Nai Baat:
2025-02-09@23:56:25 GMT

1035 دن بعد

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

1035 دن بعد

جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو 10اپریل 2022ء کو 1035 دن گزر چکے ہیں اور جب آپ یہ پڑھ رہے ہیں یہ 1036 واں دِن گزر رہا ہے۔ قریب قریب، تین برس پہلے کا دس اپریل وہ دن تھا جب اس وقت کے نصب شدہ وزیراعظم اپنے اوپر سے مقتدر قوتوں کی چھتری اٹھنے کے بعد اتحادیوں کی حمایت کھو بیٹھے تھے جو ڈنڈے کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی انہیں درجنوں ایسی سیٹیں ملی تھیں جو دھونس اور دھاندلی کی وجہ سے تھیں،انتخابی نتائج والا سافٹ وئیر آر ٹی ایس بٹھانے کے بعد ملی تھیں۔ اپریل 2022ء کے بعدعمران خان کے لئے دوسرا اہم ترین دن 5اگست 2023ء کا تھا جب وہ توشہ خانہ کیس میں سزا پانے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ اس گرفتاری کو بھی ساڑھے پانچ سو کے بعد مزیددو دن اوپر گزر چکے ہیں۔ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ایسے بہت سارے ٹویپس یا ٹرولز موجود ہیں جو ایک 1035 دنوں سے ہی مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں واپس آ رہا ہے اور ساڑھے پانچ سو دنوں سے دوسرا جھوٹ بول رہے ہیں کہ مقتدر حلقے اس سے کوئی ڈیل کر رہے ہیں اور وہ رہا ہونے جا رہا ہے۔ ہمارا ایک ’نیم صحافی‘ تو اس کے ساتھ سابقے لاحقے لگا کے یہ بھی لکھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ یعنی عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر واپس آ رہا ہے۔ مجھے آج تک وہ ڈنکا نہیں ملا مگر وہ چوٹیں ضرور مل جاتی ہیں جو ایک کے بعد دوسری لگ رہی ہیں۔ میرے پاس کوئی علم نجوم نہیں ہے مگر میں پاکستان کی سیاست کا ایک طالب علم ضرور ہوں ، ایوانوں کے اندر ، باہر، نیچے اور پیچھے ہونے والی بہت ساری پیش رفتوں کا عینی شاہد اور اسی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر عمران خان خود بھی یہ کہتا ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، گمراہ کرتا ہے۔

یہ بات نہیں کہ عمران خان نے اس دوران ایوان اقتدار میں دوبارہ جانے یا جیل سے باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں ’ اوور ‘ ہو گیا جیسے 9 مئی 2023 ء کی کوشش۔ مگر اس سے پہلے ہمیں ان کوششوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو اس نے عارف علوی کے ایوان صدر میں ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کی تھیں یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ سے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ملاقات۔ اس نے فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج اس کی مدد کرے اور اسے ( درست طور پر) خدشہ تھا کہ اگر قمر جاوید باجوہ کے بعد ایک بہت ہی ایماندار، جرات مند ، محب وطن اور پروفیشنل جرنیل حافظ عاصم منیر نے فوج کی قیادت سنبھال لی تواس کے لئے ایسی ملاقات بھی ممکن نہیں رہے گی لہٰذا اس نے لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کے دروازے روات تک ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا تاکہ ان کی فوج کی سربراہی کو روک سکے مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا تھا۔ نو مئی اس کی سب سے بڑی موو تھی جب اس نے اپنی گرفتاری کی صورت میں ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور قبضوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اتنی بڑی سازش تھی کہ اس میں کچھ بڑے جرنیل اور کچھ اس کے نیچے کے عہدیدار بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے بھی اس بارے تفتیش کی جا رہی ہے اور ان کے سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے اور ڈانڈے مل رہے ہیں۔ عمران خان نے فوج کو ہر طرح سے دباو میں لانے کی کوشش کی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ دے اوراس کو اقتدار دینے کے لئے سہولت کاری کرے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ میں آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کروائے۔ اس نے اپنے اسرائیلی اور امریکی سرپرستوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان سے قراردادیں منطور کروائیں۔ کرائے پر دستیاب امریکی سیاستدانوں سے ٹوئٹ اور تقریریں کروائیں مگر وہ سب ناکام رہے۔عمران خان فوج اور پی ڈی ایم کی دشمنی میں ملک اور عوام تک کا دشمن بن گیا اوراس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی جو اب بھی سول نافرمانی کی جاری کال کی صورت میں جاری ہے ۔

میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو8 فروری کے انتخابات کو بھی ایک سال مکمل ہوچکا ۔ اس ایک برس میں پی ٹی آئی کو سب سے بڑا سیاسی نقصان پنجاب میں ہوا ہے کہ جب عمران خان نے فائنل کال دی تو اس صوبے سے کسی ایک جگہ سے بھی ایک سو بندے ایک ساتھ نہیں نکلے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لاہور جیسے سیاسی شہر کی سڑکوں پر اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے ایکسپوز ہوئے۔ ہمیں ان انتخابات اور ان میں لگائے ہوئے الزامات کا بھی حقیقی، عقلی اور منطقی جائزہ لینا ہو گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس نے 180 سیٹیں جیتیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے ان سیٹوں پر انتخابی عذر داریاں دائر کیں جن پر اسے اس کے مطابق ہروایا گیا مگراس کے پاس اس کی جیت کے ثبوت فارم 45موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی عذر داریوں میں مسلم لیگ نون کے خلاف تو دھاندلی ثابت نہیں کر سکی مگر وہ خود اپنی جیتی ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک درجن سے زائد مختلف سیٹیں ضرور کھو بیٹھی۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ جنوری کے آغاز میں جب حکومت سے مذاکرات شروع ہو رہے تھے تو پی ٹی آئی عملی طور پر گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے آڈٹ کے مقابلے سے دستبردار ہو گئی تھی ، یہ مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں موجود ہی نہیں تھا، پی ٹی آئی کو علم تھا کہ اس کے پاس فارم 47کے ذریعے دھاندلی کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہیں جیسے 26جنوری کو مارے جانے والے یاغائب ہونے والوں کے شناختی کارڈ نمبر۔

مجھے ماضی کو بہت زیادہ ڈسکس نہیں کرنا کیونکہ بہت سارے اہل نظر سب جانتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ 1035 دنوں کے بعد بھی عمران خان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ دس اپریل کو تھے بلکہ اسے مزید واضح کر لیجئے کہ وہ اپنی مزید حماقتوں سے مزید بری صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ملک دشمن حرکتوں سے ان بندشوں کو مزید مضبوط کر لیا ہے جن میں وہ اپنی نااہلی، بدعنوانی اورہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسایا تھا۔ وہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعدبڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں۔ شہباز شریف اور مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی روئے چیخئے یا پیٹے، پی ٹی آئی ختم شُد ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی یہ ہے کہ رہے ہیں رہا ہے کے بعد کے لئے مگر وہ تھا کہ

پڑھیں:

عمران خان نے ناراضی کی کوئی بات نہیں کی، انکے دل میں کیا ہے کچھ نہیں کہہ سکتا، گنڈاپور

وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ مجھے جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی اس لیے بانی کی ناراضی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے جب میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے ناراضی کی کوئی بات نہیں کی، ان کے دل میں کیا ہے اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عمران خان کی ناراضی سے متعلق سوال پر علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ مجھے جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی اس لیے بانی کی ناراضی کے بارے  میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میڈیا جیل سماعت میں جاتا ہے، بانی پی ٹی آئی سے خود پوچھ لے وہ مجھ سے ناراض ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا بانی پی ٹی آئی عمران خان سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے ناراضی کی کوئی بات نہیں کی، بانی پی ٹی آئی کے دل میں کیا ہے اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھا اگر حکومت ہمارے مطالبات پورے کرتی ہے تو مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے لیے ہم نے اور حکومت نے بھی کمیٹی بنائی تھی، ہمارے مطالبات پر عمل نہیں ہوا تو ہم نے مذاکرات ختم کر دیے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھا ہمارے صوبے کی گورننس پر صرف بیانیہ بنایا جا رہا ہے، دیگر صوبوں کی حکومتیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر مناظرہ کر لیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات کے حوالے سے سوال پر علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا پارٹی کے اندر ہر حلقے میں مخالف ہوتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان نے ناراضی کی کوئی بات نہیں کی، انکے دل میں کیا ہے کچھ نہیں کہہ سکتا، گنڈاپور
  • عمران خان کے دل میں کیا ہے اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا:علی امین گنڈاپور
  • عمران کی کسی بھی سزا پر کسی نے احتجاج نہیں کیا،عظمیٰ بخاری
  • موت کی چکی میں رکھا گیا، عمران خان کا آرمی چیف کو دوسرا کھلا خط
  • عمران خان نے آرمی چیف کو دوسرا کھلا خط بھی لکھ دیا
  • موت کی چکی میں رکھا گیا، سیل کی بجلی تک بند کر دی گئی، عمران خان کا آرمی چیف کو دوسرا کھلا خط
  • عمران خان نے آرمی چیف کو دوسرا خط بھی لکھ دیا
  • عمران خان کی کسی بھی سزا پر کسی نے احتجاج نہیں کیا: عظمیٰ بخاری
  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں