قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے!!
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
رفیع سودا کا شعر آج کل ہر طرف رائتے کی طرح پھیلے خطوط کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔سودا کہتے ہیں ۔
تیرا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
نہ جانے کہ اس آغاز کاانجام کیا ہوگا
انجام کا تو شاید کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں لیکن پاکستان میں خط لکھنے کا سلسلہ جو قاضی فائز عیسیٰ صاحب شروع کرگئے تھے وہ ایک وبا کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے پہلے یہ سلسلہ جسٹس منصور علی شاہ سے اسلام آبادہائی کورٹ آیاتو وہاں سے خطوط لکھے گئے۔ ایک خط امریکا سے بھی آیا تھا اُسی خط کو بگاڑ کا بانی بھی کہاجاسکتا ہے ۔اُس خط کا حاحل تو یہ ہوا کہ اس خط کو پڑھ کر بتانے والے عمران خان کیخلاف مقدمہ تک بنایا گیا۔عمران خان کو سزا بھی ہوئی اور وہ بری بھی ہوئے ۔ویسے خط لکھنے پر پرویز مشرف نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کو سزا دلوادی تھی۔ اب بانی پی ٹی آئی کی طرف سے آرمی چیف کو لکھا گیا ایک کھلا خط سامنے آگیا ہے۔
اب خط تو وہ لکھ بیٹھے ہیں اور سوال کرنے والے ایسے ایسے سوال پوچھتے ہیں جیسا کہ احسن مارہروی کہتے ہیں کہ۔
کسی کو بھیج کے خط۔ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے۔ نامہ بر آیا جواب آیا
کچھ کہتے ہیں کہ جواب کی نوبت تو تب آتی اگر خط ان کو ملاہوتا یہاں توصورتحال کو بہرام جی کے اس شعر سے تشبیہہ دی جارہی ہے کہ۔۔
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
خط لکھنے والے عمران خان کے مخالف لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خط نہیں انہوں نے کوئی معافی نامہ لکھ دیا ہے جیسا نظام رامپوری کہتے ہیں کہ۔
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
اب بات جواب پر رکی ہوئی ہے اور اس پر بھی اپنی خواہشوں کو خبروں کا روپ دینے کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ امیر مینائی نے کہا تھا کہ ۔
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
اگر جواب نہ ہی آئے تو یہ نسخہ بھی استعمال کیاجاسکتا ہے جیسا فہمی بدایونی نے کیا تھا کہ ۔۔
میں نے اس کی طرف سے خط لکھا
اور اپنے ہی پتے پہ بھیج دیا
یاپھر داغ دہلوی کی زبانی کہ۔۔۔
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
ایسا بھی تو ہوتاہے ناں کہ جب سامنے والا خط کا جواب نہ دے یا اس کو پڑھنے میں ہی دلچسپی نہ رکھے اور مختلف ذرائع سے یہی پیغام بھجوائے کہ وہ خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس کے بعد بھی اگر کوئی خط لکھنے سے باز نہ آئے تو صورتحال کچھ یہ بھی ہوسکتی ہے جیسا مومن خان مومن نے کہا تھا کہ ۔۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
اب یہاں کسی قاصد کی لاش تو نہیں ہے لیکن جن کو لکھا گیا ہے وہ ماننے کو تیارنہیں کہ ان کو کوئی خط ملا بھی ہے لیکن لکھنے والے خود کو مطمئن کررہے ہیں کہ خط تو لکھا گیا ہے بلکہ وہ تو ایسی ایسی تصویر کشی کررہے ہیں جیسا ماتم فضل محمد نے کہا تھا کہ۔۔
خط دیکھ کر مرا۔ مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گُل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز
اورپھر لکھنے والے تو ایسی خوش فہمی میں ہیں جیسا سردارگینڈاسنگھ مشرقی نے کہا تھا کہ۔۔
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
بلکہ شاید ان کو یہاں تک کی امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جیسا کہ دواکر راہی جی کی زندگی میں آیا تھا کہ ۔۔
غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
اب صوتحال یہ بنے گی کہ،کوئی جواب آئے گا، وہ خود آئیں گے یا پھرمعاملہ کچھ یوں ہوجائے گا جیسا مرزاغالب کے ساتھ ہوا تھا کہ ۔۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اب اس خطوط نویسی کی سیاست کیا کوئی رنگ بھی لائے گی یا ہر بار یہی جواب آئے گا کہ ہماری طرف سے جواب ہی ہے ۔۔؟
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: نے کہا تھا کہ خط لکھنے کہتے ہیں جواب میں ہے جیسا ہیں کہ
پڑھیں:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ نہ کوئی داغ
نواب زادہ نصراللہ ایک دفعہ کسی تعلیمی ادارے میں طلبہ کے ساتھ ایک نشست میں سوالوں کے جوابات دے رہے تھے یہ پروگرام ٹی وی پر میں نے خود دیکھا تھا یہ یاد نہیں ہے کہ کس شہر میں اور کس تعلیمی ادارے میں یہ پروگرام ہوا تھا۔ اس نشست میں ایک سوال ان سے ایسا کیا گیا کہ وہ خود بھی تھوڑا سا ہل گئے حالانکہ وہ بڑے ذہین اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ آپ کی پوری زندگی سیاسی جدوجہد میں گزری ہے ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جب ملک میں مارشل لا ہوتا ہے تو آپ بحالی جمہوریت کی جدوجہد کرتے ہیں اور جب ملک میں جمہوریت ہوتی ہے تو آپ مارشل لا کی جدوجہد کرتے ہیں ایسا کیوں؟ نواب زادہ نصراللہ نے اس کا جواب دینے کی کوشش تو کی لیکن سوال اتنا زور دار تھا کہ ان کی وضاحتین طلبہ کو مطمئن نہ کرسکیں۔ اب ہمارے ملک کے حالات اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ اب ملک میں کبھی مارشل لا نہیں آسکتا، وہ اس لیے بھی نہیں آسکتا کہ اب نواب زادہ نصراللہ، پروفیسر غفور، مفتی محمود، شاہ احمد نورانی جیسے سیاستدان نہ رہے، جو مارشل لا کے دور میں بحالی جمہوریت کی جدوجہد کرتے تھے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر تو نہیں ہوگا لیکن اس کی روح ہم پر ہمیشہ حاوی رہے گی۔
ایک دفعہ شیطان کہیں بیٹھا رو رہا تھا، بڑے شیطان کا ادھر سے گزر ہوا تو اس کو روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے بھائی اس نے جواب دیا کہ تم نے کن لوگوں میں میری ڈیوٹی لگائی ہے انہیں میں دن میں بہکاتا ہوں تو یہ رات کو توبہ کرلیتے ہیں اللہ انہیں معاف کردیتا ہے اور جب انہیں رات میں بہکاتا ہوں تو یہ دن میں توبہ کرلیتے ہیں، اس طرح میری ساری محنت اکارت ہوجاتی ہے اسی لیے رو رہا ہوں۔ بڑے شیطان نے کہا میں تجھے ایک ترکیب بتاتا ہوں تو ان کو ایسے غلط کاموں میں لگادے جسے یہ ثواب سمجھ کر کریں جب یہ ایسا کریں گے تو پھر توبہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بس وہ اوپر سے نیکی نظر آئے اور اندر سے بدی ہو، اوپر سے اچھا ہو اندر سے خراب ہو، پیکنگ بہت اچھی ہو لیکن اندر سے مال خراب ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت نے غیر ضروری اور اضافی کاموں کو لازمی کرلیا ہے اور دین میں جو ضروری چیزیں ہیں انہیں چھوڑ دیا۔ اصول کو ترک کردیا اور جز کو پکڑلیا ہے۔ اگر اسی مثال کو کچھ اس طرح سے لیا جائے کہ ’’مارشل لا‘‘ ایک جگہ بہت مغموم بیٹھا تھا کسی دانا کا اس کے پاس سے گزر ہوا اس نے پوچھا کیا بات ہے تم اتنے اداس کیوں ہو اس نے جواب دیا کیا کریں پاکستان کے حالات دیکھ کر دل بہت کڑھتا ہے قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے، ستر فی صد سے زائد لوگ غربت کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں مہنگائی آسمان کو چھورہی کرپشن کے سمندر میں ملک ڈوب رہا ہے، سہانے مستقبل کی خاطر نوجوان باہر جاکر سمندر برد ہورہے ہیں سوچتا ہوں کہ میں آکر سب ٹھیک کردوں لیکن آنہیں سکتا قوم اب مجھے پسند نہیں کرتی، ہم جب بھی آتے ہیں شروع میں تالیاں بجا کر ہمار بہت خوشگوار استقبال کیا جاتا ہے لیکن تھوڑے دنوں بعد سب مخالف ہوجاتے ہیں تمام سیاستدان ایک پیج پر ہوجاتے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوکر اتحاد بنالیتی ہیں اور ہمیں نکال باہر کرنے کے لیے تحریک چلاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ تو کچھ ابن الوقت مفاد پرست ہوتے ہیں جنہیں عوام پہلے ہی مسترد کرچکے ہوتے ہیں۔ بس اسی لیے اداس بیٹھا ہوں۔
دانا نے کہا ہم تو تمہیں بہت ذہین سمجھتے تھے، ارے بھئی اب تمہیں اس طرح بہ بانگ دہل آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بندوق سے لے کر ایٹم بم کا بٹن تک آپ کے ہاتھ میں ہے آپ اس ملک کے اہم اداروں کو اپنے قبضے میں کرلیں ان اداروں میں مقننہ، منتظمہ، عدلیہ اور میڈیا یہ چار اہم ہیں۔ انتظامیہ کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ تو جو برسراقتدار ہو اسی کے اشارے سمجھتی ہے۔ بقیہ تین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپ کو پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا اس لیے اپنی پسند کا الیکشن کمشنر لے آئیے وہ الیکشن کمیشن ملک میں انتخاب کرائے لیکن نتائج آپ مرتب کرکے دیں جو وہ ریڈیو ٹی وی پر سنادے (پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمن نے بیان دیا تھا کہ ہمارے ملک میں انتخاب تو الیکشن کمیشن کراتا ہے لیکن نتائج کہیں اور مرتب ہوتے ہیں) جب ایوان میں آپ کی مرضی کے لوگ اور جماعتیں آجائیں گی تو جو چاہیں ان سے قانون منظور کرالیں انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس بل کی حمایت میں ہاتھ اٹھا رہے ہیں انہیں تو اپنی تنخواہوں اور مراعات سے دلچسپی ہے۔ مارشل لگانے کا بس آخری بار ایک موقع مل جائے سچ بات یہ ہے کہ قوم کی حالت دیکھ کر میرا دل اندر سے بہت دکھی ہے۔ دانا نے جواب دیا آپ کی گفتگو سے لگتا ہے کہ آپ واقعتا کچھ کرنا چاہتے ہیں اس لیے یہ کام تو ہوگیا کہ آپ کی پسند کی قیادت آگئی جو بے چوں و چراں اطاعت کررہی ہے اگر عوام کی پسند کی قیادت ہوتی تو آپ کو اس کی اطاعت کرنا پڑتی۔ اب بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے اگر واقعی دل سے قوم کی خدمت کا جذبہ ہے تو آگے بڑھیے اور ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی جو منصوبہ بندی کی ہے اس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں اور مستقبل میں ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن نظر آرہی ہے اس لیے کہ اگر ہمارے ملک کے معاشی حالات اچھے ہوں گے تو ہمارا ایٹمی ڈیٹرنٹ محفوظ رہے گا یہ محفوظ ہوگا تو ملک بھی محفوظ رہے گا۔ بس آپ اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم عمل رہیں۔ اس وقت جو حکومت ہے وہ چاہے کسی بھی فارم والی ہو لیکن آپ کی پالیسیوں کو رو بہ عمل لانے کے لیے بڑے فارم میں نظر آرہی ہے۔ لوگوں کی تنقید کی پروا نہ کیجیے لوگ تو یہی کہیں گے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بس اپنے ربّ سے دعا اور عہد کیجیے۔ وہ دعا اور عہد کیا ہے اس کو بتانے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے آپ ہی کے کسی بھائی ایک دفعہ یہ بیان دیا کہ ملک کے پاور سیٹ اپ میں ہمیں بھی اسپیس دیا جائے دوسرے دن وزیراعظم نے ان کو اپنے دفتر میں بلا کر اس بیان کی وضاحت مانگی وزیر اعظم مطمئن نہیں ہوئے اور ان سے استعفا طلب کرلیا کہ یہ عوام کی امانت ہے جو عوامی نمائندوں کے لیے ہے ریاست کے کسی ادارے کو اس میں اپنے لیے گنجائش کی بات نہیں کرنا چاہیے۔
بس وہ دعا اور عہد یہی ہے کہ اپنے ربّ سے ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے جو فیصلے کیے ہیں اس میں برکت کی دعا کیجیے اور اخلاص کے ساتھ اپنی کامیابی کے لیے دعائیں مانگیں اور یہ بھی دعا کیجیے کہ اب تک جو غلطیاں ہم سب سے ہوئی ہیں اللہ انہیں معاف فرمائے اور یہ عہد کیجیے کہ جیسے ہی ملکی معیشت کی گاڑی پٹڑی پر آگئی، معاشی ترقی کی جانب سفر جاری ہوگیا ہے اس میں چاہے ایک سال لگ جائے یا دو سال آپ ملک میں صاف ستھرے آزادانہ ماحول میں انتخاب کرانے کا اعلان کردیں اس سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور پھر یہ اعلان بھی کیا جائے کہ ملک کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر آزادی سے کام کریں گے اور کوئی کسی دوسرے ادارے کی حدود میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔ ہر ادارے میں اس ادارے کے لوگ مل جل کر اپنے ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ عدلیہ بغیر کسی دبائو کے تیزی سے فیصلے کرے گی اور عوام کو جلد انصاف دینے کا کام کرے گی۔ بیوروکریسی ریاست اور عوام کی بھلائی کے لیے کام کرے گی کسی سیاسی جماعت کی چاکری نہیں کرے گی۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت قائم کریں گے جو پارٹی اقتدار میں ہو یا جو اپوزیشن میں دونوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے یا کسی قسم کی انتقامی کارروائی کے بجائے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ ایف بی آر کا ادارہ اپنے اندر کی کرپشن ختم کرے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کام کرے جو اس کا اصل کام ہے۔ کرپشن کے خلاف سب کو مل کر جہاد کرنا ہوگا۔ دانا نے کہا کہ یقین جانیے اگر آپ یہ سارے کام کرکے واپس اپنے ادارے کو مزید اچھا اور بہتر بنانے میں لگ گئے تو یہ قوم ساری زندگی آپ کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