Daily Ausaf:
2025-02-10@15:20:09 GMT

غزہ پر قبضے کا موقف: غیر دانشمندانہ اور ناقابلِ عمل سوچ

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضے کی سوچ نہ صرف بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے بلکہ عملی طور پر بھی ناقابلِ عمل ہے۔ کسی بھی بیرونی طاقت کی طرف سے غزہ پر براہ راست قبضے کی کوشش بین الاقوامی قوانین، سفارتی اصولوں اور انسانی حقوق کے بنیادی ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہوگا، بلکہ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرے گا۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بین الاقوامی قانون کے تحت، کسی بھی خودمختار یا نیم خودمختار علاقے پر زبردستی قبضہ غیر قانونی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی معاہدے ریاستوں کی خودمختاری اور عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وہی حق حاصل ہے جو دیگر اقوام کو دیا گیا ہے۔ کسی طاقتور ملک کی جانب سے اس حق کو دبانے کی کوشش عالمی سطح پر کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔امریکہ کے لیے عالمی تنہائی کا خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا نیا موقف ان کی سابقہ پالیسیوں سے ہٹ کر ہے۔ اگر امریکہ براہ راست یا بالواسطہ اس نظریے کی حمایت کرتا ہے تو اسے شدید عالمی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ پہلے ہی کئی متنازعہ پالیسیوں کے باعث متاثر ہو چکی ہے، اور غزہ پر ممکنہ قبضے جیسا قدم اسے مزید عالمی تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔خاص طور پر مسلم ممالک میں اس فیصلے کے خلاف شدید ردِعمل آئے گا، جو نہ صرف سفارتی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو کمزور کرے گا بلکہ امریکہ کے معاشی اور تجارتی مفادات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایک طاقتور ملک ہونے کے باوجود، امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طاقت کے بے جا استعمال سے قلیل مدتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن طویل مدتی نقصانات ناگزیر ہیں۔
چین، روس، یورپی یونین اور دیگر بڑی عالمی طاقتیں بھی اس اقدام کی مذمت کریں گی، جس سے امریکہ کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہوں گے۔طاقت کے زعم کے نتائج اگرچہ طاقتور ممالک بسا اوقات اپنی فوجی قوت کے بل پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے فیصلے دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ افغانستان، عراق اور دیگر خطوں میں فوجی مداخلت کے نتائج واضح ہیں، جہاں طاقت کے بل پر مسلط کیے گئے فیصلے طویل مدتی استحکام اور امن کی بجائے مزید تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔غزہ ایک منفرد جغرافیائی، سیاسی اور سماجی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں طاقت کے بل پر قبضہ کرنا کسی بھی عملی حکمتِ عملی کے مطابق ممکن نہیں۔ مقامی آبادی کی مزاحمت، بین الاقوامی پابندیاں، اور عالمی سطح پر ممکنہ ردِعمل اسے ایک ایسی جنگ میں تبدیل کر دے گا جس کے نتائج خود قبضہ کرنے والوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
غزہ پر قبضے جیسے اقدام سے نہ صرف عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگا، بلکہ امریکہ کی اپنی معاشی، سیاسی اور سفارتی حیثیت کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔غزہ پر قبضے کا ممکنہ اقدام نہ تو قانونی ہے، نہ ہی عملی۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسترد کیا جائے گا، بلکہ امریکہ کے لئے بھی تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا اور تنازعات کے حل کے لئے پرامن اور قانونی راستے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اختیار کرنا ہی دانشمندی ہے۔ طاقت کا زعم کسی طرح کسی مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتا۔
تنازع کے حل کے لیے پرامن راستہ ہی بہترین آپشن عقلمندی اسی میں ہے کہ عالمی برادری طاقت کے غیر ضروری استعمال کی بجائے، سفارتی اور قانونی ذرائع سے فلسطینی مسئلے کا حل تلاش کرے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق مسئلے کا پرامن اور منصفانہ حل ہی حقیقی استحکام اور امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔غزہ پر قبضے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف ناقابلِ عمل ہے بلکہ عالمی برادری کی طرف سے شدید مخالفت اور ممکنہ ردِعمل کا سامنا بھی کرے گی۔ بہتر یہی ہے کہ عالمی قیادت انصاف اور امن کی راہ اختیار کرے، تاکہ ایک دیرپا اور منصفانہ حل ممکن ہو سکے۔ ورنہ طاقت کے گھمنڈ میں کئی فرعون اور نمرود نیست و نابود ہوگئے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی امریکہ کے کہ عالمی سکتا ہے طاقت کے کے لیے

پڑھیں:

پیکا ایکٹ کیخلاف درخواست، وفاقی حکومت کو نوٹس جاری

سندھ ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ کیخلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیئے۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو  پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو اس قانون میں کیا برائی نظر آتی ہے؟ اگر کوئی غلط خبر پھیلاتا ہے تو اسے سزا نہیں ہونی چاہیے؟

درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ بیرسٹر علی طاہر غلط اور صحیح کا فیصلہ کون کرے گا بنیادی سوال یہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے ہیں کچھ فیصلے اتھارٹیز کو کرنا ہوتے ہیں۔ آپ کو اتھارٹیز کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا بھی حق ہے۔

بیرسٹر علی طاہر نے موقف اپنایا کہ یہ بنیادی حقوق سے متعلق فیصلے ہیں جو عدالت کو ہی کرنے چاہیئں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے تو اس کی سماعت آئینی بینچ میں ہونا چاہئے۔ بیرسٹر علی طاہر نے موقف اپنایا کہ اٹک سیمنٹ کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ ریگولر بینچز کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیئے۔ عدالت نے 2 ہفتوں میں درخواست میں اٹھائے گئے نکات کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ کیخلاف درخواست، وفاقی حکومت کو نوٹس جاری
  • فلسطین اور کشمیر: قبضے، جبر اور عالمی سیاست کی مشترکہ کہانی
  • اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز اور ناقابل قبول ہے:پاکستان
  • اسرائیلی وزیراعظم کا بیان اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول ہے، پاکستان
  • امریکہ فلسطین پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ٹرمپ، عالمی لبرل نظام کیلئے خطرہ
  • ٹرمپ کے عالمی فوجداری عدالت کے خلاف ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط‘اسرائیل کا خیرمقدم
  • الیکشن کمیشن  نے ’ پتن ‘ کے نمائندے کا انٹرویو بے بنیاد اور حقائق  کے منافی قرار دے دیا