سندھ کا لازوال صوفی کردار وتایو فقیر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
٭وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے ، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے ۔وتایو فقیر سندھ کے لوک ورثے پر ایک گہری چھاپ رکھنے والی شخصیت تھے ٭ وتایو فقیر نے بارہویں صدی ہجری میں ایک ہندو خاندان میں جنم لیا۔ ان کی ولادت ٹنڈوالٰہیار کے قریب واقع نصرپور کے گاؤں تاج پور میں ہوئی۔ ان کے آباؤ اجداد عمرکوٹ کے رہنے والے تھے ٭وتایو فقیر کی طبیعت سیاحت کی طرف مائل تھی۔سیاحت کا یہ شوق ان کی حکایتوں میں نظر آتا ہے ۔کہتے ہیں کہ انہوں نے پورے سندھ کے گاؤں دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کی سیاحت کی ہوئی تھی ٭وتایو فقیر کا مزار میرپور خاص روڈ پر ضلع ٹنڈوالٰہ یار میں بکیرا شریف نام کے قصبے کے قریب واقع ہے ۔ اس علاقے کا نام قبا اسٹاپ بھی ہے ، جو ان کے مزار کے گنبد کی وجہ سے پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ میں کئی صدیوں پہلے ایسا لوک کردار گزرا ہے جو آج سندھ لوک ادب کا اہم حصہ ہے اور اس کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکی ہیں۔ اس میں اپنا ایک الگ مزاج رکھنے والا وتایو فقیر ہے، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے کونے کونے میں آج بھی لوگ دلچسپی سے سنتے ہیں۔
وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے ، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے ۔وتایو فقیر سندھ کے لوک ورثے پر ایک گہری چھاپ رکھنے والی شخصیت تھے ۔ یہ وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے لوگوں کو اپنی مجذوب کیفیت میں بھی محبت، امن اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے بڑے اہل علم اور دانشور وتایو فقیر کی کہانیوں سے مستفید ہوئے ۔ وتایو فقیر کوئی بھکاری نہیں تھے ۔ یہاں فقیر سے مراد ہے صوفی، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص۔ نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے ۔ سندھ کے کسی بھی کونے میں بسنے والے شخص سے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، ہندو ہو یا مسلم، اگر وتایو فقیر سے متعلق اس سے پوچھا جائے تو شاید اسے وتایو فقیر کے حسب و نسب کا پتا نہ بھی ہو تب بھی اسے ان کا کوئی قصہ ضرور یاد ہوگا۔
وتایو فقیر نے بارہویں صدی ہجری میں ایک ہندو خاندان میں جنم لیا۔ ان کی ولادت ٹنڈوالٰہیار کے قریب واقع نصرپور کے گاؤں تاج پور میں ہوئی۔ ان کے آباؤ اجداد عمرکوٹ کے رہنے والے تھے ، بعد میں نصرپور میں آکر آباد ہوگئے ۔ وتایو کا نام وتومل تھا۔ ان کے والد میلھورام اپنی بیوی بچوں سمیت مسلمان ہوگئے ۔ میلھو رام نے اپنا نام شیخ غلام محمد رکھا اور وتایو کا نام شیخ طاہر رکھا۔اس کا اصل نام ‘‘وتو’’ تھا۔لیکن جوں جوں وتومل کی شہرت پھیلتی گئی، ان کا نام وتو بگڑتا چلا گیا۔وتو بگڑ کر وتایو ہوا اور پھر اس کی درویش صفت عادتوں کے باعث لوگ اسے وتایو فقیر کہہ کر پکارنے لگے ۔
وتایو فقیر کی شخصیت اس کی حکایتوں میں پوشیدہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس کی حکایتوں میں باپ کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے ۔کہتے ہیں کہ وتایو فقیر کا باپ اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔اس کی پرورش ماں نے کی تھی۔اس گھرانے کے پاس ایک گائے اور ایک گدھا تھا اور ان کا گزارہ محنت مزدوری، عطیے میں دیے گئے پیسوں اور اناج وغیرہ سے ہوتا تھا۔کچھ مصنفین کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ اس صوفی منش درویش کے کچھ معتقدین بھی تھے ۔ممکن ہے کہ جس دور کی یہ بات ہے ، وہ وتایو فقیر کی زندگی کا آخری حصہ ہو۔دوسری روایت میں یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ مسلمان ہوئے ۔ وتایو فقیر پیشے کے لحاظ سے رنگ ساز تھے ۔
وتایو فقیر کی طبیعت سیاحت کی طرف مائل تھی۔سیاحت کا یہ شوق ان کی حکایتوں میں نظر آتا ہے ۔کہتے ہیں کہ انہوں نے پورے سندھ کے گاؤں دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کی سیاحت کی ہوئی تھی۔وہ سندھ کے معاشرے کے نبض شناس تھے ۔یہ سندھی معاشرے اور نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی حکایتیں معاشرے پر پوری طرح صادق آتی ہیں۔ان کی باتوں میں صوفی بزرگوں سے محبت کی مہک موجود ہے ۔وہ بظاہر جتنا سادہ لوح شخص تھے ، اندر سے وہ اس سے زیادہ ذہین شخص تھے ۔
وتایو فقیر سندھ کی عام زندگی میں اسی طرز کا ایک کردار ہے جس طرح ترکی کا ملا نصر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے ۔اس کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وتایو فقیر ایک خیالی کردار ہے ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔سندھ کی تاریخ کا ایک مستند حوالہ تحفۃ الکرام ہے ۔یہ کتاب 1181 ہجری میں مکمل ہوئی اس کے مصنف میر علی شیر قانع تھے ۔اس کتاب میں تین چار جگہوں پر وتایو فقیر کا ذکر ملتا ہے ۔حالیہ سندھی تاریخ میں سندھ کے مشہور دانشور مرزا قلیچ بیگ سمیت مختلف محققین اور لکھاریوں نے بھی وتایو فقیر کا تذکرہ کیا ہے ۔یوں یہ ایک طے شدہ حقیقت قرار پاتی ہے کہ وتایو فقیر نہ کوئی دیو مالائی کردار تھا اور نہ ہی افسانوی۔۔۔سندھ کے لوک ادب سے لے کر جدید ادب تک ان سب پر وتایو فقیر کے اثرات نمایاں طور پر جھلکتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ صدیوں سے جو قصے وتایو فقیر سے منسوب ہو کر سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں دوسرے لوگوں کی کہی ہوئی باتیں بھی شامل ہوتی رہی ہوں مگر ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ وتایو سے منسوب باتوں میں جہاں مزاح ہے ، وہیں اس میں نصیحت بھی پوشیدہ ہے اور عقل و دانش بھی موجود ہے ۔
اگرچہ بعض لوگوں کا تاثر ہے کہ وتایو فقیر اپنی باتوں سے مزاح پیدا کرنے والا ایک چرچائی تھا۔سندھی زبان میں چرچائی کا مطلب ہنسانے والا تاہم غالب اکثریت اسے صوفی درویش اور اس کے قصوں کو دانا بزرگ کی حکایتوں کا درجہ بخشتی ہے ۔ وتایو فقیر کے قصے کہانیوں نے نصیحت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا، تزکیہ نفس اور انصاف کی جو تعلیمات دی ہیں وہ صدیوں زندہ رہیں گی۔ وتایو فقیر مذاق مذاق میں بہت گہری بات کہہ جاتے تھے ، جس کے پیچھے سچائی اور دیانت داری کا فلسفہ پوشیدہ ہوتا تھا۔ وتایو اپنے وقت کے دانشور تھے ۔ وہ اپنے ٹوٹکوں اور حکایتوں سے سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے تھے ۔ سندھی ادب میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔
وتایو فقیر کی کہاوتیں آج بھی لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ لوگ آج تک ان کی کہی ہوئی مزاحیہ باتوں کو بھول نہیں پائے ہیں۔ کوئی بھی شخص جب بھی ان کے قصے سناتا ہے تو فوری طور پر چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوجاتی ہے ۔ ان کی باتیں عقل، علم و دانش کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی شخصیت اور وجود سے اختلاف رکھنے والے ان کی حکایتوں، کہاوتوں، فکاہیہ جملوں، مزے مزے کے چٹکلوں، دل چسپ قصوں اور نصیحت آموز باتوں سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں جو کہ آج بھی کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے قصے کہانیاں بچوں کی درسی کتب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں نے ان کے قصوں اور کہانیوں کو جمع کرکے کتاب کی شکل میں شایع کیا ہے ۔ ان کی حقیقت اور وجود کو آج کے دانشور بھی مانتے ہیں۔
وتایو فقیر ایک داستان رقم کرگئے ہیں، لیکن انھیں وہ مقام نہیں حاصل ہوا جس کے وہ حق دار ہیں۔ بہت سے لوگ وتایو فقیر کے افکار سے ناواقف ہیں۔ ضروری امر یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار منعقد کیے جائیں، کیوں کہ وہ سندھ کا لوک ورثہ ہیں۔ وتایو فقیر کا مزار میرپور خاص روڈ پر ضلع ٹنڈوالٰہ یار میں بکیرا شریف نام کے قصبے کے قریب واقع ہے ۔ اس علاقے کا نام قبا اسٹاپ بھی ہے ، جو ان کے مزار کے گنبد کی وجہ سے پڑا۔ ان کے مزار پر سندھی زبان میں لکھا انہی کا ایک شعر نظر آئے گا، جس کا مطلب ہے ‘‘کبھی میں بھی ایسا ہی تھا، جیسے آپ ہیں اور کبھی آپ بھی ایسے ہی ہونگے جیسا کہ میں آج ہوں’’۔ وتایو فقیر کے مزار کے عقب میں صوفی بزرگ سید عالی شاہ سرکار المعروف شیخ لونھیڑو فقیر کا مزار بھی واقع ہے ۔ ایک روایت ہے کہ شیخ لونھیڑو فقیر جب کلام پاک کی تلاوت کرتے تھے تو درختوں کے پتے بھی ساکت ہوجاتے تھے ۔ ان کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی کہ لوگوں پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔ عربی میں لحن کا مطلب میٹھی آواز ہے ۔ اس لیے سید عالی شاہ سرکار کو لوگ لونھیڑو فقیر کے نام سے بھی پکارتے تھے ۔ روایات کے مطابق شیخ لونھیڑو فقیر، وتایو فقیر کے بڑے بھائی تھے۔ تاہم چند روایات میں لونھیڑو فقیر کو وتایو فقیر کے مرشد کے طور پر بھی لکھا گیا ہے ۔
وتایو فقیر کے چند قصے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں:
وتایو فقیر کے گاؤں میں شادی کی تقریب تھی۔ وہ بھی شادی کی دعوت میں جا پہنچے ۔ انہیں دیکھ کر میزبانوں نے کہا فقیر آپ باہر بیٹھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وتایو فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ میزبانوں نے انہیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اندر خاص مہمان ہیں۔ وتایو فقیر نے کہا کہ مجھے دعوت دی گئی ہے ، میں کیوں اندر نہ جاؤں، مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔ وتایو فقیر واپس آئے اور دھوبی کے پاس پہنچے ، اس سے کہا، ‘‘آج کوئی نئے صاف کپڑوں کا جوڑا تو دو، مجھے ایک دعوت میں جانا ہے’’ ۔دھوبی نے ایک اچھا نیا جوڑا نکال کر انہیں دے دیا۔ اب وتایو فقیر نیا جوڑا اور پگڑی پہن کر اسی شادی دوبارہ پہنچ گئے ۔ سب نے استقبال کیا۔ اب جب کھانا لگا تو تب سب لوگ کھانا کھارہے تھے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا کپڑوں پر گرادیا اور ساتھ کہتے گئے ،‘‘میرے کپڑوں کھانا کھاؤ اور کھاؤ’’۔ یہ منظر سب لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ وتایو کے پاس آئے اور کہا کہ جناب! آپ کپڑوں کو کیوں کھانا کھلارہے ہیں؟ یہ کپڑے کھانا نہیں کھاتے ۔ تب وتایو فقیر زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے ،‘‘میں تو پہلے بھی آیا تھا لیکن آپ لوگوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور واپس بھیج دیا۔ اب میں انہی کپڑوں کی وجہ سے تو اندر آیا ہوں اسی لیے ان کپڑوں کو کھانا کھلارہا ہوں۔ مگر یہ کھانے کھاتے ہی نہیں اب انسان کی عزت تو نہیں ہے عزت ان کپڑوں کی ہے ’’۔
