ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
انتشاری ٹولہ اور بعض صحافتی گدھ جس طرح سےشیخ مجیب کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں ،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے توبڑی غلط فہمی میں ہے یا سٹریٹجک تبدیلیوں سے لاعلم، بلکہ جہالت کا شکار ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجیب کی محبت کا قلونج ہو یا حمود الرحمٰن کمیشن کی درد شقیقہ دونوں کا سبب ایک ہے، ڈھاکہ میں بھارتی مفادات کی چتا سے اٹھتا دھواں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی اڑتی ہوئی دھول ، جس نے دہلی کے سائوتھ بلاک میں بیٹھے مکار بڈھو ں کے حواس مختل کر رکھے ہیں، وہ اپنی پون صدی کی سرمایہ کاری کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ۔ ایک جانب ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں تو دوسری جانب پروپیگنڈے کے محاذ پر ’’1971‘‘ کے آزمودہ بلکہ ایوارڈ یافتہ ’’فارن فرینڈز‘‘ کے وارثوں کو ایک بارپھر راتب ڈال رہے ہیں ، جو اپنی آباء کی رسم غداری اور دشمن سے یاری کی سرشت کے تحت یہ کبھی مہرنگ جیسی کٹھ پتلیوں کے سنگ دہشت گردوں کے ہمنوا ہوتے ہیںتو کبھی مجیب کی مدح خوانی کرکے پرکھوں کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔وقت کے قاضی نے پاکستان اور دو قومی نظریہ کے حق میں جو فیصلہ صادر کیا ہے ،وہ اس تمام پروپیگنڈے کی موت ہے بشرطیکہ ہم بنگلہ دیش کی بیداری اور بھارت مخالف بیانیے کو پاکستان میں درست طریقے سے پیش کر سکیں۔ اب تک ریاست اس میں ناکام دکھائی دیتی ہے ، مگر شائد ۔۔۔ ۔ ؟
حقیقت یہ ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کو نصف صدی سے زیادہ کا و قت بیت چکا، اس دوران دنیابھر میں اس سانحہ پر بے پناہ کام ہوا، بھارتی، بنگلہ دیشی اور مغربی ارباب دانش نے سچ کی کھوج لگانے کی پوری کوشش کی،جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ، اسی سچ نے بنگلہ دیشیوں کی سوچ کو بدلا اوروہا ں بھارت ہی نہیں اس سے منسلک ہر چیز قابل نفرت قرار پاگئی ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اس پر اس طرح سے کام نہیں کیا ، جس طرح کرنا چاہئے تھا بلکہ اغیار کا ڈھونڈا ہواسچ بھی اپنی نسل نو کے سامنے رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جس کی بہت سے ’’معلوم وجوہات‘‘ ہیں ، جن پر بحث کا یہ موقع نہیں ،لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے سامنے شاید آج بھی وہ حقائق پوری طرح نہیں لائے جا سکے جن کی بدولت سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اس سارے خونی کھیل کے پیچھے بھارت کی مکروہ چالیں اور عزائم تھے جنہیں شاید ہماری سیاسی قیادت اس وقت صحیح طریقے سے سمجھ نہ سکی یا بعض خود اس کھیل کا حصہ تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ مکتی باہنی کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک تھا جس کا پردہ اب مکمل طور پر چاک ہو چکا ہے اور بات ریسرچ پیپر ز سے آگے نکل کر ان کرداروں کے زبانی حقائق کے اظہار تک آگئی ہے جو کسی غلط فہمی یا ورغلانے پر اس وقت قاتلوں اور دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہوئےاور اب سچ سامنے آنے پر اپنی آنے والی نسلوں کو دشمن کے جال سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ان میں ایک نام زین العابدین کا بھی ہے، جو 971 میں مکتی باہنی کا کمانڈر اور پاکستان کے خلاف سازش کا کردار رہا۔ زین العابدین نے سچ بول کر اپنے ماضی کی غلطیوں کا زالہ کرنے کی کوشش کی ہے ، لازم ہے کہ اس سچ کو پاکستانی نوجوانوں میں پھیلایا جائے ، تاکہ میر جعفر و میر صادق کے وارث اور ان کے ممدوح بلوچستان سے فاٹا تک بھارتی ایجنٹ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کے متاثرین کے ساتھ ساتھ ، انتشاری ایجنڈے کے شیطانی سحر کا شکار بے سمت نوجوان جان سکیں کہ انہیں کس آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مکتی باہنی کے 74سالہ سابق کمانڈر زین العابدین نے جو اب پنسلونیا امریکہ میں مقیم ہیں یوٹیوب چینل وائٹ نیوز بنگلہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔زین العابدین نے کہا کہ’’ ہمیں اپنے ہی ملک اور اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم کبھی نہیں سوچاتھا کہ ہمارے آبائو اجداد کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہدکے بعد حاصل ہونیوالاملک ایک دن ہمیں آپس میں لڑتے ہوئے دیکھے گا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مکتی باہنی کے ارکان کو بھارت میں مسلح ٹریننگ دی گئی، ’’دہرادون‘‘ اور ’’ہافلانگ‘‘ میں دہشت گردی کے تربیتی مراکز قائم کئے گئے تھے ۔بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد فرار ہوکر بھارت میں قیام کے بارے میں بھی اہم انکشافات کئے اور بتایا کہ حسینہ بھارت میں آزاد نہیں ہےبلکہ گھر میں نظر بند اور مودی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بھارت اسے کبھی رہا نہیں کرے گا۔ اگر اسے رہا کر دیا جاتا ہے تو وہ سب کچھ ظاہر کر دے گی کہ کس طرح بھارت نے اسے بنگلہ دیش پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور کس طرح بھارت معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث تھا۔ زین العابدین کا عزم ہے کہ وہ اپنی تحریریوں کے ذریعے دنیا کے سامنے “بھارت کا بدصورت چہرہ ‘‘بے نقاب کررہا ہے، اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو گا۔عالمی طاقتیں بھارت کو بنگلہ دیش پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گی، نہ پاکستان، چین یا روس اسے برداشت کریں گے ۔ بھارت کے عوام جانتے ہیں کہ مودی کا ہندوستان پاکستان یا بنگلہ دیش کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جوہری معاہدے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری معاہدے ہوں گے ۔ پاکستان 1971 میں ملک کو دوٹکرے کرنے کا جواب دے گا ، اگر آج پاکستان متحد ہوتا تو بھارت پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اگر بھارت بنگلہ دیش کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا تو اسے تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان دشمنی کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہ’’ہم مشترکہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندے ہوئے ہیں ۔ بنگالی پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات نہیں رکھتے ۔ ہم ایک قوم ہیں،ہمارا مذہب بھی ایک ہے، پاکستانی ہم بنگلہ دیشیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے جو ملک بنایا تھا وہ متحد نہیں رہ سکا۔ اگر 1971 کا المناک واقعہ رونما نہ ہوتا تو ہم ایک مضبوط اور بہتر قوم بن سکتے تھے۔بھارت میں تربیت کے دوران اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے،زین العابدین نےانکشاف کیا،”ہمارے ٹرینر آسام اور اترپردیش سے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے نام ظاہر نہیں کیے، لیکن ہم انہیں ابتدائی ناموں سے جانتے تھے جیسے ایس کے ، سی پی اور بی ایم ۔ ان میں ایک بمل مکھرجی تھا جس کا نام مجھے بنگلہ دیش بننے کے بعد معلوم ہوا۔انہوں نے بتایاکہ انہیں چھوٹے دستی بم بنانے، بم نصب کرنے اور پلوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ایل ایم جی چلانے اور فوجی حکمت عملیوں سے متعلق تربیت دی گئی ۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: زین العابدین نے بنگلہ دیش کے مکتی باہنی بھارت میں کرتے ہوئے انہوں نے یہ ہے کہ
پڑھیں:
2024 کے انتخابات میں پورے پاکستان میں جیتنے والے فارم 47 پر منتخب ہوئے، گورنر پنجاب
لاہور(نیوز ڈیسک)گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ 2024 کے انتخابات میں پورے پاکستان میں جیتنے والے فارم 47 پر منتخب ہوئے ہیں، 2013، 2018 اور 2024 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، 2024 میں فارم 45 اور فارم 47 کی خرابی تھی، ملکی تاریخ میں کوئی ایک آدھ ہی ایسا الیکشن ہوا ہوگا، جس پر سب نے کہا ہو کہ شفاف الیکشن ہوئے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2024 میں پنجاب میں بلاول بھٹو کو ملنے والے ووٹ کم ظاہر کیے گئے، ہم نے تو صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ شکست قبول ہے، لیکن ہمیں ہمارے ووٹ تو دکھائیں، ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوتا ہے کہ پنجاب میں کسی حلقے میں ہمیں 30 ہزار ووٹ ملتے ہیں تو 11 ہزار ظاہر کیے جاتے ہیں، یہ سب کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن دلبرداشتہ ہوں اور پارٹی پنجاب میں کمزور ہوجائے۔
سردار سلیم حیدر نے کہا کہ کراچی میں بھی دو چار سیٹیں پیپلز پارٹی سے چھینی گئیں، جس جس نے 2024 کے الیکشن میں غلط کام کیا سب کو رگڑا لگنا چاہیے، سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم اس معاملے پر اکٹھے ہوں، کہ کچھ بھی ہوجائے انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہ ہونے پائے، تاکہ حقیقی عوامی نمائندگی سامنے آئے۔
سیاسی استحکام کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو بات چیت کرسکے، اور اس کی بات چیت لوگ سنیں اور انہیں یقین ہو کہ کل کو ان کیساتھ ہونے والی بات چیت پر عمل بھی ہوگا، ایسا نہ ہو کہ کل کو آپ کہیں کہ کوئی اور نہیں مان رہا، اس لیے ہم اپنے وعدے مکمل نہیں کرسکتے، موجودہ حکومت کی توجہ اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات پر نہیں ہے۔
سردار سلیم حیدر نے کہا کہ موجودہ حکومت میں ایسا کوئی شخص نہیں جو یہ کردار ادا کرسکے، ایسی ایک ہی شخصیت ہے، وہ صدر آصف علی زرداری ہیں، جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں سب اتحادیوں سے کیے گئے وعدے نبھائے، کامیابی سے اپنی پارٹی کی حکومت کی مدت مکمل کروائی، انہوں نے کہا کہ ن لیگ میں واحد شخصیت اسپیکر قومی اسمبلی ہیں، جو بات چیت کرنا جانتے ہیں، پی ٹی آئی میں تو بات چیت کا رواج ہی نہیں ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی نے احتجاج کی آڑ میں شرپسندی کی، ان کے کارکنوں نے اداروں پر حملہ کیا، شہدا کی یادگاروں پر توڑ پھوڑ کی، قومی تنصیبات کو نقصان پہنچایا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب پی ٹی آئی کے ہی لوگ تھے، یہ بات خود پی ٹی آئی والے بھی مانتے ہیں، سچی بات کرنی چاہیے، اب اس پر جوڈیشل کمیشن بنواکر پی ٹی آئی کیا چاہتی ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کے 200 کارکن احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو ان میں 6 سے 7 شرپسند کارکن بھی ہوتے ہیں، جو یہ سب کرتے ہیں، اسی طرح 26 نومبر کو بھی ان لوگوں نے انتشار پھیلایا، اگر کارروائی نہ کی جاتی تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ پی ٹی وی، پارلیمنٹ یا وزیراعظم ہاؤس پر حملہ نہ کر دیتے؟۔
مزیدپڑھیں:بجلی مزید سستی،وزیردفاع نے قوم کوخوشی کی خبرسنادی