر کی جانب سے دیے گئے ناشتے میں شریک ہوئے جس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان دونوں ملکوں کے مِل کر چلنا چاہتا ہے۔ بظاہر دو متحارب قوتوں کے ساتھ مِل کر چلنا بہت احتیاط اور توازن کا متقاضی ہے اور یہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی طے کرے گی کہ وہ کس طرح سے اِس تعاون کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

سی پیک کے حوالے سے مسائل پاکستان کی سائیڈ پر ہیں، ڈاکٹر طلعت شبیر

انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں چائنہ ڈیسک کے سربراہ اور سی پیک سے متعلقہ معاملات کے ماہر ڈاکٹر طلعت شبیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری کا دورہ چین سی پیک کے حوالے سے خاصا خوش آئند ہے۔ پاکستان اور چین نے دورے کے حوالے سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں پہلے انہوں نے بین الاقوامی صورت حال جیسا کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی، یوکرین جنگ، اس کے بعد علاقائی صورتحال جیسا کہ افغانستان اور اس کے بعد دو طرفہ معاملات پر بات چیت کی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور چین کے مابین مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط

چین پاکستان میں اب سی پیک کا اپ گریڈڈ ورژن لانے جا رہا ہے جس میں لائیولی ہڈ کوریڈور، گرین کوریڈور جیسے منصوبے شامل ہیں، چین کو پاکستان میں سیکیورٹی تحفظات تو ہیں اور اس وقت مسائل پاکستان کی طرف ہیں جن میں سیکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے ساتھ ہی ساتھ جو سرکاری امور سے متعلق ہیں۔ جبکہ چین تو پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کا خواہاں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف زرداری پاکستان چین چین پاکستان دورہ چین

متعلقہ مضامین

  • زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں آج ڈالر کتنا مہنگا ہوا؟
  • سونے کی قیمت میں 4000 روپے کا بڑا اضافہ
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج: کاروبار کا ملا جلا رجحان
  •  عالمی مالیاتی اداروں کا قیام اور محکوم اقوام کی آزادی
  • قیام پاکستان کے وقت ڈالر کتنے روپے کا تھا؟
  • ترکیہ جانے والے پاکستانیوں کے لیے اہم خبر
  • تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد سونے کی قیمت میں کمی
  • جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ڈالر کتنا سستا تھا؟
  • صدر زرداری کا دورہ چین کتنا مثبت اور کارآمد رہا؟