ایک بار وتایو فقیر مسجد میں وعظ کی مجلس میں بیٹھے تھے ۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ رزق کا وعدہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، وہ اپنے مخلوق کو ہر حالت میں روزی پہنچاتا ہے ۔ وتایو اچانک اٹھے اور جنگل کی جانب چل دیے ۔ بڑے سے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور سوچا کہ میرے نصیب میں جو رزق ہے وہ تو یہیں مل جائے گا۔ دو دن اور ایک رات گزر گئی،دوسرے دن شام کو وہ حوصلہ ہار گئے اور سوچنے لگے کہ یہاں تو رزق ملا نہیں۔اس لیے گھر چلنا چاہیے ۔وہاں ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا مل جائے گا۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ دوسری رات ہونے کو آئی تو درخت کے نیچے شکاریوں کے ایک گروہ نے آکر ڈیرا لگایا، کھانا پکایا اور کھانے سے قبل انھوں نے اپنے نوکر سے کہا کہ ایک پلیٹ قریبی گاؤں میں جاکر کسی مسکین کو دے کر آؤ، پھر سب کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وتایو سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کھانسنا شروع کر دیا۔ شکاریوں نے وتایو کو نیچے بلایا اور پوچھا کہ کیا بھوکے ہو؟ اس پر وتایو نے کہا کہ دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ شکاریوں نے مسکین والی پلیٹ وتایو کو دی اور وتایو نے اپنا پیٹ بھرا۔ واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ماں نے پوچھا تم کہاں غائب تھے ؟ بولے ، دیکھنے گیا تھا کہ مولوی صاحب سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ؟ ماں نے پوچھا پھر کیا دیکھا؟ وتایو فقیر بولے بول تو سچ رہا تھا لیکن کھانسنا پڑا۔ تب جاکر پیٹ کی آگ بجھی۔اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کے قریب واقع سیاحت کی کردار ہے سندھ کے کے گاؤں کے مزار رہے تھے ہیں کہ آج بھی کہا کہ کے لیے اور ان کیا ہے ہے اور کی وجہ کا نام
پڑھیں:
سیاسی جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے ، عبدالغفور حیدری
سیاسی جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے ، عبدالغفور حیدری WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز
ملتان(آئی پی ایس )جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے۔ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن کا حصہ ہے، ہم اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، بلوچستان میں ریاست کی کوئی رٹ نہیں ہے۔
عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ کیا سندھ میں کچے کے ڈاکو زیادہ طاقتور ہیں؟ ریاست معاشی طور پر کمزور ہے، وزیراعظم پرسوں تشریف لائے تھے، مولانا فضل الرحمان سے ملنے کیلئے، میں نے سوال کیا کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچ گئی ہے۔رہنما جے یو آئی ف نے کہا کہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ پہلے بھی کھڑے تھے اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہا رائے کا حق آئین دیتا ہے، حکومت پیکا ایکٹ کی ضرب لگانے کا مجاز نہیں ہے، صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اس کا راستہ روکنا غلط ہے۔ عبدالغفورحیدری نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ دینی جماعتیں اکٹھی ہوں، دینی مدارس کے معاملے پر تمام دینی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دیا، دینی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، وہ دینی جماعتیں جو سیاسی ہیں ان کو ملک کیلئے اکٹھا ہونا پڑے گا۔
رہنما جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ دینی جماعتیں ہی ملک کو بچا سکتی ہیں، اسلامی ریاست کا تصور تو بالکل ہی ختم ہوگیا، جمہوریت تو بالکل نہیں ہے، الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے،جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا موجودہ جمہوریت سے اعتماد اٹھ چکا ہے، جو بدتمیزی اب دیکھنے میں آتی ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی کونسا وہ پرکشش نعرہ ہے جو اس ملک کو ایک کرسکے،پاکستان کو چلانے والوں نے کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کیا، ہم نے تو پہلے دن سے ازسر نو الیکشن کروانے کی ڈیمانڈ کی ہے۔