اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 فروری 2025ء) تاریخ ہمیشہ کئی نظریات اور مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس لیے تاریخ کے ذریعے حکمراں طبقے اپنے عدل، انصاف، فیاضی، سخاوت، بہادری اور شجاعت کی داستانیں محفوظ کراتے رہے ہیں۔ تاریخ میں ہم یہ روایت دیکھتے ہیں کہ جب ایک شاہی خاندان کی حکومت ختم ہوتی ہے اور دوسرا خاندان اُس کی جگہ لیتا ہے تو وہ اپنے اقتدار کو جائز قرار دینے کے لیے سابق حکومت کے ظُلم و ستم کو لکھواتا ہے جیسے عباسیوں نے اُمیہ کے دور کو تاریک کہا، یا مغلوں نے سُوری خاندان کی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کیا۔
ریاست کی دستاویزات تاریخ کی اہم ماخذ ہوتی ہیں۔ اُنیسویں صدی تک یہ سرکاری دستاویزات کو پبلک کیا گیا تو ریاستی حکام نے پہلے اس کا جائزہ لیا کہ کونسی اُن کے حق میں ہیں اور کونسی اُن کے خلاف۔
(جاری ہے)
مخالف یا تنقیدی دستاویزات کو یا تو جلا دیا گیا یا اُنہیں سَرد خانے میں ڈال کر محفوظ کر دیا گیا۔
ضرورت کے مطابق بعض دستاویزات میں ردوبدل کے بعد اُسے پارلیمنٹ یا ریاستی اداروں کے لیے تیار کیا گیا۔
اس کی ایک مثال پہلی افغال وار میں الیگزینڈر برںَس کی وہ رپورٹس ہیں، جو انہوں نے برٹش پارلیمنٹ کے لیے لکھی تھیں۔ کیونکہ اس میں ہندوستان کی برطانوی حکومت اور انگلستان کی حکومت پر تنقید ہے۔ اس لیے رپورٹ کو تبدیل کرنے کے بعد اسے برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، جو بعد میں پارلیمنٹ کے Blue book میں شائع ہوئی۔ اس جعلسازی کو ڈاکٹر سائرہ انصاری نے اپنے مقالمے میں بیان کیا ہے۔ اس قسم کی تاریخی دستاویزات میں اس قسم کی جعلسازیاں عام رہی تھیں۔یہ رسم بھی تھی کہ دستاویزات کو جلا کر اپنے خلاف ہونے والے تمام جرائم کے نشانات کو مٹا دیا جائے۔ فرانسیسی ادیب ڈومینک لیپیئر اور امریکی ادیب لیری کولنز نے اپنی کتاب فریڈم ایٹ مڈنائٹ میں لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد برطانوی حکام نے جاتے ہوئے مقامی حکمرانوں کے ان تمام دستاویزات کو جن میں اُن کی عیاشی، بدانتظامی اور نااہلی کے واقعات درج تھے، اُنہیں جلا دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ انگریزوں کی جانب سے ان مقامی حکمرانوں کے تعاون کا صلہ تھا جو وہ برطانوی حکومت کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ مقامی حکمراں ان کو فنڈز دیتے تھے، اور جنگ کے موقع پر انہیں فوجی امداد بھی دیتے تھے۔برطانوی حکومت ایشیا اور افریقہ کی کالونیوں کے آزاد ہونے کے بعد اپنی تمام خفیہ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے تا کہ تاریخ میں اُن کے جرائم روپوش رہیں۔
دستاویزات کی جعلسازی کو ثابت کرنے کے لیے موجودہ دور میں سائنس نے بڑی مدد کی ہے۔ جو تاریخی مواد پتھر کی چٹانوں پر نقش ہوتا تھا اُسے تو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پارچمنٹ اور کاغذ پر لکھی تحریر کو مٹا کر یا تو اُس کی خالی جگہ پر اپنے مفاد کی خاطر تحریر بدل دی جاتی ہے۔اَب مورخوں نے دستاویز کی اصلیت کو جانچنے کے معیار مقرر کیے ہیں۔
مثلاً جس کاغذ پر دستاویز ہے اُسے کس مواد سے تیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ کاغذ بنانے کے لیے کبھی کپڑا اور روٹی استعمال ہوتی تھی اور کبھی درختوں کا گودا۔ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ تحریر میں کس عہد کی روشنائی کو استعمال کیا گیا ہے، اور آخر میں یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ لسانیات کے اعتبار سے یہ کس عہد کی زبان میں تحریر کردہ ہے۔ اس تجزیے کے بعد اصل اور جعلی دستاویز کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جب روس، امریکہ اور یورپ کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی تو دونوں جانب سے خفیہ ایجنسیوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے منصوبوں کے بارے میں اپنے اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے معلومات حاصل کیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کم فلبی (Kim Philby) ایک ڈبل ایجنٹ تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریے کے حامی تھے مگر اپنی سوچ اور نظریے کو کبھی ظاہر نہیں کرتے تھے۔
ان کے ذریعے روس کو امریکی منصوبوں کی معلومات ملتی رہتی تھیں۔ پھر کاؤنٹر ایجنٹوں نے ان کے ڈبل ایجنٹ ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا۔ اس سے پہلے کہ اُنہیں گرفتار کیا جاتا فلبی روس چلے گئے اور ساری زندگی وہیں گزار دی۔جب 1978ء میں ایرانی انقلاب کے موقع پر طلباء نے مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا تھا، اور وہ تمام دستاویزات جو ایران، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں تھیں، اُن کو کئی جِلدوں میں شائع کر کے امریکہ کے خفیہ منصوبوں کو عام کیا۔
پاکستان میں اگرچہ آرکائیوز کے ادارے ہر صوبے میں موجود ہیں مگر ان کی تمام دستاویزات تقسیم سے پہلے کی ہیں۔ان میں بھی وہ دستاویزات نہیں ہیں، جو برطانوی حکومت نے تیار کرائیں تھیں۔ ان میں سی۔آئی۔ڈی، پولیس، سیاسی جماعتوں کے بارے میں معلومات اور عدالتی اور جیل کا ریکارڈ شامل نہیں ہیں۔ پاکستانی ریاست نے بھی تقسیم کے بعد آرکائیوز کو سرکاری ریکارڈ نہیں دیا۔
محمود الرحمن کی بنگلہ دیش پرتحقیقاتی رپورٹ کا کچھ حصہ شائع ہوا ہے مگر باقی حصہ شائع نہیں کیا گیا۔جب تاریخی دستاویزات کو مسخ کیا جائے یا ان میں جعلی کاغذات کو شامل کیا جائے تو تاریخ کا اصل مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ ان دستاویزات کا کام لوگوں میں سوچ اور فکر کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب جعلی دستاویزات تیار ہوں، جعلی خاندانی شجرے لکھے جائیں اور تاریخ کی جعلی کتابیں شائع کی جائیں، تو ایسی تاریخ لوگوں کو گمراہ کرے گی اور تاریخ میں ہونے والے واقعات کی اصلیت کو چھپا کر جعلسازی کے ذریعے لوگوں کو ذہنی طور پر سوچ اور فکر سے محروم کرے گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے برطانوی حکومت دستاویزات کو کے بارے میں کے ذریعے کے بعد ا جاتا ہے کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
گزشتہ ماہ انسانی تاریخ کا گرم ترین جنوری رہا ‘ رپورٹ
برسلز (مانیٹرنگ ڈیسک ) یورپی موسمیاتی ادارے کوپر نیکس کی کلائیمٹ چینج سروس نے رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ماہ انسانی تاریخ کا گرم ترین جنوری رہا ۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ جنوری 2025 ء میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.75 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں برس کی ابتدا ہی حیران کن ماہ سے ہوئی ہے ،جس میں اوسط عالمی درجہ حرارت نے صنعتی عہد سے قبل ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔واضح رہے کہ اس سے قبل خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ موسمیاتی رجحان لانینا سے بحر الکاہل کے پانیوں کا درجہ حرارت کم ہوا ہے تاہم اس کے باجود عالمی درجہ حرارت میں کوئی کمی واقع نہیں پوئی۔ یورپی ادارے کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اسی طرح عالمی درجہ حرارت میں اضافہ مسلسل 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زاید رہتا ہے تو ہیٹ ویوز، شدید بارش اور خشک سالی کی شدت اور دورانیے میں بھی سنگین حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ توقع بھی ظاہر کی گئی ہے رواں سال گزشتہ 2 برسوں کی طرح بہت زیادہ گرم ثابت نہیں ہوگاتاہم موجودہ موسمیاتی بحران کے تناظر میں اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