گزشتہ پانچ ماہ سے اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر اضلاع شدید خشک سالی کا شکار ہیں۔ زمین پیاسی ہے، درخت مرجھا رہے ہیں، فصلیں سوکھ رہی ہیں، اور انسان و حیوان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے پانی کی قلت، موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی بارشیں نہ ہونے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ قدرتی آفات کے پیچھے ہمارے اعمال کا بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بارش روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا‘‘۔ اس حدیث پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار قدرتی آفات کی صورت میں ہوتا ہے۔
جب بارش نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کھلے میدان میں لے جاتے، سادہ لباس میں، عاجزی اور خشوع کے ساتھ۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے، جس میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات عید کی نماز کی طرح زائد تکبیرات بھی کہتے، لیکن یہ لازم نہیں تھا۔نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حمد و ثنا کرتے اور پھر ہاتھ بلند کر کے بارش کے لیے دعا فرماتے۔ روایت میں آتا ہے کہ آپ نے دعا کے دوران ہتھیلیاں اوپر کی بجائے نیچے کی طرف کر لیں، جو عام دعا سے مختلف تھا۔ دعا طویل ہوتی اور اس میں گڑگڑا کر اللہ سے بارش کی درخواست کی جاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم استغفار اور صدقے کی تاکید بھی فرماتے، کیونکہ گناہوں کی معافی اور خیرات بارش کے نزول کا سبب بنتے ہیں۔ ایک بار صحابہ نے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، اور اسی وقت بارش شروع ہوگئی، جو مسلسل ایک ہفتے تک برستی رہی۔ پھر جب زیادہ بارش سے تکلیف ہوئی تو دعا فرمائی اور بارش تھم گئی۔
اگر آج ہم خشک سالی اور قحط جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے رویے، اخلاقی زوال، بددیانتی، جھوٹ، خیانت اور ظلم اس بات کا سبب بن رہے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو جائے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔
سائنس کے مطابق فضائی آلودگی بھی بارشوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے شہروں میں دھوئیں اور آلودگی کی مقدار ناقابل برداشت ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف بارشیں کم ہو رہی ہیں بلکہ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے، جبکہ اسلام آباد، راولپنڈی،کراچی، ملتان، پشاور اور دیگر شہروں میں صنعتی دھواں، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانے اور کوڑے کرکٹ کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ آلودگی سانس کی بیماریوں، آنکھوں میں جلن، دمہ، گلے کی تکلیف اور دیگر سنگین مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ یہ مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم نے قدرت کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ قرآن و حدیث ہمیں واضح طور پر سکھاتے ہیں کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے اور ظلم و فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کرتا ہے۔ ابن ماجہ میں روایت ہے کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالی ان سے بارش روک لیتا ہے۔
جب بارش نہ ہو، زمین سوکھ جائے، فصلیں تباہ ہونے لگیں، تو ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسلام ہمیں نماز استسقا پڑھنے کا درس دیتا ہے، جو خاص طور پر ایسی صورتحال میں اللہ سے بارش کی دعا کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بارش نہ ہو تو نماز استسقا پڑھو اور صدقہ دو تاکہ اللہ تم پر اپنی رحمت نازل کرے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ یعنی پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اگر یہ نعمت ہم سے روٹھ جائے تو ہمیں اللہ کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس قدر شدید ماحولیاتی بحران اور بارشوں کی قلت کے باوجود نہ تو حکومت نے کوئی اجتماعی نماز استسقا کا اہتمام کیا اور نہ ہی مذہبی رہنمائوں نے حکومت کو اس طرف متوجہ کیا۔ دو ماہ پہلے صرف پنجاب اور اسلام آباد میں صرف ایک دن سرکاری طور پر نماز استسقا ادا کی گئی اور اسکے بعد اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
کیا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف سائنسی اقدامات اور حکومتی پالیسیاں ہی ان مسائل کا حل نہیں؟ جب تک ہم اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے، انفرادی و اجتماعی توبہ اور استغفار نہیں کریں گے، تب تک ان بحرانوں سے نجات ممکن نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ’ علی امین گنڈا پور، بلوچستان کے وزیر اعلی’ سرفراز بگٹی ، سندھ کے وزیر اعلیٰ اور دیگر حکام کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر پورے ملک میں اجتماعی نماز استسقا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مساجد، مدارس، تعلیمی اداروں اور سرکاری سطح پر خصوصی دعائوں کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکیں۔ یہ نماز اور دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ بارش اللہ کی رحمت ہے، اور اگر کمی ہو تو ہمیں عاجزی سے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، استغفار کرنا چاہیے اور صدقہ دینا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمت ہم پر نازل ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت اللہ تعالی کرنا چاہیے بارش نہ ہو وزیر اعلی کہ اللہ رہے ہیں کی طرف اور اس ہیں کہ
پڑھیں:
ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن ) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ سیاسی مسائل کو اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کرکے حل کرلیں گے،سیاسی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب سیاسی قیادت ٹیبل پر بیٹھے گی، جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.(جاری ہے)
نجی ٹی وی سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی. مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن عمران خان کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمٹ سے ہی بات کرنی ہے. انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں. ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.