مصنوعی ذہانت خطرہ یا ٹیکنالوجی کا انقلاب، اقوام عالم اسے ریگولیٹ کیوں کرنا چاہتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او ای سی ڈی مصنوعی ذہانت کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بنانے بنانے سے متعلق رپورٹ کی حمایت کی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے سائبر حملوں اور حیاتیاتی خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔
اتوارکو فرانس میں مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک کانفرنس سے قبل دنیا بھر کے ماہرین نے مصنوعی ذہانت کو انسانی کنٹرول اور اس کے خطرات سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ریگولیشن کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانس نے کانفرنس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ دُنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں، کاروباری ادارے اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والی دیگر کمپنیاں ’اےآئی‘ سے متعلق عالمی قوانین بنانے کے حق میں سامنے آئیں اور ان قوانین پر عملدرآمد کے وعدے کریں۔
فرانسیسی صدرایمانوئل میکرون کے لیے مصنوعی ذہانت کی سفیراین بوویروٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف خطرات کے بارے میں بات کرنے میں اپنا وقت نہیں گزارنا چاہتے ہیں، ہمیں اس کے دیگر فائدہ مند اور نقصاندہ پہلوؤں پر بھی بات کرنی چاہیے۔
ادھر امریکا میں قائم فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ میکس ٹیگ مارک کا کہنا ہے کہ فرانس کو اس سے متعلق کسی بھی کارروائی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
ادھر ٹیگ مارک کے انسٹی ٹیوٹ نے اتوار کو گلوبل رسک اینڈ اے آئی سیفٹی پریپریڈینس (جی آر ای ایس پی) کے نام سے ایک پلیٹ فارم لانچ کرنے کی حمایت کی ہے جس کا مقصد مصنوعی ذہانت سے منسلک بڑے خطرات اور ان سے بچنے کے لیے حل کا خاکہ بنانا گیا ہے۔
جی آر پی کے کوآرڈینیٹرسائرس ہوڈس نے کہا کہ ’ہم نے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے تقریباً 300 ٹولز اور ٹیکنالوجیز کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سروے کے نتائج او ای سی ڈی امیر ممالک کے کلب اور گلوبل پارٹنرشپ آن آرٹیفیشل انٹیلی جنس (جی پی اے آئی) کے ارکان کو بھیجے جائیں گے، جو تقریباً 30 ممالک پر مشتمل ایک گروپ ہے جس میں بڑی یورپی معیشتیں، جاپان، جنوبی کوریا اور امریکا جیسے ممالک شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے جمعرات کو پہلی بین الاقوامی مصنوعی ذہانت کی سیفٹی رپورٹ بھی پیش کی گئی، جسے 96 ماہرین نے مرتب کیا جسے 30 ممالک، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او ای سی ڈی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
رپورٹ کے کوآرڈینیٹر اور معروف کمپیوٹر سائنسدان یوشوا بینجیو نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت کےذریعے حیاتیاتی یا سائبرحملوں جیسے خطرات کے ثبوت مسلسل سامنے آرہے ہیں۔
2018 کے ٹورنگ انعام یافتہ یوشوا بینجیو کو خدشہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم پرانسانوں کا ممکنہ ’کنٹرول کھو جائے گا‘ جودنیا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ٹیگ مارک نے اوپن اے آئی کے چیٹ بوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ چیٹ جی پی ٹی -4 کا کسی بھی زبان پرمہارت حاصل کرنا 6 سال پہلے کوئی سائنس فکشن تھا، لیکن سب نے دیکھا یہ تو ایک حقیقت تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار میں موجود تمام حکومتیں اب بھی یہ نہیں سمجھ پائیں کہ ہم مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) بنانے کے قریب تو ہیں لیکن اسے کنٹرول کیسے کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اجلاس اقتدار اقوام متحدہ امریکا انقلاب اوپن اے آئی اے آئی اے جی آئی بھارت بینچیو پاکستان حقیقت حکومتیں حملے حیاتیاتی خطرہ سائبر سسٹم فرانس کانفرنس کمپیوٹر کنٹرول مصنوعی ذہانت وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اجلاس اقوام متحدہ امریکا انقلاب اوپن اے ا ئی اے ا ئی اے جی ا ئی بھارت بینچیو پاکستان حکومتیں حملے کانفرنس کمپیوٹر کنٹرول مصنوعی ذہانت وی نیوز مصنوعی ذہانت کے لیے
پڑھیں:
امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ادارے ‘بین الاقوامی تجارتی مرکز’ (آئی ٹی سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پامیلا کوک ہیملٹن نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دیگر ممالک پر تجارتی ٹیرف عائد کیے جانے سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔
جینیوا مین ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی اس پالیسی کا نتیجہ ٹیرف سے بچنے کے لیے طویل المدتی طور پر علاقائی تجارتی روابط کی تشکیل نو اور ان میں وسعت و مضبوطی کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔
ہیملٹن کے مطابق اس سے سپلائی چین میں تبدیلی اور بین الاقوامی تجارتی اتحادوں کی تجدید کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو امریکا کی جانب سے چین کے علاوہ بیشتر ممالک پر عائد کردہ تجارتی ٹیرف کے اطلاق میں 3 مہینے تاخیر کا اعلان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے ان فیصلوں سے میکسیکو، چین اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے علاوہ جنوبی افریقی ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے اور خود امریکا بھی ان فیصلوں کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔
انہوں نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تخمینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں چین اور امریکا کے مابین تجارت میں 80 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا
پامیلا کوک نے کہا کہ میکسیکو نے اپنی برآمدی اشیا کا رخ امریکا، چین، یورپ اور لاطینی امریکا کی اپنی روایتی منڈیوں سے ہٹا کر کینیڈا، برازیل اور کسی حد تک انڈیا کی جانب موڑ دیا ہے جو اس کے لیے قدرے فائدہ مند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیگر ممالک بھی میکسیکو کی تقلید کر رہے ہیں جن میں ویت نام بھی شامل ہے جس کی برآمدات اب امریکا، میکسیکو اور چین سے ہٹ کر یورپی یونین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کی جانب جا رہی ہیں۔
پامیلا کوک ہیملٹن نے واضح کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ٹیرف کے اطلاق کو 90 روز تک روکے جانے سے عالمی تجارت کو فائدہ نہیں ہو گا اور اس وقفے سے استحکام کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو پہلے بھی ایسے حالات کا سامنا ہو چکا ہے۔ گزشتہ 50 برس میں متعدد مواقع پر دنیا اس سے ملتے جلتے حالات سے گزر چکی ہے تاہم اس مرتبہ صورتحال قدرے زیادہ سخت اور متزلزل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
american tarrifs Trade اقوام متحدہ امریکی ٹیرف تجارت