اللہ کی مخلوق کولوٹ کرہم پھراس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمیں اب اللہ اوراس کے پیارے حبیبﷺ کی زیارت ہو۔بھلاہمارے جیسے ظالموں اور گناہ گاروں کوبھی اللہ اوراس کے رسول کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔؟کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتاہے۔اللہ واقعی ملتاہے مگرملنے کی تڑپ ،خواہش اوردل میں خداکاخوف رکھنے والوں کو۔جن لوگوں کے شب وروزہماری طرح مخلوق خدا کو ایذا رسانی، دکھ، درد، نقصان،پریشانی اورتکلیف پہنچانے میں گزررہے ہوں ایسوں کو خدا کیسے ملے گا۔؟ اس سوال کاجواب شائد کسی کے پاس نہ ہو۔ خدا توکہتاہے کہ تم گرتے ہوئوں کو تھامو، غریبوں، مجبوروں اور مظلوموںکا ہاتھ پکڑو، میں تمہیں مل جائوں گا لیکن ہم غریبوں، مجبوروں، مظلوموں اور گرے ہوئوں کو دھکوں پردھکے دے کریہ سوچتے اورسمجھتے ہیں کہ اب خداہمیں مل جائے گا۔ایک طرف ہم خداکو ڈھونڈرہے ہیں لیکن دوسری طرف ہم اسی خداکی بے زبان مخلوق کولوٹنے اورمارنے سے بھی بازنہیں آ رہے۔ ڈاکٹر ہے، تاجر ہے، ڈرائیور ہے، ٹیچر ہے، انجینئر ہے، سرمایہ کار ہے، صنعتکار ہے، خان ہے ،نواب ہے، چوہدری ہے، وڈیرہ ہے، سیاستدان ہے یا پھر کوئی حکمران۔ ہرشخص اورفرداس تاک اورانتظارمیں بیٹھارہتاہے کہ مخلوق خداکی مجبوری اورکمزوری سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔؟آپ اپنے اردگرددیکھیں آپ کو روزانہ درجنوں اورسینکڑوں نہیں بلکہ ایسے ہزاروں لوگ ملیں گے جومخلوق خداکولوٹنے اورمارنے کے انتظارمیں بیٹھے ہوں گے۔ کسی مجبورکونہ تاجرمعاف کرتے ہیں اورنہ کوئی ڈاکٹرانہیں ٹیکہ لگائے بغیرچھوڑتاہے۔نہ صرف تاجر اور ڈاکٹر بلکہ ڈرائیور، ٹیچر، انجینئر،سرمایہ کار، صنعتکار،خان ،نواب ،چوہدری اورسیاستدان جوبھی کسی مجبور اور کمزور کو دیکھتے ہیں اس کوکاٹنے اورڈسنے کے لئے ان کاخون جوش مارنے لگتاہے۔مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناتواس ملک اورمعاشرے میں ایک عام سی بات ہے۔اللہ نہ کرے آپ کسی مجبوری میں ہوں اوراس کاکسی تاجر، ڈرائیور،ڈاکٹریاکسی سیاستدان کوپتہ لگے۔ مجبور کو تو محلے کادکاندار اورایک عام ریڑھی بان بھی نہیں بخشتا۔ آپ نے اگر غلطی سے کسی تاجر، ڈرائیور، ڈاکٹر یا سیاستدان کوکہہ دیاکہ میری مجبوری ہے میرے ساتھ یہ چھوٹی سی بھلائی کردیں جواب میں وہ آپ کے ساتھ ایسی بھلائی کریں گے کہ آپ کیا۔؟آپ کی آنے والی سات نسلیں بھی پھراس بھلائی کو یاد رکھیں گی۔ہمارے ایک دوست ماسٹر شوکت کہتے ہیں کہ غلطی سے بھی کبھی کسی تاجر، ڈرائیور اور سیاستدان کے سامنے اپنی مجبوری کاذکرنہ کرناورنہ ایساڈنک ماریں گے کہ پھرآپ برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ماسٹرصاحب کہتے ہیں کہ ایک بارمیں کہیں جنازے پر جا رہاتھااس علاقے تک بکنگ پرہزارپندرہ سو تک میں گاڑی جاتی تھی میں نے غلطی سے اڈے میں موجودڈرائیورسے جنازے میں لازمی شرکت کی مجبوری کا ذکر کیا۔ پھر کیا ڈرائیور اڑ گیاکہ وہاں چار ہزار سے کم پر کوئی نہیں جاتا،میں دوسرے ڈرائیورکے پاس گیاتومیرے جانے سے پہلے اس ڈرائیورنے اسے بھی میری مجبوری کا بتا دیا تھا۔ یہاں تومجبوروں کویہ ظالم آسمان پرمانگتے ہیں ،زمین پر توان کے ہاتھ جولگااس کاپھراللہ ہی حافظ ہے۔یہ حالات ہیں ہمارے ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کی رضااور خوشنودی کیسے ملے۔اللہ توان کو ملتا ہے جو مشکل، پریشانی، بیماری، آزمائش اورکسی مصیبت میںاللہ کی مخلوق کاسہارابنتے ہیں۔کہیں ایک واقعہ پڑھاتھاکہ کسی زمانے میں ایک عابد نے ”خدا کی زیارت” کے لئے چالیس دن کا چلہ کاٹا۔وہ عابد دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے وہ یکسر کٹا ہوا تھا۔ اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گزرتا تھا۔چلے کی36 ویں رات اس عابد نے غیب سے ایک آواز سنی۔ شام 6 بجے تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو۔ عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا۔وہ کہتا ہے میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی،اسے وہ بیچنا چاہتی تھی۔ وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا۔چار ریال ملیں گے،وہ بڑھیا کہتی نہیں چھ ریال میں بیچوں گی پر کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھا۔آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی۔ تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔بوڑھی عورت نے کہا۔میں یہ برتن بیچنے کے لئے لائی ہوں اور میں اسے چھ ریال میں بیچوں گی۔ کیا آپ اس کے چھ ریال دیں گے۔۔؟ تانبہ ساز نے پوچھا۔چھ ریال میں ہی کیوں۔۔؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا۔میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لئے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا۔ماں جی یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا۔بوڑھی عورت نے کہا۔کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔؟تانبے والے نے کہاہرگز نہیں۔میں واقعی پچیس ریال دوں گا،یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے۔ بوڑھی عورت پہلے بہت حیران ہوئی پھردعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دکان والے سے کہا۔چاچا لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا۔۔؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور چار ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدلیا۔بوڑھے تانبہ ساز نے کہامیں نے برتن نہیں خریدا ہے،میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لئے اور ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے۔عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا۔ اتنے میں غیبی آواز آئی۔چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا۔ گرتے ہوئوں کو تھامو، غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تانبہ ساز ریال میں کی زیارت ہے میں نے کہا خدا کی ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب
حالیہ دنوں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ایک جملہ کہا جو گویا ہر بیرون ملک پاکستانی کے دل کی آواز تھا: ’ہر پاکستانی جہاں بھی ہو، پاکستان کا سفیر ہے، اُسے وطن کے وقار کا دفاع کرنا ہے اور سچائی کی آواز بننا ہے۔ یہی بات چند روز قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پھیلنے والی جھوٹ پر مبنی مہمات کے تناظر میں کہی کہ قوم کے اندر سے ایک منظم اور مربوط جواب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان دونوں قائدانہ بیانات نے قوم کو نہ صرف خبردار کیا بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو مخاطب کر کے ایک نیا تقاضا ان کے سامنے رکھا۔ وطن کا دفاع، سچائی کی تبلیغ، اور قومی بیانیے کی ترجمانی۔
ان الفاظ کی بازگشت سن کر، دیارِ غیر میں بسنے والا ہر پاکستانی ایک لمحے کے لیے رُک کر ضرور سوچتا ہے: کیا میرا وطن بھی میرے لیے وہی کردار ادا کر رہا ہے، جس کی مجھ سے توقع رکھتا ہے؟ کیا جس محبت اور وابستگی کے ساتھ میں پردیس کی ریت میں پاکستان کے نام پر اپنا خون پسینہ بہاتا ہوں، وہی احساس ریاستی نظام میں میرے لیے موجود ہے؟
اوورسیز پاکستانی کوئی اجنبی برادری نہیں، وہی لوگ ہیں جو اپنے خواب، خاندان، اور بچپن کی گلیاں پیچھے چھوڑ کر دیارِ غیر میں اپنی اور اپنے وطن کی قسمت سنوارنے نکلے۔ ان میں محنت کش بھی ہیں، پیشہ ور بھی، اور کاروباری حضرات بھی۔ ان کی ترسیلات زر، ان کی دعائیں، ان کی سفارتی نمائندگی اور ان کا کردار ہر اُس مقام پر پاکستان کے لیے وقار کا باعث ہے جہاں پرچمِ سبز و سفید براہِ راست نہیں لہراتا۔
تاہم، ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام، اُن کے ساتھ محض زرمبادلہ کے رشتے سے نہ جُڑا ہو، بلکہ ایک ایسا تعلق قائم ہو جو سہولت، عزت، شمولیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ ان کی توقعات کوئی غیرمعمولی نہیں وہ صرف چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہی ریاستی خدمات دی جائیں جو ملک میں موجود کسی شہری کو حاصل ہیں، چاہے وہ خدمات شناختی کارڈ کی تجدید سے ہوں یا تعلیمی اسناد کی تصدیق سے، جائیداد کی ملکیت ہو یا قانونی معاونت، ریکارڈ تک رسائی ہو یا معلومات کی فراہمی۔
مگر افسوس کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی صرف ایک زمین کی فرد، کسی مقدمے کی تفصیل، یا تعلیمی دستاویز کی تصدیق کے لیے پاکستان آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں مصنوعی ذہانت، بلاک چین، اور ڈیجیٹل گورننس جیسے تصورات نے قوموں کی بیوروکریسی کو ایک ایپ میں سمو دیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان بھی ایک ایسا مرکزی اور مربوط ڈیجیٹل نظام قائم کرے جو ہر پاکستانی خواہ وہ گلگت میں ہو یا ریاض میں، ساہیوال میں ہو یا دبئی میں اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے ریاست سے جڑا ہو؟
شناختی کارڈ کو ایک ایسا قومی کوڈ بنایا جائے جو تمام اداروں (نادرا، ایف بی آر، محکمہ مال، تعلیمی بورڈز، عدالتیں، پولیس، وزارت خارجہ) سے منسلک ہو۔ ہر پاکستانی شہری کو ایک ایسا پورٹل فراہم کیا جائے جہاں وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے لاگ ان ہو کر اپنی تمام معلومات، دستاویزات، اور درخواستیں مکمل کر سکے۔ تحقیق کے لیے بھی شناختی کارڈ ہی کلید بنے جیسے شہریت ہے، ویسے ہی سہولت ہو۔
یہ صرف ایک سہولت نہیں، یہ ریاست اور شہری کے درمیان رشتے کی از سرِ نو تعریف ہوگی۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب ایک اوورسیز پاکستانی پہلی بار خود کو محض ترسیلات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل پاکستانی شہری محسوس کرے گا۔
اب آئیے وزیرِ اعظم کے دوسرے بیان کی طرف پروپیگنڈے کا مقابلہ اور پاکستان کا دفاع۔ دنیا بھر، خاص طور پر عرب دنیا میں، پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے، افواہیں اور پروپیگنڈا مہمات وقتاً فوقتاً شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ افسوس کہ ان مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مؤثر، ریاستی سطح پر منظم عربی زبان کا پلیٹ فارم موجود نہیں۔ جب دشمن ہماری شناخت عربی زبان میں مسخ کرتا ہے تو ہماری خاموشی گویا تائید بن جاتی ہے۔
یہاں ایک قومی ضرورت ابھرتی ہے: پاکستان کو ایک ایسا سنٹرل عربی میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہیے جو عرب دنیا کے ناظرین کو پاکستان کی درست تصویر پیش کرے، دوست ممالک سے تعلقات کو ثقافتی اور علمی بنیادوں پر مضبوط کرے، اور مخالفین کی عربی زبان میں کی جانے والی مہمات کا محقق اور شائستہ جواب دے۔ یہ مرکز نہ صرف دفاعی بیانیہ بنائے بلکہ پاکستان کے مثبت پہلو تعلیم، مذہب، ثقافت، ترقی، خواتین، اور سائنس کو عرب دنیا کے سامنے رکھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانی ان مہمات میں پاکستان کے سب سے بڑے محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ وہاں کی زبان، معاشرت اور سوچ سے واقف ہیں۔ اگر ریاست انہیں مواد، تربیت، اور ایک مربوط پلیٹ فارم فراہم کرے تو وہ محض ترسیلات بھیجنے والے نہیں بلکہ نظریاتی صفوں کے اولین سپاہی بن سکتے ہیں۔
جہاں تنقید ہو وہاں انصاف بھی لازم ہے۔ حکومتِ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں کچھ خوش آئند اقدامات کیے ہیں: جیسے تعلیمی اداروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے کوٹہ، ایف بی آر میں فائلر کی حیثیت، خواتین کی عمر کی رعایت، اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے منصوبے۔ وزیرِ اعظم کا خطاب بھی اسی شعور کی ایک کڑی ہے۔ یہ سب اقدامات قابلِ تحسین ہیں، مگر اب وقت ہے ان اقدامات کو ایک جامع اور مستقل قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ پائیدار ہو۔
اوورسیز پاکستانی کسی گوشے میں بیٹھے خاموش تماشائی نہیں، وہ اُس قومی جسم کی زندہ رگیں ہیں جو وطن سے ہزاروں میل دور بھی دھڑک رہی ہیں۔ اگر انہیں ریاست کی سہولت، عزت، اور رابطہ حاصل ہو جائے تو وہ صرف بیرون ملک سفیر نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے محافظ، مشیر، اور معمار بن سکتے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم انہیں وہ پاکستان دیں جو ان کے دل میں ہے، سہل، جڑا ہوا، باوقار، اور جواب دہ۔ یہ نہ صرف ان کا حق ہے، بلکہ ہماری قومی حکمت، سفارتی ضرورت، اور انصاف کی تکمیل بھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں