جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو 10اپریل 2022ء کو 1035 دن گزر چکے ہیں اور جب آپ یہ پڑھ رہے ہیں یہ 1036 واں دِن گزر رہا ہے۔ قریب قریب، تین برس پہلے کا دس اپریل وہ دن تھا جب اس وقت کے نصب شدہ وزیراعظم اپنے اوپر سے مقتدر قوتوں کی چھتری اٹھنے کے بعد اتحادیوں کی حمایت کھو بیٹھے تھے جو ڈنڈے کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی انہیں درجنوں ایسی سیٹیں ملی تھیں جو دھونس اور دھاندلی کی وجہ سے تھیں،انتخابی نتائج والا سافٹ وئیر آر ٹی ایس بٹھانے کے بعد ملی تھیں۔ اپریل 2022ء کے بعدعمران خان کے لئے دوسرا اہم ترین دن 5اگست 2023ء کا تھا جب وہ توشہ خانہ کیس میں سزا پانے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ اس گرفتاری کو بھی ساڑھے پانچ سو کے بعد مزیددو دن اوپر گزر چکے ہیں۔ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ایسے بہت سارے ٹویپس یا ٹرولز موجود ہیں جو ایک 1035 دنوں سے ہی مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں واپس آ رہا ہے اور ساڑھے پانچ سو دنوں سے دوسرا جھوٹ بول رہے ہیں کہ مقتدر حلقے اس سے کوئی ڈیل کر رہے ہیں اور وہ رہا ہونے جا رہا ہے۔ ہمارا ایک ’نیم صحافی‘ تو اس کے ساتھ سابقے لاحقے لگا کے یہ بھی لکھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ یعنی عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر واپس آ رہا ہے۔ مجھے آج تک وہ ڈنکا نہیں ملا مگر وہ چوٹیں ضرور مل جاتی ہیں جو ایک کے بعد دوسری لگ رہی ہیں۔ میرے پاس کوئی علم نجوم نہیں ہے مگر میں پاکستان کی سیاست کا ایک طالب علم ضرور ہوں ، ایوانوں کے اندر ، باہر، نیچے اور پیچھے ہونے والی بہت ساری پیش رفتوں کا عینی شاہد اور اسی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر عمران خان خود بھی یہ کہتا ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، گمراہ کرتا ہے۔
یہ بات نہیں کہ عمران خان نے اس دوران ایوان اقتدار میں دوبارہ جانے یا جیل سے باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں ’ اوور ‘ ہو گیا جیسے 9 مئی 2023 ء کی کوشش۔ مگر اس سے پہلے ہمیں ان کوششوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو اس نے عارف علوی کے ایوان صدر میں ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کی تھیں یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ سے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ملاقات۔ اس نے فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج اس کی مدد کرے اور اسے ( درست طور پر) خدشہ تھا کہ اگر قمر جاوید باجوہ کے بعد ایک بہت ہی ایماندار، جرات مند ، محب وطن اور پروفیشنل جرنیل حافظ عاصم منیر نے فوج کی قیادت سنبھال لی تواس کے لئے ایسی ملاقات بھی ممکن نہیں رہے گی لہٰذا اس نے لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کے دروازے روات تک ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا تاکہ ان کی فوج کی سربراہی کو روک سکے مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا تھا۔ نو مئی اس کی سب سے بڑی موو تھی جب اس نے اپنی گرفتاری کی صورت میں ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور قبضوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اتنی بڑی سازش تھی کہ اس میں کچھ بڑے جرنیل اور کچھ اس کے نیچے کے عہدیدار بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے بھی اس بارے تفتیش کی جا رہی ہے اور ان کے سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے اور ڈانڈے مل رہے ہیں۔ عمران خان نے فوج کو ہر طرح سے دباو میں لانے کی کوشش کی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ دے اوراس کو اقتدار دینے کے لئے سہولت کاری کرے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ میں آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کروائے۔ اس نے اپنے اسرائیلی اور امریکی سرپرستوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان سے قراردادیں منطور کروائیں۔ کرائے پر دستیاب امریکی سیاستدانوں سے ٹوئٹ اور تقریریں کروائیں مگر وہ سب ناکام رہے۔عمران خان فوج اور پی ڈی ایم کی دشمنی میں ملک اور عوام تک کا دشمن بن گیا اوراس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی جو اب بھی سول نافرمانی کی جاری کال کی صورت میں جاری ہے ۔
میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو8 فروری کے انتخابات کو بھی ایک سال مکمل ہوچکا ۔ اس ایک برس میں پی ٹی آئی کو سب سے بڑا سیاسی نقصان پنجاب میں ہوا ہے کہ جب عمران خان نے فائنل کال دی تو اس صوبے سے کسی ایک جگہ سے بھی ایک سو بندے ایک ساتھ نہیں نکلے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لاہور جیسے سیاسی شہر کی سڑکوں پر اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے ایکسپوز ہوئے۔ ہمیں ان انتخابات اور ان میں لگائے ہوئے الزامات کا بھی حقیقی، عقلی اور منطقی جائزہ لینا ہو گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس نے 180 سیٹیں جیتیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے ان سیٹوں پر انتخابی عذر داریاں دائر کیں جن پر اسے اس کے مطابق ہروایا گیا مگراس کے پاس اس کی جیت کے ثبوت فارم 45موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی عذر داریوں میں مسلم لیگ نون کے خلاف تو دھاندلی ثابت نہیں کر سکی مگر وہ خود اپنی جیتی ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک درجن سے زائد مختلف سیٹیں ضرور کھو بیٹھی۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ جنوری کے آغاز میں جب حکومت سے مذاکرات شروع ہو رہے تھے تو پی ٹی آئی عملی طور پر گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے آڈٹ کے مقابلے سے دستبردار ہو گئی تھی ، یہ مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں موجود ہی نہیں تھا، پی ٹی آئی کو علم تھا کہ اس کے پاس فارم 47کے ذریعے دھاندلی کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہیں جیسے 26جنوری کو مارے جانے والے یاغائب ہونے والوں کے شناختی کارڈ نمبر۔
مجھے ماضی کو بہت زیادہ ڈسکس نہیں کرنا کیونکہ بہت سارے اہل نظر سب جانتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ 1035 دنوں کے بعد بھی عمران خان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ دس اپریل کو تھے بلکہ اسے مزید واضح کر لیجئے کہ وہ اپنی مزید حماقتوں سے مزید بری صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ملک دشمن حرکتوں سے ان بندشوں کو مزید مضبوط کر لیا ہے جن میں وہ اپنی نااہلی، بدعنوانی اورہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسایا تھا۔ وہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعدبڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں۔ شہباز شریف اور مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی روئے چیخئے یا پیٹے، پی ٹی آئی ختم شُد ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی یہ ہے کہ رہے ہیں رہا ہے کے بعد کے لئے مگر وہ تھا کہ
پڑھیں:
دروازے بند نہیں کیے، اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک کسی کو نہیں سونپا، عمران خان
سابق وزیراعظم عمران خان کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کیے گئے وکلا کے لیے پیغام میں کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک کسی کو نہیں سونپا۔ ڈیل نہ پہلے کی نہ اب کروں گا۔ ڈیل کا خواہاں ہوتا تو 2 سال قبل ڈیل کر لیتا، جس میں میرے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کے عوض 2 سال کی خاموشی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
میرے نزدیک مذاکرات لایعنی ہیں
عمران خان کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ علی امین گنڈاپور اور اعظم سواتی نے مذاکرات کی خواہش کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن میرے نزدیک مذاکرات لایعنی ہیں کیونکہ دوسرے فریق کی نیت مسائل کے حل کی بجائے محض کچھ مزید وقت مستعار لینے کی ہوتی ہے۔
اپنے تئیں مذاکرات
علی امین اور اعظم سواتی اپنے تئیں مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے پہلے بھی واضح طور پر بتایا ہے کہ بطور سیاسی جماعت مذاکرات میں کوئی قباحت نہیں، نہ کبھی مذاکرات کے دروازے بند کیے ہیں، لیکن مذاکرات کا اصل محور پاکستان، آئین و قانون کی بالادستی اور عوامی مفاد ہو نہ کہ میرے یا میری اہلیہ کے لیے کسی بھی قسم کی ڈیل کی خواہش۔
مائنز اور منرلزبل کا معاملہ
مائنز اور منرلزبل کے حوالے سے جب تک وزیراعلیٰ علی امین اور خیبرپختونخوا کی سینیئر سیاسی قیادت تفصیلی بریفنگ نہیں دیتی، یہ عمل آگے نہیں بڑھے گا-
نواز شریف کو روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتوں کی اجازت تھی
پیغام میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 7 ماہ سے میرے رفقا اور ایک ماہ سے میری بہنوں اور وکلا سے ملاقات نہیں ہونے دی جا رہی۔ نواز شریف کو روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتوں کی اجازت تھی جبکہ میری ’دہشت‘ کا یہ عالم ہے کہ میری ملاقاتوں میں اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے باوجود متعین کردہ دنوں پر بھی رخنہ ڈالا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ میرے بچوں سے کال پر بھی بات نہیں کروائی جاتی، میرے ذاتی معالج کو بھی مجھ تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ میں نے قانونی کمیٹی کو جیل انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی بھی ہدایات جاری کی ہیں۔
مقتدر مافیا کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے
افغان پناہ گزینوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے مقتدر مافیا کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ افغانستان کے خلاف اپنائی جانے والی موجودہ پالیسی سے نفرت کو مزید ہوا ملے گی اور دہشتگردی میں مزید اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معصوم شہری اور فورسز کے اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔
توئٹرپیغام میں کہا گیا ہے کہ اس پالیسی کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی میں قرارداد پیش کریں جس میں مہاجرین کی ملک بدری کے وقت میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔
وفاق کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت کو افغان حکومت سے بات کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ دہشتگردی کی وجہ سے وہ بحیثیت صوبہ بہت متاثر ہورہے ہیں۔ اس آگ کو ہوا دینے کی بجائے معاملہ فہمی سے بجھانے کی کوشش کریں۔
الیکشن ٹربیونلز عملاً بالکل ناکارہ ہیں
عمران خان سے منسوب پیغام میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز عملاً بالکل ناکارہ ہیں۔ اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی کے بجائے ان کی بھی پوری توجہ مافیا کو بچانے پر مرکوز ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے ایک قراداد منظور کی جائے جس میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ الیکشن ٹریبونلز کے ججز کو ہدایت دی جائیں کہ تحریک انصاف کی زیر التوا تمام الیکشن پٹیشنز پہ جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔
پارٹی ممبران کے آپسی اختلافات
پیغام میں کہا گیا ہے کہ پارٹی ممبران کے آپسی اختلافات کا عوامی فورمز اور میڈیا پر اظہار اپنے مخالفین کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔ اختلافات کو پبلک کرنے کی بجائے اس امر کو یقینی بنائیں کہ معاملات کو بہتر طریقے سے پارٹی فورمز پر حل کر سکیں۔
پورا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہے
عمران خان کے ٹوئٹر پیڈل سے جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی واحد وفاقی جماعت ہے جو اپنے طور پر کسی بھی وقت ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلا سکتی ہے۔ کوئی بھی جماعت کمزور تب ہوتی ہے اگر عوام اس کے ساتھ نہ ہو۔ اس وقت پورا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن ہماری خواہش ہے کہ متفقہ نکات پر ہم باقی پارٹیوں کو بھی ساتھ ملا کر چلیں۔
پیغام میں کہا گیا ہے کہ میں اپنی سیاسی قیادت کو ہدایت کرتا ہوں کہ موجودہ و ممکنہ اتحادیوں سے رابطے کا عمل تیزی سے مکمل کر کے اتحاد کو حتمی شکل دی جائے اور مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے، احتجاج سمیت تمام آپشنز ٹیبل پہ موجود ہیں۔ حکمت عملی کا اعلان جلد کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں