ریاض میں لیپ 2025 کا آغاز، دنیا بھر سے ٹیکنالوجی ماہرین کی شرکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ریاض میں آج سے مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی ایونٹ لیپ 2025 کا آغاز ہوگیا ہے، جو جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹل انقلاب کے حوالے سے دنیا کے سب سے نمایاں کانفرنسز میں سے ایک ہے۔ یہ ایونٹ ریاض انٹرنیشنل کنونشن اینڈ ایگزیبیشن سینٹر میں منعقد ہورہا ہے اور 12 فروری تک جاری رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں ریاض میٹرو منصوبے کا افتتاح، سعودی عرب کے ٹرانسپورٹ نظام میں انقلابی قدم
ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اس ایونٹ کا مقصد مستقبل کے رجحانات کو سمجھنا، جدید حل تلاش کرنا اور عالمی سطح پر شراکت داریوں کو فروغ دینا ہے۔ لیپ 2025 میں دنیا بھر سے مشہور ٹیکنالوجی کمپنیوں، سرمایہ کاروں، اسٹارٹ اپس اور ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔
کانفرنس میں مصنوعی ذہانت، انٹرنیٹ آف تھنگز، بگ ڈیٹا، بائیوٹیک، اور بلیک چین جیسی جدید ٹیکنالوجیز پر روشنی ڈالی جائے گی، جبکہ دنیا کے نامور ماہرین ان شعبوں میں ہونے والی پیشرفت اور ان کے اثرات پر گفتگو کریں گے۔ اس کے علاوہ لیپ 2025 میں مختلف ورکشاپس، سیمینارز اور پینل ڈسکشنز کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے، جہاں نئی اختراعات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والے چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائےگا۔
اس ایونٹ کی ایک خاص بات (روکٹ فیول) اسٹارٹ اپ مقابلہ ہے، جس میں دنیا بھر سے 120 بہترین اسٹارٹ اپس شرکت کررہی ہیں۔ اس مقابلے میں جدید کاروباری آئیڈیاز پیش کیے جائیں گے، اور کامیاب اسٹارٹ اپس کو ایک ملین ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔ یہ مقابلہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ عالمی سطح پر اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرےگا۔
یہ بھی پڑھیں ریاض، سعودی عرب میں پاکستانی لباس کی مقبولیت، بڑھتا ہوا رجحان
لیپ 2025 جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی نمایاں کررہا ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے عالمی ماہرین، سرمایہ کار اور نئی نسل کے انوویٹرز ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر نہ صرف مستقبل کی ٹیکنالوجیز پر بحث کررہے ہیں بلکہ ایسی شراکت داریاں بھی قائم کررہے ہیں جو دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی راہیں ہموار کریں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’لیپ 2025‘ wenews ٹیکنالوجی ماہرین جدید ٹیکنالوجی ریاض وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لیپ 2025 ٹیکنالوجی ماہرین جدید ٹیکنالوجی ریاض وی نیوز جدید ٹیکنالوجی دنیا بھر لیپ 2025
پڑھیں:
کیا بحریہ ٹاؤن کےلیے زمینوں پر قبضہ میں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن نے ملک ریاض کا ساتھ دیا؟
بحریہ ٹاؤن کراچی کی غیر قانونی منتقلی کیسے ہوئی اور یہ معاملہ اتنے برس بعد نیب کو کیوں یاد آیا؟ سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کس زمرے میں آتی ہے؟ یہ اور اس سے جڑے بہت سے سوالوں کے جواب امید ہے اس تحریر میں مل سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:اب بحریہ ٹاؤن کراچی کا کیا بنے گا؟
بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ نیب نے ریفرنس احتساب عدالت کے منتظم جج کے روبرو جمع کرادیا ہے۔ اس ریفرنس میں سرِ فہرست بحریہ ٹاؤن ٹائیکون ملک ریاض حسین کا نام شامل ہے۔ دیگر ناموں میں ملک ریاض حسین کے فرزند احمد علی ریاض، زین ملک، بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ، اس وقت کے وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ، اس وقت کے صوبائی وزیر اور چیئرمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی شرجیل انعام میمن، اس وقت کے سینیئرممبر بورڈ آف ریونیو احمد بخش ناریجو، اس وقت سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن ثاقب احمد سومرو، سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن محمد جاوید حنیف خان اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آغا مسعود عباس سمیت 33 نام شامل کیے گئے ہیں۔
نیب نے احتساب عدالت کے منتظم جج کے روبرو نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 18 کے سب سیکشن g کا سب سیکشن 16 کا سب سیکشن e اور 24 کا سب سیکشن b کے تحت ریفرنس جمع کرایا ہے۔
اس نیب ریفرنس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی پر الزام ہے کہ اس پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹی کی ڈسٹرک ملیر کی زمین دیھ بلہاری، لانگھیجی، کنکر، کھرکھارو اور کاٹھور پر مشتمل ہے۔ اس سے ملزمان ملک ریاض حسین سمیت 8 ملزمان نے فائدہ اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں:نیب نے بحریہ ٹاؤن کراچی میں غیر قانونی الاٹمنٹس کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کردیا
2013 میں اس وقت کے ڈی جی ملیر محمد سہیل نے بحریہ ٹاؤن کی سڑکوں کے نیٹ ورک کا معائنہ کرایا تھا، اسی سال سندھ اسمبلی نے ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل 2013 پاس کیا، جس کے تحت ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں بحریہ ٹاؤن کی زمین کو تحفظ فراہم کیا گیا، جس کے بعد بحریہ ٹاؤن کراچی کے نام سے اشتہارات لگنا اور رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا گیا۔
5 نومبر 2011 کو شرجیل انعام میمن کی جانب سے زمین اور روڈ پلان سے متعلق سمری وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو پیش کی گئی، جسے اسی دن نہ صرف قائم علی شاہ نے منظور کر دیا بلکہ بحریہ ٹاؤن کے فرنٹ مینز نے ملیر ڈسٹرک ٹھٹھہ میں زمینیں خریدنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا، تا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو ایم ڈی اے کی قیمتی زمین سے تبدیل کیا جا سکے۔
دسمبر 2013 کو سابق ڈی جی، ایس بی سی اے منظور قادر نے بحریہ ٹاؤن کی بکنگ کی اجازت کی درخواست منظور کی، جو کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قانون کی خلاف ورزی تھی۔
باوجود اس کہ کے ایس بی سی اے کے ماتحت افسران نے اکتوبر 2013 میں بحریہ ٹاؤن کی بکنگ اور غیر قانونی اشتہارات کے جاری کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔
دسمبر 2013 میں سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو احمد بخش ناریجو نے ڈسٹرک ملیر کے 43 دیھ کو ایم ڈی اے میں شامل کرنے کا غیر قانونی نوٹس جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں:ففٹی شیڈز آف ملک ریاض
اسی ماہ سابق ڈی جی، ایم ڈی اے محمد سہیل نے ایم ڈی اے ریگولیشن میں زمین کی ایڈجسٹمنٹ یا تبدیلی کے قانون کے لیے سمری دی اور اسے شرجیل انعام میمن نے منظور کر لیا۔
اگلے روز سابق ڈی جی ایم ڈی اے نے پبلک نوٹسز اخبارات میں اشتہارات چھپوا کر زمین کی منتقلی سے متعلق درخواستیں طلب کر لیں، سابق ڈائرکٹر انفورسمنٹ اینڈ اسٹیٹ ایم ڈی اے ضیاالدین صابر نے جنوری 2014 میں 19 دیھ کی سرکاری زمین کو مخصوص کرنے کے لیے ممبر لینڈ یوٹیلائزیشن کو خط لکھا، جس میں وہ 5 دیھ بھی شامل تھے جہاں بحریہ ٹاؤن کراچی لانچ ہوا۔
جنوری 2014 میں زمین کی منتقلی سے متعلق بحریہ ٹاؤن نے متعدد درخواستیں ایم ڈی اے کو دیں، جن کی تصدیق کے لیے متعلقہ مختیار کار اور اسٹنٹنٹ کمشنرز نے برق رفتاری سے سابق ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد ارسال کیں اور انہوں سابق ڈی جی ایم ڈی اے محمد سہیل کو بھیج دی ۔
23 جنوری 14 کو 14 ہزار 617 ایکڑ زمین ایم ڈی اے کے لیے مختص کردی گئی، جبکہ زمین کی منتقلی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہو چکی تھی۔ اسی دن پیش کردہ سمری بھی منظور کردی گئی۔
24 جنوری 2014 کو سابق سیکرٹری لینڈ یوٹیلائزیشن ثاقب احمد سومرو نے سابق ڈپٹی کمشنر ملیر کو ریزرویشن لیٹر جاری کیا، جس میں مختص کردہ زمین کے حوالے سے کوئی شرط درج نہیں کی گئی۔ اسی دن سابق ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ ایم ڈی اے محمد صدیق ماجد نے سروے کے بنا 43 میں سے 32 دیھ کے بحریہ ٹاؤن کے ماسٹر پروگرام کی عبوری منظوری دی۔
ڈائریکٹر انفورسمنٹ اینڈ اسٹیٹ ایم ڈی اے ضیاالدین صابر نے سرکاری زمین کو نجی زمین سے تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی، جسے ایم ڈی اے بورڈ نے منظور کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں:ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کراچی سے کتنے کھرب روپے کمائے؟ دنگ کردینے والی تفصیلات سامنے آگئیں
26 جنوری 2014 کو بحریہ ٹاون نے میڈیا کے ذریعہ مختص زمین کو ظاہر کیا کہ یہ وہی جگہ تھی جسے 23 جنوری کو ایم ڈی اے کے لیے مختص کیا گیا تھا اور 24 جنوری کو زمین کی منتقلی کی گئی تھی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹاؤن پلانگ ایم ڈی اے نشاط علی رضوی نے 28 جنوری 2014 کو بحریہ کے افسران کو سرکاری زمین منتقلی کا لیٹر جاری کیا۔ سابق لینڈ ایکوزیشن آفیسرز ناصر قائمخانی اور پرویز حنیف نے 30 جنوری 2014 کو سرکاری زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنا شروع کی۔
ملزمان نے ملی بھگت کرکے ابتدائی طور ہر 7220 ایکڑ سرکاری اراضی غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن منتقل کی، مذکورہ زمین کی تبدیلی کرتے ہوئے سپریم کورٹ سمیت دیگر اداروں کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی۔
سپریم کورٹ نے 5 اپریل 2012 کے آرڈر میں آبزرویشن دی تھی کہ پوری حکومتی مشینری نے ملکر بحریہ ٹاؤن کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچایا۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ نے یکم اگست 2016 کے حکم نامے میں بحریہ ٹاؤن کو 12 ہزار 156 اعشاریہ 964 ایکڑ سے باہر تجاوز کرنے سے روکا تھا، لیکن دسمبر 2018 کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 25 ہزار 601 اعشاریہ 213 ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے تعمیرات کی، جس میں 23 ہزار 936 اعشاریہ 34 ایکڑ زمین ضلع ملیر کراچی اور 1664.875 ایکڑ ڈسٹرکٹ جام شورو کی ہے، جو بحریہ ٹاؤن کی مقررہ حد سے زیادہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں:بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے میں سے کتنی رقم وفاق اور کتنی سندھ کو مل چکی ہے؟
سپریم کورٹ نے 5 اپریل 2018 کے حکم نامے میں حکومتی مشینری کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو زمین کی الاٹمنٹ کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، 2 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں اصل قبضہ شدہ زمین کی حدود سے متعلق پلان جمع کرایا گیا تھا، بحریہ ٹاؤن کے ہزاروں الاٹیز کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ یہ رقم 16896 ایکڑ زمین قبضہ لینے کی قیمت کے طور پر جمع کرانے کا حکم تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو پابند کیا تھا کہ وہ 16896 ایکڑ سے باہر کے الاٹیز کو متبادل زمین یا معاوضہ ادا کرے گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ملزمان کے خلاف فی الوقت ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق اگر بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے ادا نہیں کرتا تو نیب فوری طور پر ریفرنس فائل کرنے کا پابند تھا۔
سپریم کورٹ نے 8 نومبر 2023 کو سندھ حکومت کو بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں سرکاری اراضی کے قبضے سے متعلق تازہ یا نیا سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی جانب سے جمع کردہ سروے رپورٹ کے مطابق 16986 ایکڑ کے بجائے 19931۔63 ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں ہے۔
23 نومبر 2023 کو جمع کرائی گئی سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 17790.45 ایکڑ زمین ضلع ملیر میں قبضہ میں لی۔ جس میں 775.84 اضافی سرکاری زمین اور 37.75 ایکڑ نجی زمین شامل ہے۔جبکہ 22.822 ایکڑ سرکاری زمین ضلع جامشورہ میں حاصل کی۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کو 23 نومبر 2023 تک 460 ارب روپے کو قسطوں میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جس کی فی قسط 166 ارب 25 کروڑ بنتی تھی۔ بحریہ ٹاؤن ابتک 24 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ 37 ہزار 716 روپے ادا کرسکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملک ریاض اور پاکستان کی ریاست و سیاست
سپریم کورٹ نے 23 نومبر 2023 کو اپنی آبزرویشن میں کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے 21 مارچ 2019 کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
نیب کے مطابق ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ملک ریاض، احمد علی ریاض اور زین ملک نے بطور بحریہ ٹاؤن کے ڈائریکٹرز زمین کی منتقلی کے دوران 17671.87 ایکڑ سرکاری زمین چھینی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے ڈائریکٹرز نے ستمبر اور اکتوبر میں اپنے پراجیکٹ کی غیر قانونی تشہیر کی، ڈائریکٹر نے عوام کو لالچ دے کر ان کی محنت سے کمائی رقم کو زمین کی ادائیگی کے لیے اس زمین کی طرف راغب کیا، جو بحریہ ٹاؤن کی نہیں تھی، نہ ہی ایس بی سی اے سے اشتہارات کے لیے این او سی حاصل کیا۔
21 جنوری 2019 تک ملک ریاض، احمد ریاض اور زین ملک نے بحریہ ٹاؤن کے اکاونٹ میں 1820 ارب روپے وصول کیے۔ بحریہ ٹاؤن کے فارن کرنسی بینک اکاؤنٹ میں 3 کروڑ 11 لاکھ 2969 امریکی ڈالرز، 23 لاکھ 73 ہزار 308 برطانوی پاؤنڈز اور 69 ہزار 161 یوروز آئے۔
سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے 26 دسمبر 2014 سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی جانب سے 43 دیھ کو ایم ڈی اے کے زیر انتظام دینے کے نوٹیفیکشن کیخلاف پیش کردہ سمری منظور نہ کرکے ملزمان کو مدد فراہم کی۔ قائم علی شاہ نے بدنیتی کی بنا پر سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو 5 مئی 2016 کو تصحیح جاری کرنے کی ہدایت کی، جن کے پاس تصحیح جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں:بحریہ انکلیو اور بحریہ ٹاؤن میں مہنگی بجلی کے خلاف رہائشیوں کا وفاقی وزیر کو خط
قائم علی شاہ نے اصل سمری (43 دیھ کو ایم ڈی اے کے ماتحت کرنا) کو 23 جولائی 2013 سے 29 جولائی 2016 تک اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد اسے چیف سیکریٹری سندھ کو بھیجا گیا۔ جس میں غیر قانونی طور پر ردوبدل کرتے ہوئے واپس لیا گیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ غیر قانونی سمری واپس لے لی گئی ہے۔ بعد ازاں 24 دسمبر 2013 کو غیر قانونی سمری کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشن بھی جاری کیا گیا۔
