قصور کے روایتی کھانے فاسٹ فوڈ کلچر کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 فروری 2025ء) پاکستان کے مرکزیصوبے پنجاب کے شہر قصور میں فاسٹ فوڈ کی کسی بھی معروف چین کا کوئی نام و نشان نہیں۔ بلھے شاہ کے شہر میں جیسے ہی آپ مرکزی بازار میں داخل ہوں، قصوری فالودے اور اندرسوں کی دکانیں استقبال کرتی ہیں۔
دکانوں کے اندرونی ڈیزائن میں شیشے کا خوبصورت استعمال، مٹی کے برتن اور بلھے شاہ کی تصاویر فوڈ اسٹریٹ کو دیدہ زیب بناتے ہیں جبکہ ذائقہ ذہن میں ہمیشہ کے لیے خوشگوار تاثرات چھوڑ جاتا ہے۔
گرمی ہو یا سردی یہ سوغاتیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسی چلتی رہتی ہیں۔قصور شہر کا ''کھابہ کلچر‘‘ بہت حد تک بلھے شاہ کے دربار پہ آنے والے زائرین پر انحصار کرتا ہے، جو مرکزی بازار سے سے گزر کر عظیم شاعر کے مزار تک پہنچتے ہیں۔
(جاری ہے)
مگر یہ کھابہ کلچر ہے کیا؟
مچھلی، فالودہ اور اندرسے: قصور کی نسل در نسل مقبول سوغاتیںآج کل سردی کا موسم ہے تو کیوں نہ شروعات مچھلی سے کی جائیں۔
قصور شہر پر چھ سے زائد کتابوں کے مصنف امجد ظفر علی ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”قصور ستلج کے کنارے آباد ہوا، ابتدا میں بس ایسا تھا کہ دریا سے مچھلی پکڑی اور اپنی بھوک مٹا لی، وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار بن گیا اور آج یہاں کی مچھلی بہت مشہور ہے۔"قصور میں مچھلی کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت جاوید فش کارنر اور مانا فش کارنر کو حاصل ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید کہتے ہیں، ”ہمارے آبا و اجداد نے یہ کام 1825 میں شروع کیا اور نسل در نسل آج دو سو سال بعد بھی جاری ہے۔ جاوید فش کارنر کی مقبولیت کا راز اس کا ذائقہ ہے۔"
وہ کہتے ہیں، ”ہماری توا فش سرسوں کے تیل میں تیار ہوتی ہے، جس کے مسالا جات بھی ہمارے اپنے ہوتے ہیں۔ سردیوں کا تو کچھ نہ پوچھیں آڈر پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ایسا نہیں کہ گرمیوں میں کام بند ہو جائے، کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔
ہمارے پاس لاہور کا بہت گاہک ہے۔"لاہور جیسے تاریخی شہر میں فالودہ پوائنٹ اکثر نمایاں حروف میں ہولڈنگ بورڈز پر 'قصور‘ کا نام لکھتے ہیں، جو ایک طرح سے معیار کا اعلان ہوتا ہے۔ امجد ظفر کہتے ہیں، ”لاہور کے اکثر معروف فالودہ پوائنٹ قصور والے چلا رہے ہیں کیونکہ فالودہ یہیں سے مشہور ہوا۔"
تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ”بابر کے ساتھ سینٹرل ایشیا سے، جو لوگ آئے، انہیں قصور میں زمینیں الاٹ کی گئیں، فالودہ وہ اپنے ساتھ لائے تھے، جو قصور کی پہچان بن گیا۔
"قصور کے مشہور فالودہ پوائنٹ ایوب کے مالک احمد ایوب ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”فالودے کے چار اجزا ہیں، شیرہ، ربڑی، برف اور سویاں۔ ہمارے پاس ربڑی دودھ کے شوقین بھی بہت آتے ہیں۔ یہ چاروں ایٹم مکس کرنے کے بجائے الگ الگ برتنوں میں ورتے جاتے ہیں تاکہ گاہک اپنے مطابق برف اور شیرہ ڈال کر لطف اندوز ہو سکے۔ ہماری شاپ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کی ہے۔
"قصور کی سوغاتوں کا ذکر ہو تو ہم اندرسے کیسے بھول سکتے ہیں۔
طاہر سویٹس کے مالک شیخ طاہر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”اندرسے چاول کے آٹے سے بنتے ہیں، جو چار قسم کے ہیں۔ چینی والے، گڑ والے جو ذرا زیادہ کرسپی اور کرنچی ہوتے ہیں، کھوئے والے جو خاص یہاں کے مشہور ہیں۔ ایک خاص قسم گِری، بادام اور اخروٹ والے اندرسے ہیں، جو زیادہ تر سردیوں میں ہوتے ہیں۔
یہ ہزار روپے کلو ہیں۔ مقامی افراد کے لیے اندرسے اسی طرح ہیں جیسے چائے کے ساتھ بسکٹ یا جلیبی ہو، انہیں گرما گرم کھانے کا لطف ہی الگ ہے۔" بلھے شاہ کا مزار، جو قصور کی فوڈ اسٹریٹ کی جان ہےقصور شہر کے سابق بلدیہ رہنما شیخ نوید عارف ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”قصور کی فوڈ اسٹریٹ کی رونقیں بلھے شاہ کے دم سے ہیں۔
خاص دنوں میں تو یہاں بازار سے گزرتے ہوئے کندھے سے کندھا چِھلتا ہے مگر عام دنوں میں بھی رش کم نہیں ہوتا۔ مقامی دکانداروں کے رزق کا بڑا ذریعہ یہی زائرین ہیں، جو نہ صرف خود لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنے خاندان اور دوستوں کے لیے بھی سوغاتیں ساتھ لے جاتے ہیں۔"امجد ظفر کہتے ہیں، ”بازار اور مزار ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ ہر آنے جانے والا فوڈ اسٹریٹ سے گزرتا ہے۔
اگر بازار ذرا ہٹ کے ہوتا تو کاروباری صورتحال اور دکانداروں کی ترجیحات مختلف ہوتیں۔"کھانوں کی تاریخ اور یہ مزیدار کیسے ہوئے؟
ان کے بقول، ”قصور میں دیگر مزار بھی ہیں، کہیں نہ کہیں عرس چلتا رہتا ہے۔ مختلف ثقافتی سرگرمیاں اور میلے ہوتے رہتے ہیں، جو آس پاس کی آبادیوں کو کھینچ لاتے ہیں۔ فوڈ اسٹریٹ کو اس سب کا فائدہ پہنچتا ہے۔
"احمد ایوب کہتے ہیں، ”کرونا کے وقتوں میں جب ٹرانسپورٹ پر پابندی لگی لیکن مقامی سطح پر کچھ وقت کے لیے دکانیں کھولنے کی اجازت تھی، تب ہمیں صحیح طرح ادراک ہوا کہ باہر سے آنے والا گاہک ہمارے لیے کتنی بڑی نعمت ہے۔"
قصور کے روایتی کھانے فاسٹ فوڈ کلچر کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟پانچ لاکھ کی آبادی والے قصور شہر کی فوڈ اسٹریٹ کسی بھی طرح شہری علاقے کی وائب نہیں دیتی۔
کسی معروف پیزا ہٹ کی کوئی برانچ ہے نہ برگر یا پاستہ وغیرہ کا ممی ڈیڈی کلچر۔ اگر فاسٹ فوڈ تیزی سے چھوٹے شہروں میں مقبول ہو رہا ہے تو قصور کا معاملہ مختلف کیوں ہے؟امجد ظفر کہتے ہیں، ”اس کی مختلف وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً یہاں ایک چھوٹی سی پرائیویٹ یونیورسٹی کے علاؤہ ہائر ایجوکیشن کا کوئی ادارہ نہیں۔ نوجوانوں کے ہاسٹلز نہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ فاسٹ فوڈ وہاں زیادہ تیزی سے مقبول ہو رہا، جہاں نوجوان لڑکیاں لڑکے ہوں۔"ان کے بقول، ”لاہور قریب ہے، جیسے ہی بچے یونیورسٹیوں میں پہنچیں وہ شہر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس طرح فاسٹ فوڈ کی شوقین نسل قصور کی فوڈ سٹریٹ سے کٹ جاتی ہے۔"
اپنی رائے پیش کرتے ہوئے احمد ایوب کہتے ہیں، ”یہاں برگر وغیرہ کے لوکل پوائنٹس ہیں، چھوٹی موٹی ریڑھیاں ہیں، جو لوگوں کی بہت معمولی انویسٹمنٹ ہے۔
کوئی معروف فرنچائز بڑی سرمایہ کاری کر کے رسک کیوں لے گی، جب اس کا پوٹینشل کلائنٹ ہی یہاں نہیں۔"امجد ظفر کے مطابق، ”اِدھر کی فوڈ سٹریٹ ایک پوری تاریخ رکھتی ہے، فالودہ اور اندرسے قصور کے کلچر میں پیوست ہیں۔ جو چیز کلچر کا حصہ بن جائے، اسے کسی دوسری چیز سے بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر فاسٹ فوڈ ایک کلچر ہے تو قصوری فالودہ، مچھلی اور اندرسے بھی ایک کلچر ہے۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو فوڈ اسٹریٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں ہوتے ہیں قصور کے کے ساتھ قصور کی کی فوڈ کے لیے
پڑھیں:
اب گولیوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کے ساتھ آئیں گے، جنید اکبر کی دھمکی
پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہاکہ اس بار جب ہم عمران خان کی کال پر احتجاج کے لیے نکلیں گے تو گولیوں کی تیاری کے ساتھ نکلیں گے۔
صوابی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں کہاکہ وزیر داخلہ محسن نقوی کو شرم آنی چاہیے جو یہ کہتا ہے کہ اب اگر کوئی احتجاج کرےگا تو 26 نومبر جیسا جواب دیا جائےگا۔ انہوں نے ہمارے نہتے کارکنوں پر گولیاں چلائیں۔
جنید اکبر نے کہاکہ جو لوگ کہتے تھے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان تھک گئے ان کو آج پیغام مل گیا، یہ لوگ ہماری خواتین کو نہیں توڑ سکے تو ہمارے کارکنوں کو کیا توڑیں گے۔
صدر پی ٹی آئی کے پی نے کہا کہ عمران خان جب بھی کال دیں گے ہم تیاری کے ساتھ بڑی تعداد میں نکلیں گے۔ 26 نومبر کو ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا ہمیں اداروں سے اس کی امید نہیں تھی۔
جنید اکبر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کو پارلیمنٹ تو دے سکتے ہیں، لیکن دلوں پر راج نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مضبوط پاکستان کے لیے مضبوط ادارے ہونے چاہییں، لیکن یہ تب ہوتا ہے جب اداروں کے پیچھے عوام ہوں۔
جنید اکبر نے کہا کہ اداروں نے حکومت کی صورت میں جو بندوق اپنے اپنے کندھوں پر رکھی ہے یہ ان کے لیے بھی بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اوورسیز پاکستانیوں کا شکریہ جنہوں نے ہمیں سپورٹ کیا اور ہماری بات دنیا تک پہنچی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں