کیا واقعی پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں؟ اصل مسئلہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اکثر ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس چور ہے، وہ ٹیکس نہیں دیتی اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی، نہ صحت کی سہولیات مل سکتی ہیں، تعلیم اور نہ روزگار۔ لیکن کیا یہ دعوے واقعی سچ ہیں؟ اور اگر فرض کرلیں کہ جو لوگ اس وقت ٹیکس دے رہے ہیں وہ پوری زندگی ٹیکس دیتے رہیں، تو کیا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ آج ہم ڈیٹا کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اصل کہانی کیا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ملکی معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ عوام نے پچھلے چند برسوں میں کتنا ٹیکس دیا ہے۔ اگر ہم گزشتہ چار سالوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو عوام کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں عوام نے 4,734 ارب روپے ٹیکس دیا، 2021-22 میں یہ رقم بڑھ کر 6,148 ارب روپے ہوگئی، 2022-23 میں مزید بڑھ کر 7,169 ارب روپے ہوگئی، اور 2023-24 میں یہ 9,306 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ حکومت کا ہدف ہے کہ 2024-25 میں 12,970 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جائے۔ یہ ڈیٹا واضح کرتا ہے کہ عوام نے ہر سال پہلے سے زیادہ ٹیکس دیا ہے، تقریباً دوگنا سے بھی زیادہ۔ اگر صرف گزشتہ مالی سال کی بات کریں تو انکم ٹیکس کی مد میں 4,528 ارب روپے اکٹھے کیے گئے، جن میں زیادہ تر تنخواہ دار طبقے سے لیے گئے۔ جبکہ سیلز ٹیکس کی مد میں 3,098 ارب روپے جمع کیے گئے، جو ہر شہری کو ادا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔
اس کے علاوہ، پیٹرولیم لیوی کی وصولی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران 549.
مؤقر انگریزی اخبار بزنس رکارڈر کے مطابق، 2024-25 میں حکومت کے کل اخراجات 18,877 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جنہیں مختلف مدات میں خرچ کیا جائے گا۔ ان میں دفاعی امور کے لیے 2,122 ارب روپے، صوبوں کو گرانٹس اور ٹرانسفرز کے لیے 1,777 ارب روپے، ترقیاتی اخراجات کے لیے 1,674 ارب روپے، شہری حکومت چلانے کے اخراجات 1,152 ارب روپے، سبسڈیز کے لیے 1,363 ارب روپے، اور پنشن کی ادائیگیوں کے لیے 1,014 ارب روپے مختص کیے گئے۔ یہ تمام اخراجات ملا کر 9,102 ارب روپے بنتے ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے۔ پاکستان نے صرف قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے 9,775 ارب روپے ہیںجو حکومت کے باقی تمام اخراجات سے زیادہ ہے۔ یعنی اصل مسئلہ قرضوں کا بوجھ ہے، جو ہمارے وسائل کو ختم کر رہا ہے۔
یہ خسارہ کہاں سے پورا ہوگا؟ حکومت مزید قرض لے گی، اور اس کا بوجھ عوام پر ڈالے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، 2023-24 میں بجلی کے بلوں پر 364.66 ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جمع کیے گئے۔ گیس کے بلوں پر بھی اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس سے عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی ہے۔ پانی اور نکاسی آب کی سہولیات پر بھی ٹیکس لاگو ہے، جو عام صارفین کے لیے اضافی مالی بوجھ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تقریباً ہر شے پر 18 فیصد جی ایس ٹی لاگو ہے، جو براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور مہنگائی کا سب سے زیادہ نقصان مڈل کلاس کو ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد ہوگئی ہے، اور صرف ایک سال میں 1 کروڑ 30 لاکھ پاکستانی مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، موجودہ مالی سال کی پہلے 6 ماہ میں ایکسپورٹرز اور پرچون فروشوں کے مقابلے میں تنخواہ دار طبقے نے 300 فیصد زیادہ ٹیکس دیا۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 243 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ اگر یہ کولیکشن جاری رہی، تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مالی سال ہوگا جب حکومت تنخواہ دار طبقے سے 30 جون 2025 تک قومی خزانے میں 500 ارب روپے کی خطیر رقم جمع کرے گی۔ سال 2023-24 کے دوران تنخواہ دار طبقے سے 368 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا، جو 2022-23 کے مقابلے میں 103 ارب 74 کروڑ روپے زیادہ تھا۔
سرکلر ڈیٹ ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس نے ملکی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 2023 کے اختتام پر تقریباً 2,500 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا، جبکہ گیس سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ بھی 1,500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔
یہ صورتحال صاف بتاتی ہے کہ اصل مسئلہ عوام کا ٹیکس نہ دینا نہیں، بلکہ حکومتی قرضوں اور غیر متوازن اخراجات کا ہے۔ جب تک حکومت اپنے مالی معاملات کو درست نہیں کرے گی، صرف عوام پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے معیشت بہتر نہیں ہوگی۔ حل یہی ہے کہ بے جا حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، خاص طور پر غیر ضروری سبسڈیز اور غیر پیداواری منصوبے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے تاکہ زیادہ افراد اور کاروبار ٹیکس کے دائرے میں آئیں۔ قرضوں پر انحصار کم کیا جائے اور ملکی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر، مڈل کلاس کو مزید ٹیکسوں سے بچانے کے لیے پالیسیاں تشکیل دی جائیں، تاکہ وہ مہنگائی کے طوفان میں مزید نہ پھنسیں۔
جب تک حکومت آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوگی اور خود کفیل پالیسیوں کو اپنانے کی طرف نہیں جائے گی، تب تک یہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ قرضوں پر انحصار اور غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں کی وجہ سے معیشت مسلسل بگڑتی جائے گی اور عام شہری مزید مشکلات میں گرفتار ہوتا چلا جائے گا۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، تو خود انحصاری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایک متوازن معاشی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے ارب روپے سے زیادہ مالی سال کیا جائے کے مطابق ٹیکس دیا کیے گئے کے لیے 1 عوام پر رہا ہے
پڑھیں:
رواں مالی سال: پاکستان کا پرائمری سرپلس ہدف سے تجاوز کر گیا
اسلام آباد: پاکستان نے رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اہم شرائط پوری کر دی ہیں۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق پرائمری سرپلس 2,900 ارب روپے کے ہدف کے برعکس 3,600 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
چاروں صوبوں نے 750 ارب روپے کے تخمینے کے مقابلے میں 776 ارب روپے کا سرپلس بجٹ دیا، جبکہ صوبائی ٹیکس آمدن 376 ارب روپے کے ہدف کے بجائے 442 ارب روپے رہی۔ زرعی آمدن پر ٹیکس سے مزید ریونیو بڑھنے کی توقع ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو 384 ارب روپے کے ٹیکس خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ وفاقی حکومت کا بجٹ خسارہ 2,313 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 5,141 ارب روپے خرچ کیے گئے، جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف 164 ارب روپے مختص کیے گئے۔