نیب ریفرنس کے مطابق شرجیل میمن نے بطور چیئرمین ایم ڈی اے اور صوبائی وزیر بلدیات، نجی قبولی زمین اور سرکاری زمین کی تبدیلی کے ریگولیشن کی غیرقانونی منظور دی۔
24 جنوری 2014 کو ایم ڈی اے میٹنگ میں شرجیل میمن نے سرکاری زمین کی بحریہ ٹاؤن کی منتقلی کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ ابتدائی 32 دیھ کے پلان کی بھی منظوری دی گئی۔ شرجیل میمن نے غیر قانونی طور پر 1330 ایکڑ ارضی کے لیے بحریہ ٹاؤن کو لے آوٹ پلان کی منظوری دی۔
ملک ریاض، علی ریاض اور شین ملک کے فرنٹ مینز کے طور پر فیصل سرور قریشی، وقاص رفعت، وسیم رفعت، شاہد محمود قریشی اور محمد اویس نے ابتدائی طور پر ضلع ملیر کے دور دراز الگ الگ علاقوں میں زمین بحریہ ٹاؤن کی جانب سے خریدی اور بعد ازاں اس زمین کو ملا دیا گیا۔
لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے مطابق تبدیل شدہ زمین(بحریہ ٹاؤن کراچی) انہیں فرنٹ مینز کے نام پر ہے۔ ان 5 افراد نے زین ملک کو سرکار سے زمین لینے کے لیے اٹارنی مقرر کرتے ہوئے تبدیل کردہ زمین کو یکجا کرکے بحریہ ٹاؤن میں شامل کر دیا۔
منظور کاکا نے بطور ڈی جی، ایس بی سی اے بحریہ ٹاؤن اور اس کے ڈائریکٹرز کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچایا۔ منظور کاکا نے بحریہ ٹاؤن کے پلاٹس کی بکنگ کی درخواست غیر قانونی طور پر منظور کی اس اجازت نامے کے تحت بحریہ ٹاؤن میں بکنگ فارم کی مد میں عوام سے رقم جمع کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیا ہے اور اس کا بحریہ ٹاؤن سے کیا تعلق ہے؟
منظور کاکا نے نامکمل دستاویزات اور ملکیتی دستاویزات کی عدم موجودگی کے باوجود 20 مارچ 2014 کو پہلا این او سی جاری کیا۔ اس وقت بحریہ ٹاؤن کے پاس منظور شدہ لے آؤٹ پلان نہیں تھا، نہ ہی فروخت اور تشہیر کے لیے ضروری این او سی حاصل کیا گیا تھا۔
نیب کے مطابق سابق ڈی جی، ایس بی سے اے نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مسلسل جاری میڈیا تشہیر اور ماتحت افسران کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں کی رپورٹس موصول ہونے کے باوجود ملزمان کی سہولت کاری کی۔
ملزمان نے ملی بھگت کے نتیجہ میں قومی خزانہ کو 708 ارب 8 کروڑ 80 لاکھ 83 ہزار اور 45 روپے کا نقصان پہنچایا۔ 16896 ایکڑ زمین کی قیمت سپریم کورٹ نے 460 مقرر کی۔ 24 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ 37 ہزار 716 کی ادائیگی کی گئی۔ ادائیگی کی رقم روکنے سے 28 جنوری 2025 تک اس پر سالانہ دس فیصد جرمانہ اور سود عائد ہوگا، جو کہ 235 ارب 17 کروڑ 89 لاکھ 71 ہزار 321 بنتا ہے۔
ایف بی آر کی جانب 29 اکتوبر 2024 میں طے کردہ ریٹس کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی جانب سے چھینی گئی 775.74 ایکڑ غیر قانونی سرکاری زمین 37 ارب 17 کروڑ 51 لاکھ 49 ہزار اور 440 روپے بنتی ہے۔
ملزمان کی جانب سے کی گئی کرپشن نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 کے سب سیکشن a کے مزید سب سیکش III، IV, 11 اور 12 کے زمرے میں آتی ہے، جو کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 10 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔
ملزمان کے خلاف مزید تحقیقات جاری ہیں، جس کا ضمنی ریفرنس نیب آرڈیننس کے سیکشن 16 کے سب سیکشن e کے تحت دائر کیا جائے گا۔ نیب ریفرنس کے ساتھ تحقیقاتی رپورٹ، دستاویزات اور گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد علی ریاض، ایم ڈی اے بحریہ ٹاؤن زین ملک سپریم کورٹ شرجیل میمن قائم علی شاہ کراچی ملک ریاض حسین ملیر