ایرانی سلامتی کے سربراہ سے حماس کی سربراہی کونسل کے اراکین کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
رہبر معظم انقلاب سے اپنی ایک ملاقات میں محمد اسماعیل درویش کا کہنا تھا کہ ہم انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کے موقع پر غزہ کی کامیابی کو نیک شگون سمجھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ملاپ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی بنیاد بنے گا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کی سربراہی کونسل کے چئیرمین "محمد اسماعیل درویش" ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تہران میں موجود ہیں جہاں انہوں نے رہبر معظم کے نمائندے اور ایران کی قومی سلامتی کے سربراہ "علی اکبر احمدیان" سے ملاقات کی۔ ملاقات میں محمد اسماعیل درویش کے علاوہ حماس کے ڈپٹی پولیٹیکل بیورو چیف "خلیل الحیه" اور مغربی کنارے میں حماس کے سربراہ "زاھر جبارین" سمیت متعدد رہنماء موجود تھے۔ یاد رہے کہ اس وفد نے گزشتہ روز رہبر معظم سے بھی ملاقات کی۔ جس میں محمد اسماعیل درویش نے غزہ میں مقاومت کی عظیم فتح پر رہبر معظم کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کے موقع پر غزہ کی کامیابی کو نیک شگون سمجھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ملاپ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی بنیاد بنے گا۔
خلیل الحیه نے کہا کہ ہم ایسی صورت حال میں آپ سے ملاقات کے لئے آئے ہیں جب ہم ایک امتحان میں سرخرو ہوئے ہیں۔ غزہ میں عظیم کامیابی ہماری اور ایران کی مشترکہ فتح ہے۔ دوسری جانب رہبر معظم انقلاب نے حماس کے رہنماوں سے کہا کہ آپ اسرائیل بلکہ در واقع امریکہ پر غالب آئے ہیں اور خدا کے فضل سے آپ نے انہیں کسی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ رہبر معظم نے اس نکتے کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ فلسطین کے دفاع اور وہاں کی عوام کی حمایت کے سلسلے میں ہماری قوم کے ذہن میں کوئی شکوک و شبہات نہیں۔ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے بنیادی مسئلہ ہے اور فلسطین کی فتح ہمارے لئے یقینی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محمد اسماعیل درویش ایران کی
پڑھیں:
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) پیر دس فروری کے روز ایران کے سرکاری ٹی وی پر 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی کے موقع پر حکومت کی جانب سے منعقد کیے گئے اجتماعات کی تصاویر نشر کی گئیں، جن میں شرکا کو قومی پرچم لہراتے دیکھا گیا۔
روایتی طور پر ایسے اجتماعات میں شرکا کی تعداد ہزاروں سے لے کر لاکھوں تک رہی ہے۔
تاہم جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی مطابق ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ان تقاریب سے لاتعلق بھی رہتا ہے۔ سن 1979ء کا انقلابفروری 1979ء میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک بغاوت کے دوران بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اسی سال تہران میں ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ بھی کر لیا تھا، جس سے ایران اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔
(جاری ہے)
تب ہی سے ایران کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور دونون ممالک کے مابین عسکری تناؤ میں متعدد بار خطرناک حد تک اضافہ بھی ہوا ہے۔ اس کی حالیہ مثال غزہ کی جنگ کے دوران گزشتہ سال بھی دیکھی گئی۔
جہاں تک ایران کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا سوال ہے تو ایران نے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح اسرائیل کے وجود کو تاحال باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور ایران اور اسرائیل کے مابین دوطرفہ سفارتی تعلقات بھی اب تک قائم نہیں ہو سکے۔
اس کے برعکس ان دونوں ممالک کے مابین عشروں سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور دونوں ہی خطے میں ایک دوسرے کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔علاوہ ازیں ایران کو شدید معاشی بحران کا سامنا بھی ہے، جس کی ایک وجہ اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس پر مغرب کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں ہیں۔
تاہم امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد تہران کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
لیکن ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے، جن کا فیصلہ ملک کے اسٹریٹیجک معاملات میں حتمی ہوتا ہے، فی الحال امریکہ سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ان کے اس انکار کے بعد ایرانی کرنسی ریال کی قدر ریکارڈ حد تک گر چکی ہے۔
م ا / م م (ڈی پی اے، ڈی پی اے ای)