کچھ کچھ سحر کے رنگ پْر افشاں ہوئے تو ہیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
جب تک سیاسی صورت حال میں ٹھہراؤ اور بدلاؤ نہیں آتا اطمینان قلب حاصل نہیں ہو گا لہذا ضروری ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے غور فکر کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کی اہمیت کو تسلیم کریں انہیں غربت بیماری اور جہالت سے نجات دلوائیں اس کے بغیر سیاسی استحکام نہیں آسکتا ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ عوام کی حمایت و ہمدردی حاصل کی جائے اس پہلوکو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔نجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔
عوام نے تو کبھی اپنے حکمرانوں کو مایوس نہیں کیا انہوں نے جو بھی کہا وہ اس پر سر دھنتے رہے مگر انہیں ہمیشہ کمتر ناسمجھ اور احمق تصور کیا گیا انہوں نے ان کے اس خیال کوبھی درست کہہ دیا مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑے دماغ والوں نے ملک کو کیوں بیرونی قرضوں سے چھٹکارا نہیں دلوایا اسے جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں کیوں نہیں کھڑا ہو سکا اس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں بس الزام تراشی ہے جو ایک دوسرے پر کی جا رہی ہے اور ڈنگ ٹپایا جا رہا ہے؟ اہل اختیار کی طرز حکمرانی دیکھیے کہ ملک کی سب سے بڑی عوامی سیاسی جماعت کو ذرا بھر بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا جارہا نتیجتاً پورے ملک میں ایک اضطراب ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جسے ختم کرنے کے لئے بظاہر حکومت کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے رہی جبکہ وہ جیسے بھی اقتدار میں آئی ہے آ تو گئی ہے اسے چاہیے تھا کہ وہ ناراض اور نظر انداز کیے گئے سیاستدانوں کو اعتماد میں لیتی اور موجودہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے مشاورت کرتی اگرچہ انہیں اس امر کا دکھ ہے کہ انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بیٹھنے دیا گیا مگر وہ اس کے نرم رویے سے ضرور متاثر ہوتے اور اپنے ’’دْکھ‘‘ کو ایک حد تک بھلا دیتے مگر نہیں ایسا سوچا ہی نہیں گیا لہذا ان کو ہر نوع کی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جینے کی راہ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہے مگر پھر بھی وہ جی رہے ہیں ان کی اس طرز زندگی کو اہل اقتدار ان کی کمزوری سمجھ رہے ہیں لہذا وہ اپنی مرضی کے قوانین بنانے لگے ہیں جو بڑے حیران و پریشان کن ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوانین لوگوں کو آسانیاں و راحتیں دینے کے لئے ہوتے ہیں مگر یہ جو قانون سازی کی جا رہی ہے وہ تو انہیں تکالیف پہنچا رہی ہے کیونکہ جب تک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوتے یعنی روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کو ممکن نہیں بنایا جاتا تب تک نئے قوانین سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتیاگرچہ ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جا رہا ہے مگر اس سے حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے لہذا قانون سازی کے لئے حزب اختلاف کو ساتھ ملایا جائے تاکہ ایسے قوانین بنیں جن سے کم از کم مشکلات پیش آئیں مگر ا س کی پروا نہیں کی جا رہی یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت سے بے حد بیزار دکھائی دیتے ہیں۔
بہر حال وطن عزیز میں موجود اضطراری کیفیت پر قابو پانے کے لئے حکومت کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔پی ٹی آئی جو بہت سی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بھی اپنی جگہ موجود ہے کو قومی دھارے میں لانا ہو گا اس کے جو جائز مطالبات ہیں ان پر غور کرنا ہو گا۔یہ جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے وہ کسی طور بھی درست عمل نہیں وہ پر امن احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیں حکومت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہو گا کیونکہ دنیا اب جمہوریت کے حق میں ہے لہذا سخت گیر اقدامات سے اجتناب برتا جائے مگر حکومت کے مشیر اسے طرح طرح کی پٹیاں پڑھا رہے ہیں اس طرح ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کچھ بہتر کرکے دکھانا ہو گا جو مختلف بھی ہو‘ کیا اس کا کوئی امکان ہے ؟ ہمیں نہیں نظر آرہا کہ کوئی انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔وہی روایتی حکمرانی اور وہی رویہ ہے جسے حکمران ایک مدت سے اختیار کرتے چلے آرہے ہیں۔عارضی پروگراموں سے یہ نظام نہیں بدلنے والا اس کے لئے دیر پا منصوبے بنانا ہوں گے جس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہو گا کیونکہ ملک کی معاشی حالت خراب تر ہے جس سے ہر غریب کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔امیر طبقہ تو موجیں کر رہا ہے ۔
بیوہ کو تاحیات نہیں صرف دس برس تک پینشن ملے گی یعنی ہر طرح سے لوگوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ روشنی اندھیرے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے کیونکہ اہل اختیار پر دائیں بائیں سے دباؤ پڑنے لگا ہے۔ اگرچہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے چین کے ساتھ تین سو ملین سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں مگر اس سے پلک جھپکتے میں حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے نظام کی جس میں قومی دولت محفوظ ہو اگر ایسا نہیں تو سب قصے کہانیاں ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جا رہا ہے نہیں ہو رہے ہیں نہیں کی جا رہی ہے مگر کے لئے رہی ہے نہیں ا
پڑھیں:
ہمارا نظریاتی و سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ریاست پر کوئی اختلاف نہیں، گورنر سندھ
اوورسیز پاکستانی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ ایس آئی ایف سی منصوبہ ون ونڈو آپریشن ہے جہاں سے سرمایہ کاروں کو بھرپور معاونت فراہم کی جا رہی ہے، اڑان پاکستان کے تحت قومی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اوورسیز پاکستانی اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ ہمارا نظریاتی اور سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ریاست پر اختلاف نہیں ہوسکتا کیونکہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پہلے اوورسیز پاکستانی کنونشن سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ گورنر سندھ نے مزید کہا کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر معیشت کے مزید استحکام کے لئے شب و روز محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی منصوبہ ون ونڈو آپریشن ہے جہاں سے سرمایہ کاروں کو بھرپور معاونت فراہم کی جا رہی ہے، اڑان پاکستان کے تحت قومی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اوورسیز پاکستانی اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ گورنر سندھ نے 77 سالہ تاریخ میں اس سال سب سے زیادہ زرمبادلہ بھیجنے پر اوورسیز پاکستانیوں کو مبارک باد بھی دی۔